مگر مجرم کہاں ہیں؟ کون ہیں؟

اسے کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
پہلے تو جڑانوالہ کی مسیحی برادری پر یہ مصیبت آئی کہ ان کے گھر جلائے گئے‘ ان کی عبادت گاہوں کو برباد کیا گیا‘ انہیں دہشت زدہ اور ہراساں کیا گیا‘ ایک بے کراں ہجوم ان پر چڑھ دوڑا۔ بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں نے رات اور نہ جانے کتنی راتیں‘ کھیتوں میں کھلے آسمان تلے گزاریں! ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ جلانے کے علاوہ لوٹ مار بھی کی گئی۔ میڈیا کے ایک نمائندے کو ایک غمزدہ باپ اپنی بیٹی کی جلی ہوئی کتاب دکھا رہا تھا۔ جہیز جلا دیے گئے‘ کچھ لوٹ لیے گئے۔ دوسری مصیبت یہ اُتری کہ ہر روز انہیں اکٹھا کرکے اُن بڑی‘ معزز اور مقتدر شخصیات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو فوٹو گرافروں کے ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کرنے آتی ہیں۔ جیسے گئے زمانوں میں گھوڑوں کے خریدار آتے تھے اور گھوڑوں کو نمائش کے لیے ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا! جڑانوالہ کے مصیبت زدگان دل میں کیا کہتے ہوں گے!
غرض دو گونہ عذاب است جانِ مجنوں را
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ
مجنوں کی جان پر دہری مصیبت ہے۔ لیلیٰ کے وصال کی مصیبت الگ اور لیلیٰ کے فراق کا عذاب الگ!
ہر روز کوئی نہ کوئی بڑی شخصیت ان دل زدگاں کو ملنے اور ہمدردی کا اظہار کرنے آتی ہے۔ نامزد چیف جسٹس تشریف لائے۔ پھر والی ٔ پنجاب نے دورہ کیا۔ کابینہ کا اجلاس متاثرہ چرچ میں منعقد ہوا۔ پھر صوبے کے کوتوالِ اعلیٰ کا دورہ ہوا۔ پھر وزیراعظم کی تشریف آوری ہوئی۔ اب خبر آئی ہے کہ سراج الحق صاحب وہاں گئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہر روز ان بڑے لوگوں کی تصویریں چھپتی ہیں۔
یہ کوئی نیا منظر نہیں! ہر بار یہی ہوتا ہے۔ روک تھام کا بندوبست کوئی نہیں۔ جب سانحہ رونما ہو جاتا ہے اس کے بعد ساری ریاستی اور حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ یہ حرکت کوئی معمولی حرکت نہیں ہوتی! زبردست ہوتی ہے۔ وہ جو سبط علی صبا نے کہا تھا:
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
جلے ہوئے گھروں‘ گری ہوئی دیواروں‘ ٹوٹے ہوئے دروازوں اور خاکستر شدہ بستوں کے درمیان معززین کی تشریف آوری اس قدر ہوئی اور فوٹو گرافروں اور پروٹوکول والوں کی بھاگ دوڑ اتنی زیادہ ہوئی کہ صحنوں میں رستے بن گئے۔ ہر بار یہی ہوتا ہے۔ ہر بار ہم سنتے ہیں کہ حملہ کرنے والوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ دوبارہ ایسا واقعہ رونما نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ تشدد اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ریاست اپنی اقلیتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔ اگر کسی شر پسند نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو اسے نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا وغیرہ۔ کچھ عرصہ گزرتا ہے۔ پھر یہ فلم دوبارہ سکرین پر نمودار ہوتی ہے۔ پھر کوئی نیا سیالکوٹ‘ کوئی نیا گوجرہ‘ کوئی نئی جوزف کالونی کوئی نیا جڑانوالہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ پھر بڑے لوگوں کے دورے۔ پھر فوٹوگرافروں کی بھاگ دوڑ۔ پھر وعدے‘ دعوے‘ تسلیاں! واقعات کا لامتناہی سلسلہ! یہی ہوتا آیا ہے۔ یہی ہوتا رہے گا!
ان ساری قیامت خیز سرگرمیوں کے باوجود مجرموں کا کوئی ذکر نہیں! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج جڑانوالہ کے مجرموں کے نام بچے بچے کو یاد ہو چکے ہوتے! ان کی اس قدر تشہیر کی جاتی اور ان کی تصویریں الیکٹرانک میڈیا پر اس قدر اچھالی جاتیں کہ ان کی زندگیاں اجیرن ہو جاتیں اور ان کی نسلوں میں سے بھی کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کرتا! وہ کون ہے جس نے لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کو مشتعل کیا تھا؟ اس کا کیا نام ہے؟ مگر اس سارے قصے میں اگر کسی کا ذکر نہیں تو مجرموں کا ذکر نہیں۔ سیالکوٹ میں سری لنکا والے فیکٹری منیجر کے ساتھ وحشیانہ درندگی برتی گئی تھی‘ کیا آپ کو وہاں کے دو تین بڑے اور اصل مجرموں کے نام یاد ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے انہیں کیا سزا دی گئی؟ کوئی نہیں جانتا! جانے گا بھی نہیں! مجرموں کو نشانِ عبرت بنانا ہمارے سسٹم کی‘ ہماری ریاست کی‘ ہماری حکومتوں کی ترجیحات ہی میں نہیں! اگر ہم یہ کہیں کہ مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی تو ہم حق بجانب ہوں گے۔ سیالکوٹ والے مجرموں کو کیا سزا دی گئی؟ حافظ طاہر اشرفی صاحب کا یہ بیان ایک بار پھر نقل کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بیان میں ہمارا سارا سسٹم کوزے میں دریا کی طرح بند ہو گیا ہے۔''جڑانوالہ واقعے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہش تو ہے لیکن مجھے لگتا نہیں ہے۔ پولیس مجرموں کو گرفتار کر لے گی‘ بڑا اچھا کیس بھی بنا لے گی‘ عدلیہ سے فیصلے کون کرائے گا؟ لاہور میں پوری جوزف کالونی جلی تھی اور جلانے والوں کو کہا گیا کہ گھر جائیے۔ اور جس مسیحی بچے کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا وہ سات سال بعد بری کیا‘‘۔
دنیا میں جرم سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ پیش بندی کا ہے یعنی Preventive حفظِ ما تقدم۔ روک تھام۔ نقصان ہونے سے پہلے اس کے آگے بند باندھ دینا۔ اس طریقے کی تابناک مثال سنگاپور ہے۔ سنگاپور میں لائسنس کا اور اسلحہ کا حصول اتنا مشکل ہے کہ لوگ اس شیطان کی آنت جتنے لمبے چکر میں پڑنا ہی نہیں چاہتے۔ اور اگر یہ پہاڑ جتنی Formalities طے کر کے لائسنس مل بھی گیا تو یہ صرف ایک سال کے لیے ہوگا۔ اگلے سال تمام مراحل سے دوبارہ گزرنا پڑے گا۔ گَن حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ کسی گن کلب کے ممبر بنیں۔ شوٹنگ کی مشق کے بعد گن کلب ہی میں رہے گی۔ گھر میں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اس پر مستزاد‘ کمال کا قانون یہ ہے کہ سنگا پور میں اگر کسی نے اسلحہ سے فائر کیا‘ اس فائر سے کوئی قتل ہوا نہ زخمی‘ مگر اس کے باوجود فائر کرنے والے کو سزائے موت دی جائے گی۔ امریکیوں نے اس ''ظالمانہ‘‘ قانون پر اعتراض کیا تو سنگاپور کے معمار‘ عظیم انسان‘ لی کوان یو نے جواب دیا کہ جس مجرم کو قتل کرنے کی سزا آپ قتل کے بعد دیتے ہیں‘ ہم اسے قتل کرنے سے پہلے ہی دے دیتے ہیں۔ جرم کے انسداد کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مجرم کو ہر حال میں پکڑا جائے اور سزا دی جائے۔ کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ امریکہ میں جب تک مجرم پکڑا نہیں جاتا‘ کیس کی فائل بند نہیں ہوتی۔ دس دس‘ پندرہ پندرہ سال کے بعد بھی مجرم پکڑے گئے۔ سیریل قاتلوں کو پکڑنے کے ضمن میں مشہورِ زمانہ ''پروفائل تھیوری‘‘ امریکی پولیس ہی نے ایجاد کی۔ دبئی بھی اس حوالے سے ایک کامیاب ملک ہے جس میں جرم سرزد کرنے والے کا بچ نکلنا محال ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ یہ دونوں طریقے ہمارے ہاں مکمل طور پر مفقود ہیں! جرم کی پیش بندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو کچھ جڑانوالہ میں ہوا‘ آخری بار نہیں ہوا۔ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ رہی سزا تو وہ بھی کہاں ملتی ہے! کیا سیالکوٹ کے مجرموں کو پھانسی دی گئی؟ آخر جڑانوالہ کے مجرموں کے نام اخفا میں کیوں رکھے جا رہے ہیں؟ جو کچھ حافظ طاہر اشرفی صاحب نے کہا ہے‘ متعلقہ ادارے اس کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟ جس نظامِ انصاف میں جیل میں مر جانے والے کو اس کی موت کے بعد بے گناہ قرار دیا جائے‘ اس نظام سے سیالکوٹ اور جڑانوالہ کے مجرموں کو سزا دینے کی امید ہی سادہ لوحی ہے۔
اور آخری بات! یہ اقلیت کیا چیز ہے؟ ایک پاکستانی کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکایا جاتا ہے؟ مسیحی پاکستانیوں اور دیگر غیرمسلم پاکستانیوں کو اقلیت کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا امریکہ‘ برطانیہ‘ ناروے‘ سپین‘ آسٹریلیا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں کو اقلیت کہا جاتا ہے؟ اگر نہیں‘ تو ہمیں شرم کب آئے گی؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں