والدہ ماجدہ تو بچپن ہی میں پردہ فرما گئی تھیں۔ اس کے بعد آپؐ کی محبوب ترین شخصیت کا مقام ساری زندگی دخترِ نیک اختر کو حاصل رہا۔ آپ کے ہاں تشریف لاتیں تو آپؐ کھڑے ہو جاتے۔ سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں بیٹی سے ملاقات کرتے۔ واپسی پر سب سے پہلے انہیں ملتے۔ وفات کے وقت بیٹی کو بشارت دی کہ وہ سب سے پہلے انہیں آ ملیں گی!
ان فضائل اور اس بے پناہ محبت کے باوجود جب اصول کا معاملہ آیا تو دوٹوک بات کی کہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا ارتکاب کرتیں تو ان کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا! سوال یہ ہے کہ ہم اہل ِپاکستان کس زعم میں ہیں اور کس خیال میں ہیں! جو کچھ ہم کر رہے ہیں کیا آپ ﷺ اس سے درگزر فرمالیں گے؟کیا ہمارا مقام‘ میرے منہ میں خاک‘ جگر گوشۂ رسول سے بڑا ہے ؟ ہمیشہ کی طرح ایک اور بارہ ربیع الاول آیا اور گزر گیا۔ ہم نے سبز پوشاکیں زیب تن کیں! گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر شہر شہر‘ قریہ قریہ‘ بستی بستی‘ جلوس نکالے۔ تقریریں کیں۔ میڈیا پر پروگرام ہوئے۔ سیرت پر مضامین لکھے‘ چھاپے اور پڑھے گئے مگر ہمارے دل اسی طرح سیاہ رہے۔ اتنے سیاہ کہ یونسؑ کو بطنِ ماہی میں بھی اتنی گہری تاریکی سے واسطہ نہ پڑا ہو گا! ہمارے چہرے روشن اور ہمارے اندرون چنگیز سے تاریک تر رہے۔ یہ مملکت جو آپ کے مقدس نام پر حاصل کی گئی‘ ہم اسے کاٹنے اور کھانے میں برابر مصروف ہیں! نگران وزیر اعظم سرکاری خرچ پر مارکوپولو اور ابن بطوطہ کو مات دے کر لوٹے ہیں! جن کے مقدس جسم پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے‘ ان کا نام لینے والے کیسی زندگی گزار رہے ہیں ! کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ لندن اور دبئی میں کیسے کیسے ان کے محلات ہیں! پرستانوں جیسی خوابگاہیں ہیں اور طلسمی مہمان خانے ہیں۔صبح پاکستان میں تو دوپہر اُن کی لندن میں ہوتی ہے اور شام دبئی کے ساحلوں پر! ان کے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی کھرب پتی ہوتے ہیں ! جبکہ ان کے کروڑوں ہم وطن غربت کی لکیر کے نیچے پڑے سسک رہے ہیں اور اتنے ہی بچے سکولوں سے باہر برتن مانجھ رہے ہیں اور ورکشاپوں میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں!
بارہ ربیع الاول گزر گیا۔ تاجر برادری نے تقریبات کے لیے دل کھول کر چندے دیے۔ مگر رسول ؐکے ہر اُس فرمان کو نظر انداز کیا جو تاجروں کے لیے جاری کیا گیا تھا! نقص والی اشیا دھڑلے سے بیچیں! کپڑا ہو یا اشیائے خور و نوش‘ کوالٹی کے بارے میں جھوٹے دعوے کیے۔ ٹیکس بچایا۔ عہد شکنیاں کیں! دروغ گوئی کے ریکارڈ توڑے! چندے دے کر اور نمازیں پڑھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ بچ جائیں گے! کیا خوش فہمی ہے! احمقانہ خوش فہمی ! بے وقوف اپنی تصوراتی جنت میں رہ رہے ہیں ! سرکاری ملازم بارہ ربیع الاول گزار کر اپنے آپ کو کتنا تبدیل کرتے ہیں ؟ کس وقت دفتروں میں حاضر ہوتے ہیں؟ کتنے گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں؟ سائل پھیرے لگا لگا کر مر جاتے ہیں۔ پنشنیں وقت پر نہیں ملتیں۔ مقدمے نسل در نسل چلتے ہیں۔ سفارش سکہ رائج الوقت ہے۔ تعلقات اور روابط میرٹ کے قاتل ہیں! یہ لوگ روز ِحشر آپ ﷺ کا کس منہ سے سامنا کریں گے! جو پیغمبر اپنی‘ سگی‘ لاڈلی‘ مقدس بیٹی کو رعایت دینے کے لیے تیار نہ تھے‘ وہ ان خائنوں‘ بد دیانتوں‘ منافقوں‘ چال بازوں‘بد طینتوں‘ سنگ دلوں‘ ایذا رسانوں‘ بد لحاظوں‘ بد زبانوں‘ بد نیّتوں‘ غاصبوں‘ میرٹ کُشوں‘ ٹوڈیوں‘ خوشامدیوں‘اقربا پروروں اور دوست نوازوں کو کیسے برداشت کریں گے! جنہوں نے اپنے صحابی کی یہ لغزش نہ معاف کی کہ اس نے مالِ غنیمت سے چادر چرائی تھی۔ اسے جہنم کی وعید سنائی تو ہم پاکستانی کس کھیت کی مولی ہیں!
حضرت انس بن مالکؓ کم و بیش دس برس تک خادم ِخاص رہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک بار بھی سرزنش نہ کی۔ یہ بھی کبھی نہ کہا کہ فلاں کام کیوں نہیں ہوا! آپ حضرت انسؓ کے گھر بھی تشریف لے جاتے تھے۔ملازموں کے حوالے سے اس امت کا جو پاکستان میں رہتی ہے‘ رویہ بدترین ہے۔ نہ صرف بد ترین بلکہ مکروہ ترین بھی! کون سا دن ہے جب کسی گھریلو ملازم لڑکے یا لڑکی یا عورت پر ظلم کی داستان میڈیا میں نہیں آتی۔ حکم تو یہ ہے جو خود کھاؤ انہیں بھی کھلاؤ‘ جو خود پہنو‘ انہیں بھی پہناؤ! مگر ایسا شاذ ہی ہوتا ہے! ان بے کسوں اور بے بسوں کو جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں گھر کے بچے بھی تشدد کرتے ہیں۔ لعنت ہے اولاد کی ایسی تربیت پر! مقدمہ چلے تو سزا کا فیصلہ کرنے والے بھی انہی فراعنہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں! یہ مظلوم خدام کل جب فریاد کریں گے تو نمرود صفت مالکوں کو عرصۂ محشر میں کھڑا ہونے کی جگہ بھی نہیں ملے گی! یہ مظلوم ملازم اُس وقت پورے اعتماد سے کہہ رہے ہوں گے
یہاں میں معتبر ہوں اور وہ نادم کھڑے ہیں
نظر مجھ سے چراتے ہیں وزیر و شاہ میرے
ربیع الاول کی بارہ تاریخ آئی اور ہر برس کی طرح گزر گئی؟ کیا ہم کوئی ایک تبدیلی بھی دکھا سکتے ہیں جو ولادتِ رسول منانے کے بعد ہم میں آئی ہو؟ کیا ہم نے قطع رحمی سے توبہ کی؟ کیا ہم بارہ ربیع الاول کو ناراض عزیزوں‘ رشتہ داروں کو منانے ان کے گھروں کو گئے؟ مزہ تو تب ہے کہ ان کی غلطیوں کے باوجود صلہ رحمی کا تقاضا پورا کیجیے۔ میلاد النبی پر کھانا تقسیم کرنا اور دولت خرچ کرنا آسان ہے مگر اپنی اَنا کو بالائے طاق رکھ کر‘ غلطی پر نہ ہونے کے باوجود‘ ناراض رشتہ داروں کو منانا اور گلے لگانا‘ یہی تو اصل اسلام ہے۔ اور یہی وہ اسلام ہے جو ہمارے گلے میں پھنس جاتا ہے۔ نفرتیں سینوں میں سانپ بن کر پرورش پاتی ہیں۔ ہم تو وہ بد بخت ہیں جو اپنے بچوں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ فلاں رشتہ دار سے بات نہیں کرنی ! کیا آپﷺ نے بھی رشتہ داروں سے قطع تعلقیاں اور قطع کلامیاں کیں ؟؟ حساب لگائیے ! بارہ ربیع الاول کے دن ہم جشن منانے والوں میں سے کتنے ہی اُس منحوس فہرست میں شامل ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو جائداد میں ان کے حق سے محروم کرتے ہیں ؟ کیا پُر پیچ عمامے اور لمبی قبائیں! اور کیا تھری پیس سوٹ اور چہرے پر روشن خیالی کا غازہ! بیٹیوں کو ان کے حق سے محروم کرنے والے بے شرموں میں ہر طبقے کے بھلے مانس شامل ہیں! جو لوگ بیٹیوں اور بہنوں کو ان کا حق دیتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے!
بارہ ربیع الاول کو کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جس قرآن کی تلاوت کرتے ہیں‘ جسے مُردوں کے قُل‘ ساتویں اور چالیسویں میں‘ دوسروں کو معاوضہ دے کر‘ پڑھواتے ہیں‘ اس کا مطلب سمجھنے کی فکر کریں ؟ کیا یہ صرف دم درود کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف گم شدہ بندوں اور چیزوں کو تلاش کرنے کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف تراویح میں‘ ایک لفظ سمجھے بغیر‘ سننے کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف نئی دلہن کے اوپر پھیرنے کے لیے ہے؟ کیا کوئی سرکاری خط سمجھے بغیر ہم روزانہ صرف اور صرف پڑھتے ہیں؟ کیا انکم ٹیکس کا نوٹس بھی سمجھے بغیر طاق پر رکھ دیتے ہیں! کیا اُس مرد اور اس عورت سے بڑا احمق بھی کوئی ہو گا جو ختم پر ختم کیے اور کرائے جا رہا ہے۔ سالہا سال! دہائیوں تک! یہاں تک کہ موت تک ! مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا تقاضا کیا ہے؟ اس کا مطالبہ کیا ہے ؟ عقل کیا کہتی ہے! منطق ایک ہی سوال کرتی ہے کہ سمجھے بغیر پڑھنا کسی صاحب عقل کے لیے کیسے ممکن ہے ؟
ہر سال بارہ ربیع الاول آئے گی! ہر سال یہی کچھ ہو گا! یہاں تک کہ ہم زندگی کی نیند سے اُٹھ کر موت کی بیداری کا سامنا کریں گے !!