جس دن میڈیا میں غلغلہ برپا تھا کہ نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھاتے وقت اپنی رفیقِ حیات کو اپنے ساتھ کھڑا کیا‘ ٹھیک اسی دن ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی چھپی کہ ایک باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کر دیا! غور کیجیے! کیسا سلسلہ در سلسلہ معاملہ ہے! عدالت کا سب سے بڑا قاضی عورت کو عزت دیتا ہے! عزت! جو عورت کا حق ہے! اسی عدالت کے دائرۂ اقتدار میں ٹھیک اسی دن ایک عورت باپ کی گولی کا نشانہ بنتی ہے۔ اگر وہ مجرم تھی تو اسے سزا دینا صرف اور صرف قاضی کا اختیار تھا۔ اگر وہ بے گناہ تھی تو اس کے قاتل کو سزا دینا بھی قاضی کا فرض ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر رفیقِ حیات کو ساتھ کھڑا کرنا ایک خاموش جدو جہد کا آغاز ہے تو یہ جدو جہد بہت طویل ہو گی! اس جنگ کے بہت سے میدان ہیں! اور ہر میدان بہادری مانگتا ہے۔ بچی پیدا کرنے پر عورت مجرم! وراثت میں حق مانگنے پر عورت مجرم! آبرو ریزی پر عورت مجرم! تعلیم حاصل کرنا چاہے تو عورت مجرم! شادی کرنا چاہے تو تب مجرم! انکار کرے تو تب مجرم! جرم باپ یا بھائی نے کیا ہے تو سزا عورت کو ملتی ہے! گاؤں گاؤں‘ بستی بستی پنچایتوں کے نام پر متوازی عدالتیں قائم ہیں جن کے فیصلے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتے! اسی ملک میں چھلکتے ماڈرن مال بھی ہیں اور فیشن شو بھی! اور اسی ملک میں پتھر کا زمانہ بھی موجود ہے! اسی ملک میں مرد باہر جاتے ہوئے مکان کا دروازہ باہر سے مقفل کر جاتے ہیں! جس خطۂ عرب میں اسلام اُترا تھا اس خطۂ عرب میں عورت آج بھی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ نہ صرف اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے بلکہ مرد کو شادی کا پیغام بھی بھیج سکتی ہے۔ طلاق کے لیے عورت کا عدالت جانا وہاں عام سی بات ہے۔ بیوہ عورت زندگی پھر گلے میں بیوگی کا طوق نہیں پہنتی! ہمیں عرب کلچر کی صرف ایک بات یاد رہتی ہے کہ وہ چار شادیاں کرتے ہیں! یہ تین دن پہلے کی بات ہے کہ کویت میں ایک مرد اور ایک عورت شادی رچا کر عدالت سے باہر نکلتے ہیں۔ عورت کے پاؤں کو کسی چیز سے ٹھوکر لگتی ہے۔ وہ گر پڑتی ہے۔ نیا نویلا دولہا اسے بے وقوف کہتا ہے۔ عورت وہیں واپس جج کے پاس جاتی ہے اور نکاح کی تنسیخ مانگتی ہے! جج نکاح منسوخ کر دیتا ہے! اس پورے عمل میں تین منٹ لگتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے کیا ہمارے ہاں ایسا ہو سکتا ہے! مدعا یہ نہیں کہ عرب معاشرہ آج کے دور میں کوئی مثالی معاشرہ ہے۔ عورت کے حوالے سے کئی قباحتیں ہیں مگر وہاں بیٹی کو رخصت کرتے وقت یہ نصیحت نہیں کی جاتی کہ اب سسرال سے تمہاری میت ہی نکلے! شبلی نعمانی نے کہا تھا:
تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ اورنگ زیب ہندوکُش تھا‘ ظالم تھا‘ ستم گر تھا
پاکستانی مرد کو بھی سارے مشرقِ وسطیٰ میں صرف تعددّ ازدواج کا رواج نظر آتا ہے۔ ضمیر جعفری یاد آگئے:
نہ بینائی پسند آئی نہ دانائی پسند آئی
مجھے سب جرمنی میں ایک نکٹائی پسند آئی
جس خاتون کو چیف جسٹس صاحب نے اپنے ساتھ کھڑا کیا‘ یہ وہی خاتون تھی جو جسٹس یعنی انصاف حاصل کرنے کے لیے عدالتوں میں‘ عصا در دست ماری ماری پھرتی رہی۔ کبھی ایف آئی اے میں تو کبھی ایف بی آر میں طلب کی جاتی رہی۔ مگر زمانے کی گردش بھی عجیب ہے۔ بقول اقبال:
زمانہ کہ زنجیر ایام ہے
دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے
وتلک الایام نداولھا بین الناس! یہ عجیب بات ہے کہ طاقت کے نشے میں چُور شخص اپنے پیشروؤں کے انجام سے سبق نہیں سیکھتا۔ زمانہ بارہا دکھا چکا ہے کہ آج جس کی تذلیل کی جاتی ہے کل اس کے دروازے پر جانا پڑتا ہے۔ برادرانِ بزرگ جب برادرانِ یوسف کا روپ دھارتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ ان سازشی اور ظالم بھائیوں کو یوسف علیہ السلام کے آگے سجدہ بھی کرنا پڑا تھا۔ عقل مند وہ ہوتا ہے جو زوال سے پہلے ہی عہدِ زوال کا کلچر اپنا لے۔ خاک نشیں اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے محروم‘ خاک نشیں ہی رہتے ہیں! چٹائی اور کھاٹ کے بعد آخر کون سا درجہ ہے! مگر یہ مشکل کام ہے۔ اہلِ دنیا‘ خاص طور پر اہلِ غرض‘ مقتدر حضرات کو طاقت کا نشہ زبردستی پلاتے ہیں اور یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتے کہ سارا کھیل چند دن کا ہے!
اب تو خیر یہ حکایت عام ہو چکی ہے مگر موجودہ چیف جسٹس کو تب بھی معلوم ہی ہو گا کہ ان کے خلاف جو ریفرنس بنا تھا کن صاحبان کی تصنیف لطیف تھی! ایک بہت ہی معروف کالم نگار اور اینکر پرسن کی روایت ہے اور یقینا ثقہ روایت ہے کہ جنرل باجوہ صاحب نے حلفاً کہا کہ اس ریفرنس کی پُشت پر وہ نہیں تھے۔ یہ بھی ثقہ روایت ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان بھی اس ریفرنس کے حق میں نہیں تھے مگر ان کے وزیر قانون ان پر غالب آگئے۔ کیوں غالب آگئے؟ اس کا جواب تو سابق وزیراعظم خود ہی دے سکتے ہیں۔ بہر حال موجودہ چیف جسٹس صاحب کو ریفرنس کے حوالے سے یہ پامال شدہ شعر ضرور یاد آیا ہو گا:
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
تاریخ چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ وقت منتقم مزاج ہے۔ جہانگیر نے اکبر کے خلاف بغاوت کی۔ جہانگیر کے دونوں بیٹوں نے باپ کے خلاف بغاوت کی۔ شاہ جہان نے اپنے بھائی خسرو کو قتل کرایا۔ اورنگ زیب نے تینوں بھائیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ باپ کو آٹھ سال قید میں رکھا اور اس سارے عرصہ میں اس سے ملاقات تک نہ کی۔ تخت اور قید خانے تاریخ میں ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ کیا اس سے بڑا سبق بھی کوئی ہے کہ جس صدر نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا‘ اسی صدر نے قاضی فائز عیسیٰ سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔ کل نون لیگ اور پی پی پی والے زندانوں میں بند تھے‘ آج تحریک انصاف والے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ کل یہی فلم اُلٹی چلے گی۔
کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
تخت سے اُترنے کے بعد یہ کہنا کہ میں ڈوبتا ہوا سورج ہوں‘ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ آپ غروب ہو چکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ نصف النہار پر تھے تو اُس وقت آپ کا رویہ کیا تھا؟ اُس وقت آپ کا رویہ بتاتا تھا کہ آپ ہمیشہ چمکتے رہیں گے اور کبھی غروب نہیں ہوں گے! کل طاقت میں ڈوبے ہوئے قہقہے نہ ہوتے تو آج آبدیدہ نہ ہونا پڑتا۔ معلوم نہیں شاعر کون ہے مگر قطعہ آبِ زرّیں سے لکھے جانے کے قابل ہے؛
یاد داری کہ وقتِ زادنِ تو
ہمہ زخندان بُدند و تو گریان؟
آنچنان زی کہ وقتِ مُردنِ تو
ہمہ گریان بوند و تو خندان
کیا تمہیں یاد ہے کہ جب تم پیدا ہوئے تو سب ہنس رہے تھے اور تم رو رہے تھے؟ زندگی اس طرح بسر کرو کہ تمہاری موت کے وقت سب رو رہے ہوں اور تم ہنس رہے ہو!
آپ تو رخصت ہوتے وقت آبدیدہ ہوئے! سوال یہ ہے کہ کیا رخصت کرنے والے بھی آبدیدہ ہوئے؟