جہاز کے پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے۔ نچلی منزل والے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ جہاز تا حال لہروں پر رواں دواں ہے۔ اوپر کی منزل والے سوراخ کی خبر سُن چکے ہیں مگر ان میں سے کچھ کو یقین ہے کہ صرف نچلی منزل والے ڈوبیں گے اور کچھ نے ہیلی کاپٹروں کا بندو بست کر رکھا ہے جو انہیں محفوظ ٹھکانوں کی طرف اڑا لے جائیں گے!
اوپر کی منزل والوں کی بے فکری کے کیا ہی کہنے!! بڑے میاں صاحب لندن میں مقیم ہیں! صاحبزادگان وہیں کے شہری ہیں۔ لندن بھی کیا زبردست ٹھکانہ ہے! سنا ہے کہ جناب مونس الٰہی بھی سپین سے لندن کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ہمارے اخبار کی خبر کے مطابق زرداری صاحب اور چیئر مین بلاول صاحب دبئی چلے گئے ہیں جہاں انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔ لندن کی طرح دبئی بھی کیا زبردست ٹھکانہ ہے! لندن اور دبئی! کیا عالی شان Combinationہے! فرنگیوں نے ایک اور لفظ یا اصطلاح تراشی ہوئی ہےLethal Combinationیعنی مہلک مرکب! جو مخالفین کو مار ہی دے ! میاں صاحب لندن میں ہیں! زرداری صاحب اور بلاول صاحب دبئی چلے جاتے ہیں! مخالف دیکھتے رہ جاتے ہیں!
ان صاحبان کے لیے لندن اور دبئی جانا اسی طرح ہے جیسے ایک عام پاکستان کے لیے پنڈی سے لاہور جانا ہے! مگر ٹھہریے! معافی چاہتا ہوں! غلط مثال دے دی! عام پاکستانی پنڈی سے لاہور جاتے وقت اب ہزار بار سوچتا ہے۔ سو بار لیکھا کرتا ہے۔اپنی گاڑی پر جائے تو پٹرول نرخرے سے پکڑتا ہے۔ موٹر وے سے باہر نکلتے ہوئے اب تقریباً ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔ بس یا ریل پر جائیں تو کرایہ منہ کو آتا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ عام پاکستانی کے لیے پنڈی سے اسلام آباد جانا مشکل ہے جبکہ میاں صاحب کے لیے لندن جانا اور زرداری صاحب کے لیے دبئی جانا آسان ہے! اور لندن اور دبئی کے کیا ہی کہنے! اگلے زمانے میں کسی نے کشمیر کے حوالے سے کہا تھا ؎
اگر فردوس بر روئی زمین است ؍ ہمین است و ہمین است و ہمین است
کہ اگر زمین پر کوئی جنت ہے تو وہ کشمیر ہی ہے! علامہ اقبال کے زمانے تک بھی کشمیر ہی جنت نظیر تھا۔
رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر؍ سبزہ جہان جہان ببین‘ لالہ چمن چمن نگر
کہ کشمیر کے لیے رختِ سفر باندھ! پہاڑ ٹیلے اور وادیاں دیکھ۔ ہر جگہ لہلہاتے سبزہ زار دیکھ اور ہر باغ میں گلِ لالہ کے نظارے کر ! مگر یہ قصہ فرسودہ ہو چکا! اب جنت کشمیر نہیں‘ اب جنت لندن اور دبئی ہیں! جہاں پٹرول مہنگا ہے نہ ڈالر آسمان پر ہے! لندن اور دبئی میں کیسی کیسی سیر گا ہیں ہیں‘ کتنے بڑے بڑے مال ہیں اور سپر سٹور۔ ہمارے رہنما‘ عوام کے غم میں‘ عوام کی خاطر‘ لندن اور دبئی میں رہنا گوارا کر رہے ہیں! بیچارے رہنما! اگر وہ چاہتے تو پاکستان میں ہمارا دکھ بانٹ سکتے تھے۔ ہماری طرح بجلی کے بل اپنی جیب سے ادا کرتے۔ پٹرول پمپوں پر آکر‘ ہمارے ساتھ‘ اپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈلواتے۔ ہمارے ساتھ بازاروں میں چلتے پھرتے‘ گوشت اور سبزی خریدتے۔ مگر آفرین ہے اُن پر کہ ہماری خاطر‘ یعنی عوام کے غم میں‘ لندن میں رہتے ہیں اور دبئی میں مشاورت کے لیے اجلاس بلاتے ہیں! اتنے مخلص اور دلسوز اور بے غرض رہنما کسی اور ملک کے عوام کی قسمت میں کہاں! چاروں طرف نظر دوڑا لیجیے! بھارت‘ ایران‘ بنگلہ دیش‘ ملا ئیشیا‘ وسط ایشیائی ممالک‘ سب کے رہنما اپنے اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ اپوزیشن میں ہوں تب بھی اور اقتدار میں ہوں تب بھی! مشرق وسطیٰ کے حکمران تو اتنے امیر ہیں کہ مشاورت کے لیے چاہیں تو ہر اجلاس بہاما اور ابیزا (Ibiza ) کے پُر تعیش جزیروں میں منعقد کر سکتے ہیں۔ سیر کے لیے جاتے ہوں گے مگر اپنے رفقائے کار کو دوسرے ملکوں میں کوئی نہیں طلب کرتا۔ گھر کے امور گھر کے اندر ہی نمٹاتے ہیں!
اوپر کی منزل والوں کی کیا ہی بات ہے۔ نچلی منزل والوں کو جان کے لالے پڑے ہیں مگر اوپر کی منزل والے اپنی ہی ہواؤں میں ہیں ! تازہ ترین مثال ملاحظہ فرمائیے۔ تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے حالیہ جولائی اور اگست میں اپنے ملازمین کو سولہ کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے اعزازی تنخواہوں کی مد میں عطا کر دیے۔ یادرہے کہ اعزازی تنخواہ وہ ہوتی ہے جو اصل‘ باقاعدہ‘ تنخواہ کے علاوہ ملے۔صرف شکم پُری کے لیے‘ یعنی کھانوں کے لیے‘ پونے تین کروڑ روپے دیے گئے۔ مختلف قسم کے الاؤنس بھی فیاضی سے دیے گئے۔ مجموعی طور پر قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے‘ ان دو مہینوں میں‘ اسّی کروڑ ستاون لاکھ روپے خرچ کیے!!اب تو بہت کچھ منظر عام پر آچکا! حفیظ جالندھری نے کہا تھا؎
میرے چُپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے‘ سنتا جا‘ شرماتا جا
پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کی رُو سے ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے حاضر ججوں کے یوٹیلیٹی بل سرکار ادا کرتی ہے۔ جہاں تک ریٹائرڈ ججوں کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج حضرات کو بجلی کے دو ہزار یونٹ ہر مہینے مفت دیے جاتے ہیں اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو آٹھ سو یونٹ! اوپر کی منزل والوں کی بات ہو رہی ہے تو یہ بھی جان لیجیے کہ صدر اور وزیراعظم کے بل تمام کے تمام مفت ہیں۔ ان کی حد بھی کوئی نہیں۔ کسی بھی سابق صدر کی بجلی دو ہزار یونٹ تک مفت ہے۔نیب چیئرمین کو دی جانے والی سہولیات سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہیں۔ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو تین سو لٹر پٹرول بھی ہر ماہ مفت ملتا ہے۔
نیچے کی منزل میں حالات‘ لمحہ بہ لمحہ‘ خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں! کچھ رو رہے ہیں۔ کچھ چیخ رہے ہیں۔کچھ سمندر میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ سمندر میں چھلانگ لگانے کے عمل کو خود کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بالائی منزل والوں کے بچنے کا بھی امکان روز بروز کم ہورہا ہے۔ جو پہلے ہی اُڑ کر لندن جا پہنچے ہیں اور وہاں بس گئے ہیں یا دبئی میں اپنے مستقبل کی بنیادیں پختہ کر چکے ہیں اُن کی بات الگ ہے۔ تاہم اکثریت ڈوبتے جہاز کو نہیں چھوڑ پائے گی۔ خشک کے ساتھ گیلا بھی جل جائے گا۔ گھن کے ساتھ گیہوں بھی پِسے گی! غریب کے ساتھ امیر بھی مارا جائے گا! کہ بقول شاعر‘ دھرتی نے دھڑ دھڑ‘ ضرور دھڑکنا ہے اور بجلی نے کڑ کڑ‘ لازماً کڑکنا ہے۔ جو حقیقت اوپر کی منزل والے بھول رہے ہیں یہ ہے کہ جہاز ایک ہی ہے۔ اوپر اور نیچے کی منزلوں کی تقسیم مصنوعی ہے۔ تین چوتھائی صدی تک اس ملک کو نوچا جاتا رہا۔بھنبھوڑا جاتا رہا! صرف اس ایک بات سے حکومتوں کی سفاکی کا اور شقی القلب ہونے کا اندازہ لگائیے کہ قومی ایئر لائن میں دہائیوں تک بھرتیاں چور دروازے سے ہوتی رہیں۔ ہر حکومت نے سفارش‘ دوست نوازی اور اقربا پروری میں کمال دکھایا۔ جو بجلی کا وزیر بنا اس نے واپڈا میں اپنے بندے گھسائے‘ جو ریلوے کا بنا اس نے ریلوے ہی کو کاٹ کھایا۔ قومی اداروں کو یونینیں چاٹتی رہیں۔ ایک ایک دیوار کو کھوکھلا کیا گیا۔ اوپر کی منزل والے اس خوش فہمی میں رہے کہ یہ عیاشیاں ہمیشہ رہیں گی مگر بھول گئے کہ جب حالات اس قسم کے کر دیے جائیں تو کوئی چنگیز خان نمودار ہو جاتا ہے۔ کوئی تیمور‘ کوئی نادر شاہ‘ کوئی احمد شاہ آگھستا ہے۔ کوئی کلائیو یا وارن ہیسٹنگز ظاہر ہوتا ہے جو سب سے پہلے بالائی طبقے پر دانت آزماتا ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں‘ ان سے انہیں ملنا بھی کیا ہے! یہی تو ملکہ سبا نے اپنے عمائدین سے کہا تھا '' بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کرتے ہیں‘ اور ایسا ہی کریں گے۔‘‘
کوئی اوپر کی منزل والوں کو بتائے کہ اُن کے پاس وقت کم ہے۔