ایک صاحب آئے اور حمید سے لپٹ گئے! بھینچ بھینچ کر ملے!
الگ ہوئے تو حمید نے انہیں غور سے دیکھا! پوری کوشش کی پہچاننے کی! مگر وہ حمید کے لیے مکمل اجنبی تھے۔ حمید نے انہیں زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کبھی بھی نہیں! پوچھا آپ کون ہیں؟ میں پہچانا نہیں! اس سے پہلے ہماری ملاقات کبھی نہیں ہوئی! بولے میں آپ کا بھائی ہوں! حقیقی بھائی! حمید ہنسا اور کہا میں بے وقوف تو ہو سکتا ہوں‘ پاگل نہیں کہ آپ کو اپنا حقیقی بھائی مان لوں! آپ ہر گز میرے بھائی نہیں! پورا شہر جانتا ہے کہ میرے بھائی کون کون سے ہیں! حمید کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس اجنبی نے اسے بچپن کے وہ واقعات سنانا شروع کیے جو اس کے بھائیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا! جان سکتا ہی نہیں تھا۔ دادی دادا کے واقعات! لڑکپن کے قصے! ماں کی وفات کی تفصیل! حمید بھونچکا ہو گیا! اس نے حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز میں پوچھا ''مگر تمہارا چہرا‘‘! وہ جو اصل میں بھائی تھا مگر بظاہر اجنبی! رو پڑا اور ایک بار پھر اس سے لپٹ پڑا! بھائی جان! کیا بتاؤں! ان ظالموں نے مجھے پکڑ کر زبردستی میرے چہرے کی پلاسٹک سرجری کی اور شکل بدل دی! اندر سے وہی ہوں! خواتین وحضرات! یہ ہے زبان کا اور اس کے رسم الخط کا معاملہ! جب کسی زبان کا رسم الخط بدل دیا جاتا ہے تو یوں سمجھیے اس کا چہرا ناقابلِ شناخت ہو جاتا ہے۔ اس کی دردناک مثال ترکی زبان ہے۔ کاشغر اور ارمچی سے لے کر تاشقند تک‘ خجند سے لے کر ترمذ تک مزار شریف سے لے کر اشک آباد تک اور باکو سے لے کر استنبول تک‘ پورے ترکستان میں ایک ہی زبان تھی جس کا نام ہر جگہ ترکی تھا۔ گفتگو کے لہجے مختلف تھے‘ کہیں ازبک‘ کہیں آذری مگر سٹینڈرڈ ترکی‘ یعنی لکھنے کی ترکی ایک ہی تھی۔ انیسویں صدی کے اواخر تک زارِ روس وسط ایشیا پر قابض ہو کر اسے ''روسی‘‘ ترکستان کا نام دے چکا تھا مگر اس نے بے پناہ ظلم وستم کے باوجود زبان سے تعرض نہ کیا۔
1917ء میں جب اشتراکی انقلاب آیا تو پہلے تو اشتراکیوں نے وسط ایشیا سے آزادی کا وعدہ کیا تاکہ زار کے خلاف مدد حاصل ہو۔ جب ان کے پاؤں جم گئے تو استعمار کھل کر سامنے آگیا۔ ترکستان کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور امتِ مسلمہ سے کاٹنے کے لیے فارسی اردو والا رسم الخط تبدیل کرکے لاطینی رسم الخط مسلط کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد کمال اتاترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کر دیا۔ اب سوویت استعمار میں خوف پیدا ہوا کہ وسط ایشیا ترکی کے قریب ہو جائے گا چنانچہ Bolsheviksنے وسط ایشیا کا رسم الخط ایک بار پھر بدل کر روسی (Cyrillic) رسم الخط مسلط کر دیا۔ آج وسط ایشیا اور ترکی کے لوگ اپنے ماضی سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں اور بے بہرہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے صدر اردوان نے اصل رسم الخط کی طرف پلٹنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے رفتگاں کی قبروں کے کتبے تو پڑھ سکو گے مگر پورے مغرب نے یک زبان ہو کر شور مچایا کہ عثمانی رسم الخط لایا جا رہا ہے حالانکہ عثمانی رسم الخط نام کا کوئی رسم الخط وجود ہی نہیں رکھتا۔ آج بدقسمت ترک جو ایک زبان بولتے ہیں‘ چار قسم کے رسم الخط میں بٹے ہوئے ہیں۔ ترکی میں لاطینی اور وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی رسم الخط ہے۔ شمالی افغانستان‘ جسے ترکستانِ صغیر بھی کہا جاتا ہے‘ فارسی رسم الخط استعمال کر رہا ہے۔ سنکیانگ کے ایغور ترکوں کا الگ رسم الخط ہے۔ تاشقند کا ترک مزار شریف‘ کاشغر اور استنبول کے ترک سے گفتگو تو کر سکتا ہے مگر یہ چاروں ایک دوسرے کی لکھی ہوئی ترکی پڑھ نہیں سکتے!
پاکستان میں کبھی کبھی جو آوازیں اٹھتی ہیں کہ اردو کا رسم الخط بدلا جائے‘ انہیں شاید اس کے مضمرات کا اندازہ نہیں یا وہ کسی ایجنڈے کے اسیر ہیں۔ سوشل میڈیا پر رومن اردو ایک نحوست کی طرح منڈلا رہی ہے۔ یہ رومن اردو نئی پود کو اسی مقام پر لا کھڑا کرنا چاہتی ہے جہاں ترک کھڑے ہو کر نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں!
اگر رسم الخط لباس ہے تو خطاطی لباس کا ڈیزائن ہے۔ رسم الخط تعمیر ہے تو خطاطی طرزِ تعمیر ہے۔ اسلامی خطاطی‘ پورے عالمِ اسلام کو مربوط رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ مراکش سے لے کر ترکی تک‘ مصر سے لے کر ایران اور پھر بر صغیر تک‘ خطاطی نے سب ثقافتوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ ترکی‘ ایران اور پاکستان خطاطی کے عظیم الشان مراکز ہیں۔ جس طرح صرف‘ نحو‘ تفسیر‘ ترجمہ‘ تجوید‘ علمِ احکام‘ علمِ میراث اور دیگر کئی علوم قرآن پاک سے پھوٹے ہیں اسی طرح خطاطی کا بھی کلام مجید سے گہرا تعلق ہے۔ خطاطی ثقافت کا ایک خوبصورت اور بے مثال مظہر ہے۔ آیات اور اشعار کی خطاطی کرتے وقت جو جدت طرازیاں کی گئیں‘ جو ڈیزائن بنائے گئے‘ مسجدوں‘ مقبروں اور مکانوں پر خطاط کے قلم نے جو معجزے دکھائے اس کی مثال فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف میں شاید ہی ملیں۔
برصغیر میں اس فن کی سرپرستی بدرجہ اتم ہوئی۔ یوں کہ بادشاہ‘ شہزادے اور شہزادیاں خود خطاط تھیں۔ امرا اور عمائدین کے بچوں کے لیے خطاطی کی تعلیم لازم تھی۔ محمد تغلق خود اعلیٰ پائے کا خوش نویس تھا۔ لائبریریوں میں خطاط مامور تھے اور بھاری معاوضے پاتے تھے! اکبر اور خانخاناں کے ہاں سینکڑوں خطاط کتابیں نقل کرتے تھے۔ بابر خطِ بابری کا موجد کہلاتا ہے۔ دارا شکوہ‘ اورنگزیب اور شاہی خاندان کے مرد عورتیں سب خوش نویسی میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔
خواتین و حضرات! آپ نے اس زمانے میں اگر خطاطی کے کرشموں کو مجسم دیکھنا ہے اور اگر خطاطی کی تارخ کا مظہر دیکھنا ہے تو خطاطِ وقت رشید بٹ کو دیکھیے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
تو اس زمانے میں‘ جب گھر گھر چھاپہ خانے ہیں‘ جب بچے حروفِ تہجی لکھتے نہیں ٹائپ کرتے ہیں‘ جب سرکنڈے کے قلم‘ تختی اور روشنائی شاید عجائب گھروں میں بھی نہ دکھائی دیں‘ رشید بٹ اس وقت بھی خطاطی کا چراغ جلائے ہوئے ہے۔ رشید بٹ کے فن پاروں کی نمائش مغرب کے کلیساؤں میں بھی ہوئی۔ اس نے اسلامی مدارس کے طلبہ کو بھی خطاطی سکھانے کی کوشش کی۔ ایک ایسا بھی وقت آیا کہ رشید بٹ نے نامساعد حالات سے تنگ آکر اس شعبے کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ مشہورِ زمانہ مستشرق ڈاکٹر این میری شمل تھیں جنہوں نے اصرار کیا کہ وہ ایسا نہ کریں اور ہتھیلی پر جو دیا رکھے ہوئے ہیں‘ رکھے رہیں۔ رشید بٹ جب حروف اور الفاظ لکھتا ہے تو اس کے ہر حرف اور ہر لفظ میں کئی جہان ہوتے ہیں۔ وہ جب محمد کا میم لکھتا ہے تو اس میم میں مجتبیٰ اور مصطفی ہوتے ہیں۔ اس میں مدثر اور مزمل ہوتے ہیں۔ اس میم میں مٹھاس ہوتی ہے۔ پھر جب وہ محمد کی ح لکھتا ہے تو یہ ح حاشیہ ہوتی ہے جو محمد کے نام نامی نے دنیا کے گرد کھینچا ہے۔ یہ ح حصار ہے جس کے اندر خلقِ خدا مامون اور محفوظ ہے۔ یہ ح حرمت ہے کہ محمدؐ کے نام کی حرمت پر کروڑوں اربوں لوگ سر کٹانے پر ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔ یہ ح حسن ہے کہ یہ نام‘ یہ ہستی حُسن کے ہر معیار پر پورا اترتی ہے۔ رشید بٹ جب محمد کا دال لکھتا ہے تو یہ دال دامن ہے جس کے سائے تلے مخلوق سکھ کا سانس لیتی ہے۔ یہ دال دار الامان ہے جہاں دنیا بھر کے ستائے ہوئے لوگ سر چھپاتے ہیں۔ رشید بٹ اُس قلم کی حرمت کا محافظ ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے ''ن والقلم وما یسطرون‘‘۔
( یہ گفتگو خطاطِ وقت جناب رشید بٹ کے اعزاز میں منعقدہ محفل میں کی گئی)