یہ قول فیض صاحب سے منسوب ہے۔
وہ اپنے کچھ احباب کے ساتھ بیٹھے تھے۔گفتگو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ہو رہی تھی۔ کسی نے پیشگوئی کی کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ کسی نے کہا کہ بدتر ہو جائیں گے۔ کسی نے کہاکہ ملک خدا نخواستہ کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔کسی نے افغانستان کی متوقع جارحیت کے خدشے کا اظہار کیا۔ فیض صاحب نے کہا کہ مجھے جو اندیشہ ہے‘ وہ ان سب پیشگوئیوں سے زیادہ ہولناک ہے اور وہ یہ کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا! ( واقعے کا مفہوم یہی ہے۔ الفاظ کالم نگار کے ہیں )۔ فیض صاحب کا یہ قول اس لیے یاد آیا کہ جب بھی جڑانوالہ جیسا سانحہ پیش آتا ہے‘ مذہبی عمائدین مذمت کرتے ہیں اور حکومتی عمائدین یقین دلاتے ہیں کہ مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ لیکن ماضی اور حال بتاتے ہیں کہ مستقبل بھی اس ضمن میں ایسا ہی ہو گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ علما اور سول سوسائٹی تو مذمت کرتے ہیں۔ مولانا تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے مذمت کی ہے۔ اور بجا طور پر کہا ہے کہ اسلام اس بد سلوکی کی اجازت ہر گز نہیں دیتا۔ مگر علما کے پاس‘ نہ ہی سول سوسائٹی کے پاس‘ ایگزیکٹو اتھارٹی ہے۔ اتھارٹی اور عملدرآمد کے اختیارات تو ریاست کے اداروں کے پاس ہیں۔ خاص طور پر پولیس‘ ضلعی انتظامیہ اور عدلیہ کے پاس! جو بات مولانا طاہر اشرفی نے کی ہے وہ قابلِ غور ہے۔ انہوں نے کہا ہے جڑانوالہ واقعے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہش تو ہے لیکن مجھے لگتا نہیں ہے۔پولیس مجرموں کو گرفتار کر لے گی‘ بڑا اچھا کیس بھی بنا لے گی‘ عدلیہ سے فیصلے کون کرائے گا؟ لاہور میں پوری جوزف کالونی جلی تھی اور جلانے والوں کو عدالت نے کہا گھر جائیے۔اور جس مسیحی بچے کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا وہ سات سال بعد بری کیا۔
مولانا طاہر اشرفی نے ہاتھ جوڑ کر مسیحی برادری کے بڑوں سے معافی مانگی۔ یہ معافی اصل میں حکومت کو مانگنی چاہیے تھی جس کا بنیادی فرض لوگوں کی جان مال اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت ہے۔رہی یہ تجویز کہ علما چندہ کر کے تباہ شدہ کلیساؤں کی تعمیرِ نو کریں تو یہ کام علما کا نہیں‘ حکومت کا ہے۔حکومت ان عبادت گاہوں کو حملہ آوروں سے نہ بچا سکی۔اسی کا فرض ہے کہ اپنی ناکامی کی تلافی کرے!
اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ماضی میں اس طرح کے جو واقعات رونما ہوئے ان میں ملوث مجرموں کو عبرتناک سزائیں نہیں دی گئیں۔ بظاہر تو ایسا ہی ہے۔ انصاف اگر ہوا بھی تو ہوتا نظر نہیں آیا! نو مئی کو جب حساس تنصیبات پر حملے ہوئے تو اس شرانگیزی میں ملوث ایک ایک فرد کو پکڑا گیا۔ کم و بیش ہر ایک گرفتاری کو ہائی لائٹ بھی کیا گیا۔یہ انہی اقدامات کا اثر تھا کہ کہ خان صاحب کی دوبارہ گرفتاری پر ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی! اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ریاست اور حکومت چاہے تو یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شرانگیزی دوبارہ رونما نہ ہو! بین الاقوامی سطح پر اب کے جو شرمندگی اٹھانا پڑی اس کی بھی ماضی میں کوئی نظیر نہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ان عبادت گاہوں کی اہمیت حساس تنصیبات کی اہمیت سے کم درجے کی نہیں۔منطقی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ جس طرح نو مئی کے بعد ایکشن لیا گیا‘ جڑانوالہ سانحے کے معاملے میں بھی بالکل ویسا ہی ایکشن لینا ہو گا! ورنہ فیض صاحب کے بقول معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہیں گے!! وڈیو کلپس کے اس زمانے میں اصل مجرموں کو پکڑنا مشکل نہیں! ریاست اور حکومت چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ جہاں ریاست اور حکومت کی مرضی ہوتی ہے وہاں سب کچھ ہو بھی جاتا ہے۔
جب بھی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے‘ خبر کا ایک حصہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو لاؤد سپیکر کے ذریعے مشتعل کیا گیا۔ ضروری نہیں کہ یہ کام مسجد کے مولوی صاحب ہی نے کیا ہو۔ جڑانوالہ سانحہ کی خبر سے جو تاثر ملا ہے وہ یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر کا یہ مہلک استعمال کسی اور شخص نے کیا۔ سوال یہ ہے کہ مسجد میں لاؤڈ سپیکر کا انچارج کون ہوتا ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ کوئی بھی ماجھا گاما آتا ہے اور لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کو اکسانے لگتا ہے؟ حکومت اگر چاہے تو لاؤڈ سپیکر کے حوالے سے قانون سازی کر سکتی ہے۔ مگر کیا وہ کرے گی ؟ مسجد کے مولوی صاحب یا مؤذن یا مسجد کمیٹی‘ کسی کو تو اس ضمن میں جوابدہ ہونا چاہیے۔ ایسا ناممکن بھی نہیں۔ ملک میں کئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مساجد نجی شعبے میں نہیں‘ بلکہ سوسائٹی کے زیر انتظام ہیں۔ لاؤڈ سپیکر صرف اذان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جمعہ کی تقریر اور خطبہ کے لیے لاؤڈ سپیکر استعمال ہوتا ہے مگر یوں کہ آواز مسجد کے اندر ہی رہتی ہے۔ کچھ آبادیوں میں تو پکا ہوا تین وقت کا کھانا بھی خطیب اور مؤذن کو انتظامیہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ایک مناسب عرصہ کے بعد تبادلہ کر کے دونوں حضرات کو کسی دوسری مسجد میں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یوں کوئی پارٹی بازی یا گروہ بندی وجود میں نہیں آسکتی! سنگاپور اور ملا ئیشیا میں بھی دیکھا ہے کہ لاؤڈ سپیکر کی آواز مسجد میں موجود نمازیوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ حکومت کو یہ امر یقینی بنانا پڑے گا کہ کسی مسجد کا لاؤڈ سپیکر عوام کو مشتعل کرنے کے لیے اور تشدد اور قتل و غارت پر ابھارنے کے لیے استعمال نہ ہو۔ایک معروف رپورٹر‘ جو ایک وی لاگر بھی ہیں‘ کل پرسوں بتا رہے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد غیر مسلموں کی تعداد ملک کی کل آبادی کا 23فیصد تھی جو اب تین فیصد ہے۔ نہیں معلوم ان اعداد و شمار کا ماخذ کیا ہے مگر یہ غیر حقیقی بالکل نہیں لگتے۔ اس لکھنے والے نے ملازمت کا آغاز بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں کراچی سے کیا تھا۔ اُس وقت ایمپریس مارکیٹ کے سامنے کی تقریباً ساری گلیوں‘ یعنی بوہری بازار کے ارد گرد کے علاقوں میں غیر مسلم آباد تھے۔ سرکاری محکموں میں غیر مسلموں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ اینگلو انڈین بھی تھے۔پھر مردِ مومن مردِ حق کا عہدِ ہمایونی آیا اور سب کچھ بدل گیا۔ باقی تاریخ ہے۔ مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ بقول ناصر کاظمی
اُڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
ہم ایک بند گلی میں کھڑے ہیں! آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے۔ ناخواندگی خوفناک سطح پر ہے۔ ہم جسے خواندگی کہہ کر اعداد و شمار کا پیٹ بھر رہے ہیں وہ محض سراب ہے۔ تنگ نظری میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔برداشت عنقا ہے۔سچی بات کہتے ہوئے جان کا خوف ہے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر سچی بات کوئی کہے تو سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ کرۂ ارض کا کون سا ایئر پورٹ ہے جہاں پاکستانی پاسپورٹ کی '' عزت افزائی‘‘ نہ ہوتی ہو۔ پاکستانی روپے کی قدر اس تیزی سے گھٹ رہی ہے جیسے برف کا ٹکڑا دھوپ میں پڑا ہے اور پگھلتا جا رہا ہے۔ سرحدوں سے کوئی بھی اندر آسکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ترجیحات ہماری عجیب و غریب ہیں اور ناقابل ِفہم ! شہرت کا جو تھیلا کندھے سے لٹکا کر ہم دنیا میں نکلتے ہیں اُس تھیلے سے نکلتا کیا ہے ؟ گوجرہ‘ سیالکوٹ‘ جوزف کالونی اور اب جڑانوالہ ! حدِ نظر تک تاریکی ہے۔ کسی روزن سے رو شنی کی کرن نہیں دکھائی دے رہی! اور المیہ در المیہ یہ ہے کہ روزن ہی کوئی نہیں!!
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو!