نگران وزیر اعظم

ریاض نے پانچ جماعتیں پاس کیں۔ چھٹی جماعت میں تھا کہ پڑھائی چھوڑ دی۔یہ اور بات کہ تعلیم کا پوچھیں تو جواب میں کہتا ہے کہ چھ پڑھا ہوا ہوں۔کچھ عرصہ ہمارے ہاں کام کرتا رہا۔ کھانا پکا لیتا تھا۔ مجھ سے ہر تھوڑی دیر کے بعد چائے کا ضرور پوچھتا۔گھر کی صفائی اچھی کرتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا: میرا بھائی ہسپتال میں داخل ہے۔ جانا ہے اور کچھ رقم کی بھی ضرورت ہے۔ میری اہلیہ نے اسے معقول رقم دی اور اس کے بیمار بھائی کے لیے دعا بھی کی۔کئی ہفتے گزر گئے۔ اسے فون کرتے تو فون بند ملتا۔ پھر معلوم ہوا کہ اس کا کوئی بھائی بیمار نہیں تھا۔ بلکہ اس کاکوئی بھائی تھا ہی نہیں۔ وہ ہمارے ہی شہر میں کسی اور صاحب کے ہاں کام کر رہا تھا۔ بس یہ تھا کہ وہاں تنخواہ ذرا سی زیادہ تھی۔اگر ہمیں بتاتا کہ تنخواہ کا معاملہ ہے تو اتنی تو ہم بھی جوں توں کر کے بڑھا دیتے۔اس کے مطالبات بھی عجیب و غریب تھے۔ کبھی کہتا: مجھے نئی استری لے دیں۔ کبھی بتاتا کہ سگریٹ مہنگے ہو گئے ہیں۔ کبھی موبائل کے خرچے کا رونا روتا۔ وائی فائی کا پاس ورڈ بھی ہم سے لے لیا تھا۔ رات بھر یوٹیوب پر فلمیں اور نہ جانے کیا کیا دیکھتا۔ نیند اس کی پوری نہیں ہوتی تھی۔دن بھر جماہیاں لیتا رہتا۔کھانا پکاتے ہوئے ‘ برتن دھوتے ہوئے کچھ نہ کچھ گنگناتا رہتا۔
احمد خان ہمارے گاؤں کا مستری تھا۔ خاصا پڑھا لکھا تھا۔ گاؤں میں اس کے پاس متعدد مذہبی اور مسلکی جریدے آتے تھے۔ نماز کا پابند تھا۔ میلاد ہو یا محرم‘ ہر موقع پر‘ حسبِ استطاعت ‘ مالی سرگرمی ضرور دکھاتا۔کچھ پیسے جمع کر لیے تو شہر اُٹھ آیا اور اپنا مکان بنا لیا۔ گاؤں سے ہمارے ماموں ہمارے ہاں آئے تو احمد خان انہیں اپنے گھر لے گیا۔ باہر بورڈ لگا ہوا تھا: چودھری احمد خان۔ ماموں جان نے کہا اوئے! شیطان! تم یہاں آکر چودھری بن گئے ہو! احمد خان نے جواب میں کچھ نہ کہا۔ صرف دانت نکالے۔ گاؤں میں احمد خان مستری کو‘ ربیع اور خریف کی فصلوں کے حساب سے ‘ معاوضے کے طور پر ‘ غلہ ملتا تھا۔ شہر میں آکر ہر کام کے بدلے میں روپے ملنے لگے۔ یوں اس کی اقتصادی اور سماجی حیثیت بہتر ہو گئی۔ بچوں کو پڑھا لیا۔ ان کے روزگار لگ گئے۔
ملک فلک دین ہمارے ایم پی اے ہیں۔ سنا ہے شروع میں عام سے ٹھیکیدار تھے۔پانچ پانچ مرلے کے گھر بنا کر فروخت کرتے تھے۔ اس سے زیادہ کی پسلی نہیں تھی۔ پھر بڑی کوٹھیاں بنانے لگے۔ مزید ترقی کی تو پلازوں کی تعمیر کے ٹھیکے ملنے لگے۔ پھر ہاؤسنگ سوسائٹی کا ڈول ڈالا۔ یہ ایک بڑی چھلانگ تھی۔ پرائیویٹ فورس بھی کھڑی کر لی جو جائز‘ ناجائز قبضے کرتی بھی تھی اور چھڑاتی بھی تھی۔ ہوتے ہوتے ملک فلک دین نے خاصی دولت اکٹھی کر لی۔ پھر سیاست میں آ وارد ہوا۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ایم پی اے بننا تھی۔ سیاسی پارٹیوں پر بڑے بڑے خاندان چھائے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے ملک فلک دین کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ علاقے کے سینئر سیاستدانوں کی خدمت کرنا شروع کر دی۔ آخر سالہا سال کی تپسیا کے بعد‘ اور کئی پارٹیاں بدلنے کے بعد‘ اسے ٹکٹ مل ہی گیا۔ پیسہ اس نے پانی کی طرح بہایا۔ بالآخر کامیاب ہوا۔اب زندگی کا انداز ہی بدل گیا۔ افسر آگے پیچھے پھرنے لگے۔ ہر روز بیسیوں اہلِ غرض ملاقات کے لیے آتے۔ ڈیرے پر ہر وقت چائے پانی چلتا رہتا۔ اس عہدِ اقتدار میں اس نے اپنے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ کیا۔ آج اس کا شمار کامیاب سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔
نسیم خان ایک معروف روزنامے کے دفتر میں نائب قاصد تھا! تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا اور ذہنی طور پر ہوشیار! ایک دن کاغذ پر اپنے محلے کی کوئی خبر لکھ کر لے آیا۔ ایڈیٹر کو خبر پسند آئی۔یوں نسیم خان نائب قاصد سے رپورٹر بن گیا۔ اب اس نے اُن لوگوں سے تعلقات استوار کرنا شروع کیے جو اخبار کے دفتر میں ایڈیٹر سے ملنے آتے تھے۔ اس اثنا میں اخبار کے مالک نے اپنا ٹی وی چینل بھی قائم کر لیا۔دیکھتے دیکھتے نسیم خان تجزیہ کار بن گیا اور پھر اینکر! ہوشیاری اس نے یہ دکھائی کہ ہمیشہ حکومتِ وقت کا ساتھ دیتا۔ جیسے ہی حکومت بدلتی ‘ نسیم خان بھی بدل جاتا۔آج وہ ایک کامیاب اینکر پرسن ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس نے کیریئر کا آغاز نائب قاصد کی پوسٹ سے کیا تھا۔
ان سب افراد میں‘ جن کا ذکر سطورِ بالا میں کیا گیا ہے ‘ کوئی قدر مشترک نہیں سوائے ایک بات کے اور وہ یہ کہ یہ سب نگران وزیر اعظم بننے کے امیدوار ہیں! اور آپ یقین کیجیے کہ جو کوئی بھی بنے گا وہ عبقری ہو گا نہ نابغہ اور نہ ہی ان افراد سے زیادہ لائق ہو گا۔ آخر بلخ شیر مزاری اور جتوئی صاحب بھی تو اس ملک کے وزرا ئے اعظم رہے ہیں ! معین قریشی بھی تو رہا ‘جس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ راتوں رات خصوصی طور پر بنائے گئے تھے۔ دفن بھی سمندر پار ہوئے۔ شوکت عزیز جیسا شخص بھی وزیراعظم رہا جس کا اس ملک سے کوئی تعلق ہی نہیں۔آخر یہاں عارف نکئی‘ عثمان بزدار اور محمود خان جیسے لوگ بھی تو ہمارے بڑے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ رہے ! آئندہ بھی کوئی یہ امید نہ رکھے کہ من موہن سنگھ یا لی کؤان ییو(Lee Kuan Yew) یا مہاتیر یا ہنری کسنجر قسم کے لوگوں کو اوپر آنے دیا جائے گا اور اس ملک کو گڑھے سے نکالنے کی اجازت دی جائے گی! یہاں تو جونیجو صاحب کو برداشت نہیں کیا جا سکا۔
قدیم زمانے کا رواج اچھا تھا۔بادشاہ مرتا تو یہ دیکھا جاتا کہ دوسرے دن علی الصبح شہر میں کون داخل ہوتا ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ ایک گدڑی پوش ‘ عصا بردار فقیر ہاتھ میں کشکول لیے صدر دروازے سے شہر میں داخل ہوا۔ فوراً اس کے سر پر تاج رکھ دیا گیا۔ اس نے شاہی لباس پہنا ‘ تخت پر بیٹھا اور حلوہ پکانے کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے پڑوسی حکومت نے ملک پر حملہ کر دیا۔ بادشاہ کو خبر دی گئی تو اس نے ایک بار پھر حلوہ پکوایا۔ دشمن کی ہر نئی ‘ کامیاب پیشقدمی پر بادشاہ سلامت حلوہ پکواتے‘ تناول فرماتے اور لمبی تان کر سو جاتے! بالآخر بتایا گیاکہ حملہ آور فوج دارالحکومت میں داخل ہوچکی۔ بادشاہ نے آخری بار حلوہ پکوایا‘ کھایا اور کھا کر شاہی لباس اتارا‘ کونے میں پڑا بوسیدہ لباس پہنا۔ سوراخوں بھری گدڑی اوڑھی‘ ایک ہاتھ میں عصا پکڑا اور دوسرے میں کشکول اور یہ کہہ کر کہ '' میں نے تو دو دن حلوہ کھانا تھا ! سو کھا لیا! تم جانو اور تمہارا کام‘‘ محل سے نکل گیا!! غور کیجیے! معین قریشی‘ شوکت عزیز اور عثمان بزدار جیسے حضرات اسی فقیر کی طرح آئے ‘ حلوے کھائے اور غائب ہو گئے۔ شوکت عزیز تو جاتے ہوئے قیمتی تحائف بھی باندھ کر ساتھ لے گئے۔ بزدار صاحب جیسے ہی تخت سے اترے ‘ غائب ہو گئے۔ اس کے بعد آج تک عمران خان کے ساتھ نظر نہیں آئے۔عمران خان کی اپنی پارٹی تھی یا اسٹیبلشمنٹ‘ کوئی بھی ان کے حق میں نہ تھا۔ عمران خان نے ہر قسم کے دباؤکا مقابلہ کیا مگر بزدار کو نہ ہٹایا۔ ویسے مردم شناسی اور ٹیلنٹ کی پہچان خان صاحب پر ختم ہے!
جب اسحاق ڈار صاحب کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر اچھالا گیا تو دنیا ٹی وی کے کامران شاہد نے سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ (ن) نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ مسلم لیگ (ن) کا ماضی ایسی ہی سوچوں سے تو بھرا پڑا ہے۔ بریف کیس اٹھا کر کوئٹہ جانے والے ہوں یا دہی بڑے کھلانے والے‘ سب کو نوازا گیا۔ ویسے اگر ڈار صاحب کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر لیا جا سکتا ہے تو اسد عمر‘ شبلی فراز یا حماداظہر کا نام نگران وزیر اعظم کے منصب کیلئے ‘ کیوں نہیں لیا جا سکتا ؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں