ذرا مارکیٹ جائیے اور پالک اور سبز دھنیا لا دیجیے۔
میں نے بیگم کو نہایت معقول تجویز پیش کی کہ ڈرائیور کے ساتھ جا کر خود لے آئیں اور پھر مجھے اچھی اور خراب پالک کی پہچان بھی تو نہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ ڈرائیور کو خود میں نے ہی چھٹی دی ہے کہ اس کے والد کی آج برسی ہے۔ میں اُس وقت اپنے آئی پیڈ پر ریسلنگ دیکھ رہا تھا۔ ( ہاں یہ شوق بھی پالا ہوا ہے) جندر محل اور اے جے سٹائل کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ جنوبی ایشیا کی عزت کا سوال تھا۔ جندر محل کا اصل نام یوراج سنگھ ہے۔ پیدائش کینیڈا کی ہے مگر ہے تو برصغیر نژاد ! جبکہ اے جے سٹائل خالص امریکی ہے۔
پالک کی ایک گڈی اسّی روپے کی تھی۔ سبزی فروش نے سبز دھنیا دیا تو میں نے کہا کہ یار! دھنیاتو ساتھ مفت ملتا تھا۔ کہنے لگا: سر! کس زمانے کی بات کر رہے ہیں؟ یہ چالیس روپے کا ہے! بالکل ذرا سا دھنیا تھا! دل میں ایک ہُوک سی اٹھی! لڑکپن یاد آگیا۔ پنڈی گھیب میں ایک بڑا سا احاطہ تھا جو سبزی منڈی کا کام کرتا تھا۔ مقامی زبان میں اُسے '' ملیاریاں نی کھاریاں‘‘ کہتے تھے۔ ملیار ( اس کی مؤنث ملیارن) ہمارے علاقے میں سبزی اگانے والے اور سبزی بیچنے والے کو کہتے ہیں!کھاری سرکنڈے سے بنی ہوئی بڑی سی گول ٹوکری کو کہتے ہیں۔ '' ملیاراں نی کھاریاں‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں ملیار بڑی بڑی ٹوکریوں میں سبزیاں رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اُس وقت ہر سبزی خریدنے والے کو سبز دھنیا اور ہری مرچیں ساتھ مفت ملتی تھیں! کنوؤں کے پانی سے اُگی ہوئی پنڈی گھیب کی اس سبزی کا اپنا ہی مزا تھا۔ مٹھی بھر سبز دھنیے کے لیے چالیس روپے دیتے وقت میں کیا سوچ رہا تھا‘ سبزی فروش کو اس کا بالکل اندازہ نہیں تھا!
بیگم صاحبہ نے سبزی کے علاوہ'' سوموجل‘‘ ٹیوب کے لیے بھی کہا تھا۔ کیمسٹ سے قیمت پوچھی تو اس نے نوّے روپے بتائی۔ پھر اس نے کمپیوٹر سے رسید نکالی اور مجھے دے کر بتایا کہ یہ رسید کاؤنٹر پر لے جائیے‘ ٹیوب وہاں پہنچ رہی ہے۔ رسید کو دیکھا تو اس پر قیمت اٹھاسی روپے درج تھی۔ پاکستان میں اب تاجروں اور دکانداروں کے لیے دو تین یا پانچ روپوں کی کوئی اہمیت نہیں بشرطیکہ یہ دو تین یا پانچ روپے گاہک کو دینے ہوں۔گاہک سے دوتین روپے کیا‘ یہ حضرات ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑتے۔ ہاں اگر آپ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کر رہے ہیں تو پھر دکاندار آپ کے یہ دو تین یا پانچ دس روپے نہیں مار سکتا۔ میں نے کاؤنٹر والے سے ٹیوب لی اور اسے سو کا نوٹ دیا۔ اس نے دس روپے واپس کیے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے یاد دلایا کہ اس نے دو روپے مجھے اور دینے ہیں۔ ساتھ ایک صاحب کھڑے تھے۔ چوڑے چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی جال کی طرح بہت سے علاقے پر پھیلی تھی۔ مجھے کہنے لگے: ارے صاحب دو روپے چھوڑ ہی دیجیے۔ میں نے ان سے پوچھا: کیوں؟ اس پر وہ خاموش رہے۔دوسروں کے معاملات میں چمچہ مارنا بھی ہمارے کلچر کا عجیب و غریب حصہ ہے۔ کاؤنٹر والے نے میری طرف دیکھا۔ اس دیکھنے میں تھوڑا سا عنصر غصے کا بھی تھا۔پھر اس نے زیادہ غصے سے مجھے دس روپے کا نوٹ دیا اور تلخ لہجے میں بتایا کہ دو روپے نہیں ہیں! میں اسی سٹور کے گراؤنڈ فلور پر آیا۔ وہاں کے کاؤنٹر والے سے دس کے نوٹ کے بدلے میں دو دو روپے کے سکے لیے۔ پھر بالائی منزل پر جا کر آٹھ روپے واپس کیے۔ یہ تجربہ اس کے لیے شاید نیا تھا۔ اب اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کہنے لگا: سر رہنے دیتے۔ میں نے پوچھا :کیوں؟ اس پر وہ مزید مسکرایا۔ یہ جو '' کیوں‘‘ ہے یہ بھی بہت مفید اوزار ہے! اس کا دروازہ منطق کی طرف کھلتا ہے اور اکثر و بیشتر مخاطب کو خاموش کرا دیتا ہے۔ اس ''کیوں‘‘ کا استعمال میں نے ایک امریکی بڑھیا سے سیکھا تھا۔ یہ 2005ء کی بات ہے اور واقعہ امریکی ریاست مِنی سوٹا کے ایک قصبے راچسٹر کے مشہور زمانہ میو کلینک کا ہے جہاں میری پہلی Grandchild زینب کی ولادت تھی اور ہم اس کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے۔ انگریزی میں خوبیاں بھی ہیں۔ آخر سانپ اور بچھو کے بھی تو فوائد ہیں۔ اگر آپ'' گرینڈ چائلڈ‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد پوتا پوتی نواسی نواسا کوئی بھی ہو سکتا ہے جبکہ اردو ( اور پنجابی ) میں ایسا جامع لفظ مفقود ہے۔ہسپتال کے اندر ہی پہلی منزل پر بہت بڑا سپر سٹور تھا۔میں کچھ خرید کر وہاں سے نکل رہا تھا کہ ایک سفید فام بوڑھی عورت کو دیکھا جو خریداری سے لبا لب بھری‘ بھاری سی‘ ٹرالی کو دھکیلے جا رہی تھی! فی الواقع وہ بہت بوڑھی تھی۔ یوں تو زرد فاموں کی طرح سفید فاموں کی عمر کا بھی پتہ نہیں چلتا مگر وہ یقینا نوّے سے اوپر کی ہو گی۔ میرے قریب سے گزری تو میں نے اسے کہا: کیا میں آپ کی مدد کروں ؟ بڑھیا نے ٹرالی روک دی۔ میری طرف غور سے دیکھا‘ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا: ''کیوں‘‘ ؟ اس کیوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے جھینپ جانے کے ! جب تک دم میں دم ہے‘ یہ لوگ اپنا کام خود کرتے ہیں۔ چلنے کے قابل نہ رہیں تو ویل چیئر کے ساتھ موٹر لگوا لیتے ہیں اور اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بیٹے کو یا بیٹی کو یا بیوی کو نہیں کہتا کہ پانی پلا دو یا چائے بنا دو۔مسلسل حرکت میں رہنے کی وجہ سے ان کی صحت بھی اطمینان بخش رہتی ہے۔ چست رہتے ہیں۔ وہاں کے دفتروں میں نائب قاصد ( چپڑاسی) کا وجود ہی نہیں۔ ہم تو ملازم کی اور اپنے بچوں کی بھی‘ زندگیاں اجیرن کر دیتے ہیں۔پانی پلاؤ۔ قمیض استری کر دو‘ چارجر پکڑاؤ‘ اوپر کی منزل سے فلاں کتاب لا دو۔ ریفریجریٹر سے دوا نکال کر دو۔ذرا پنکھا چلاتے جانا۔ پنکھا ذرا بند کردو! میرا فون کمرے میں پڑا ہے وہ لا دو۔ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول پکڑاؤ۔یوپی ایس کی بیٹری کا پانی چیک کرو! فون گاڑی میں رہ گیا ہے‘ ذرا نکال لاؤ! خود بڑے میاں جہاں بیٹھے ہیں وہاں سے ہِل نہیں رہے۔ زمیں جنبد‘ نہ جنبد گل محمد ! اگر بڑے میاں ( ان میں مَیں خود بھی شامل ہوں) یہ سارے کام خود کریں تو خود کار طریقے سے تھوڑی بہت ورزش ہوتی رہے اور چاق و چوبند رہنے میں مدد ملے !
اوپر میو کلینک کا ذکر ہوا ہے جو امریکی ریاست منی سوٹا کے قصبے راچسٹر میں واقع ہے۔ اس کلینک میں ایک بڑی سی مشین دیکھی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اس پر ہوا تھا۔ اُس وقت یہ مشین منی سوٹا کے بڑے شہر منی ایپلز میں تھی۔ پہلے تین بائی پاس آپریشن منی ایپلز میں ہوئے جو ناکام ٹھہرے۔ تینوں مریض بچ نہ سکے۔ یہ 1952ء اور 1954ء کے درمیان کا زمانہ تھا۔اس کے بعد یہ مشین راچسٹر میں واقع میو کلینک نے حاصل کر لی۔ میو کلینک نے اس پر آٹھ بائی پاس آپریشن کیے جن میں سے پانچ کامیاب ہوئے۔ جنہیں ہم کفار کہتے ہیں ان کے کیا ہی کہنے ! انہی کے طفیل آج پاکستان میں بھی‘ شہر شہر‘ دل کے بائی پاس ہو رہے ہیں ! گردوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے۔آنکھوں کی بھی !! میڈیکل کے یہ معجزے ہمارے ڈاکٹر امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا سے سیکھ کر آ رہے ہیں۔ کوئی بھی عرب‘ ایران‘ شام‘ مصر‘ یا رباط نہیں جاتا! مگر ہم وہ کام کر رہے ہیں جو کفار نہیں کر رہے۔ ہم یہ فیصلے کر رہے ہیں کہ جنتی کون ہے اور جہنمی کون ہے۔ صباحت عاصم واسطی کا شعر یاد آگیا :
دینے لگا ہوں جنت و دوزخ کا حکم بھی
پروردگار! روک خدا ہو رہا ہوں میں