قلاش ملک کے شہنشاہ لوگ

نئے جوتے تو خرید لیے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ابا جی کو بتائے کون؟
چھوٹے بھا ئی سے کہا کہ تم اپنی طرف سے پیش کرو۔ اس نے صاف جواب دے دیا کہ آپ نے خریدے ہیں‘ آپ خود جا کر سامنا کریں۔ میں گیا اور عرض کیا: ابا جی! یہ آپ کے لیے نئے جوتے ہیں! ان کا سوال منطقی تھا۔ فرمایا: جب میرے جوتے ابھی بالکل ٹھیک ہیں تو نئے جوتوں کا کیا جواز ہے؟ کیوں پیسے ضائع کیے؟ اور پھر‘ میں ایک وقت میں ایک جوڑا ہی پہن سکتا ہوں!
یہ میرے یا آپ کے ابا جی کی بات نہیں! یہ ایک پوری نسل تھی جو ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے بہشت کو سدھار گئی! یہ کیا لوگ تھے! انہیں معلوم تھا کہ کثرت کی خواہش سے بچنا ہے! ان کے دل مطمئن تھے! ذخیرہ اندوزی کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں تھا! ان کے پاس اگر چھوٹا سا مکان بھی تھا تو اس سے خوش تھے۔ جوتوں کا ایک جوڑا۔ لباس فقط چند! شاپنگ اور ''ونڈو شاپنگ‘‘ کی مصیبتوں سے بچے ہوئے تھے! ان کے پاس جو کچھ تھا اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ استغنا کی دولت سے مالا مال تھے۔ اس رویّے کے اور اس طرزِ زندگی کے بہت سے مثبت اثرات تھے اور سب سے بڑا مثبت اثر یہ تھا کہ یہ لوگ آئے دن کی ذہنی پریشانیوں (ٹینشنوں) سے بچے ہوئے تھے!
ذخیرہ اندوزی صرف یہ نہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ کر لیا جائے۔ یہ بھی ذخیرہ اندوزی ہے کہ گھروں میں ملبوسات‘ جوتے‘ کراکری اور برقی مشینوں (gadgets) کے ڈھیر لگا دیے جائیں! آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام‘ مڈل کلاس فیملی کے گھر میں کتنی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے! پورے کنبے کے جوتے ہی نہیں گنے جا سکتے! پلنگ پوشوں سے الماریاں بھری ہیں! گدیوں کے غلاف (کُشن) بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ ڈیکوریشن پیس مسلسل جمع کیے جاتے ہیں۔ آن لائن شاپنگ نے ذخیرہ اندوزی کے اس رجحان کو نئی زندگی دی ہے۔ خواتین‘ جو زیادہ وقت گھر‘ شوہر اور بچوں کو دینے کے بجائے‘ سوشل میڈیا کو دے رہی ہیں‘ جب فیس بک پر کوئی اشتہار دیکھتی ہیں تو اوسطاً ہر روز ایک آرڈر دے دیتی ہیں۔ پارسل پر پارسل آتے ہیں۔ کوریئر انڈسٹری کے بھاگ جاگ اُٹھے ہیں۔ میں نے کوریئر والے ایک لڑکے سے پوچھا کہ آن لائن بزنس کا آپ لوگوں کی مصروفیت پر کیا اثر پڑا ہے؟ کہنے لگا: کام کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ اور زیادہ کام خواتین کے حوالے سے ہے۔ تکاثر (کثرت کی خواہش) کہیے یا ذخیرہ اندوزی کا رجحان کہ جب خواتین کے ملبوسات والے برانڈز پر سیل لگتی ہے تو اتنا جمگھٹا ہوتا ہے کہ لڑائیاں ہوتی ہیں اور خواتین ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتی ہیں۔ ایسے واقعات لاہور میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں اور اسلام آباد میں بھی۔ اور ایک دو بار نہیں‘ کئی بار رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ خواتین گھروں میں کام کرنے والی مائیاں نہیں بلکہ پڑھی لکھی آسودہ حال خواتین ہیں! ان کے گھروں میں الماریاں چھتوں تک ملبوسات سے بھری رہتی ہیں۔ ان گھروں میں شاید ہی کوئی کتاب نظر آئے۔ لائبریری تو دور کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جہالت‘ ذہنی پستی اور مِس انفارمیشن دندناتی پھر رہی ہے۔
ایک گھر سے دوسرے گھر میں شفٹ ہونا یہاں ایک عذاب سے کم نہیں۔ اس لیے کہ ایک اوسط آمدنی والے گھر میں بھی سامان بے تحاشا ہوتا ہے۔ ایک امریکی‘ امریکہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے آسانی سے شفٹ کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے گھر میں ضرورت سے زائد بستر کی چادریں‘ ملبوسات کے ڈھیر‘ ڈیکوریشن کی اشیا‘ کراکری اور کٹلری کے ذخیرے‘ جوتوں کے انبار‘ بے تحاشا فرنیچر اور برسوں کا جمع شدہ کاٹھ کباڑ نہیں ہوتا۔ ایک زمانہ تھا کہ گھروں میں براتیں ٹھہرتی تھیں۔ تب تو برتنوں اور بستروں کو جمع کرنے کا جواز تھا۔ آج کل تو شاید ہی کہیں کوئی مہمان ایک رات بھی ٹھہرتا ہو۔ کاروں اور شاہراہوں کی بہتات ہے۔ ملاقات کے بعد رات کو لوگ اپنے گھر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ براتیں گیسٹ ہاؤسوں‘ ہوٹلوں اور موٹلوں میں ٹھہرتی ہیں۔ کھانے شادی ہالوں میں کھلائے جاتے ہیں۔ اب تو گھروں میں بیسیوں مہمانوں کیلئے سامان اکٹھا کرنے کا کوئی جواز نہیں! یہ سارا معاملہ‘ یعنی حد سے بڑھی ہوئی صارفیّت بچت کے رجحان کی شدید حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ آمدنی کا غالب حصہ ان اشیا کی خرید پر صرف ہوتا ہے جو پیداواری نہیں ہیں۔ سرمایہ کاری کیلئے بچت لازم ہے۔ اور بچت تبھی ہو گی اور تبھی زیادہ ہو گی جب غیرضروری اشیا نہیں خریدی جائیں گی۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اوسط آمدنی والا گھرانہ اپنی آمدنی ملبوسات‘ جوتوں‘ ڈیکوریشن کی اشیا اور کراکری جمع کرنے پر لگا دیتا ہے۔ اتنی ہی آمدنی رکھنے والا ایک دوسرا گھرانہ یہ غیرضروری اشیا نہیں خریدتا۔ اسکے بجائے وہ بچت کرتا ہے اور چھوٹی سطح پر سہی‘ سرمایہ کاری کرتا ہے۔ مثلاً ایک موٹر سائیکل خرید کر کسی کو کرائے پر دے دیتا ہے۔ کار خرید کر رینٹ اے کار والوں کو دیتا ہے۔ چھوٹی ہی سہی‘ دکان ڈال لیتا ہے۔ یہ راستہ معاشی ترقی کی طرف جاتا ہے۔ کنبے خوشحال ہوں گے تو ملک بھی خوشحالی کی طرف گامزن ہوگا! ایک زمانہ وہ تھا کہ مردوں پر کوئی افتاد پڑتی تھی تو ہماری نانیاں دادیاں قرآن پاک کے غلافوں سے ہزاروں روپے نکال کر ان کی مدد کرتی تھیں۔ اس لیے کہ تب ملبوسات خریدنے کا جنون تھا نہ نام نہاد سیل لگتی تھی۔ خواتین بچت کرتی تھیں۔
اب کھانوں کی طرف آجائیے۔ پہلے کھانا‘ زندہ رہنے کے لیے ہوتا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد کھانا‘ کھانا اور صرف کھانا ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو مہمان کے لیے مرغی کا گوشت‘ روٹی‘ چاول اور میٹھے کی ایک ڈش پکا کرتی تھی۔ شادیوں پر سینکڑوں مہمانوں کے لیے کھانا‘ سارا سامان خود خرید کر‘ باورچیوں سے پکوایا جاتا تھا۔ زیادہ تر ایک ہی ڈش ہوتی تھی۔ اب تو معاملہ اسراف سے آگے بڑھ کر تبذیر تک جا پہنچا ہے۔ بیسیوں پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ دس دس سویٹ ڈشیں ہوتی ہیں۔ چند برس پہلے جب زرداری صاحب رائے ونڈ گئے تھے تو شہباز شریف صاحب کی نگرانی میں تیار کرائے گئے چوہتر (74) پکوان بہت مشہور ہوئے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک اس شکم پرستی میں نہیں پڑے۔ سلاد‘ پھل اور مشروبات کے علاوہ اصل کھانا عام طور پر ایک ہی ڈش پر مشتمل ہوتا ہے۔ اتنا ہی فرق سرکاری ظہرانوں اور عشائیوں میں ہے۔ ہم نے سنا ہے (نہیں معلوم یہ روایت کہاں تک درست ہے) کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے کثیر مقدار میں کمال کے کھانے پکوائے تھے۔ یہ ایک بے مثال‘ شاہانہ‘ دعوت تھی۔ مگر جب کسنجر آیا تو جو ڈش سب سے پہلے اسے نظر آئی‘ اسی پر اکتفا کیا۔ ہاں گفتگو وہ مسلسل کرتا اور سنتا رہا!
اگر ایسا ہوا تو یہ ناممکن بالکل نہیں۔ ہمارے ایک وزیراعظم کی گھڑی کروڑوں کی بتائی جاتی تھی۔ جلا وطنی میں بھی کئی باورچی اور کئی صندوق ساتھ جاتے تھے۔ ایک اور وزیراعظم چار سال سرکاری ہیلی کاپٹر سے نیچے ہی نہ اُترے۔ احساسِ کمتری کا یہ حال تھا کہ کمرشل فلائٹ پر بیٹھنا گوارا نہ تھا‘ خواہ طیارہ کسی شہزادے سے مانگنا کیوں نہ پڑے اور پھر وہ راستے میں نیچے کیوں نہ اتروا دے۔ سیالکوٹ اور ملتان جانے کے لیے بھی خصوصی جہاز لازم تھے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ زرداری صاحب خصوصی طیارے سے دبئی گئے ہیں! کیا بات ہے ہم پاکستانیوں کی! ایک عام کنبے سے لے کر حکمرانوں تک سب شہنشاہوں جیسے شوق رکھتے ہیں! اور شوق پورے کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں! غالب کا شہرہ آفاق شعر ہمارے لیے ہی تو ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لا ئے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں