شاہ حسین کی شاعری اور شخصیت پر فرخ یار نے سوا چار سو صفحات کی مبسوط اور مدلل کتاب لکھی ہے۔ اس پر تعجب ہوا بھی اور نہیں بھی ہوا! تعجب اس لیے ہوا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ بینکار ہے! ایک بہت ہی سینئر اور تجربہ کار بینکار! کہاں بینکاری اور کہاں تصوف‘ ملامت‘ سنگیت اور شاعری!! پھر وہ روایتی مفہوم میں فیوڈل خاندان کا چشم و چراغ ہے! حویلی کے صدر دروازے پر ہر وقت خدمتگار موجود رہتے ہیں! اس پس منظر کے ساتھ فقیری! اور فقیروں میں دلچسپی! تعجب کی بات تو ہے۔ تعجب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے ہی صاحبِ اسلوب نظم گو ہے۔ علم اور اَدب اس کے شجرۂ نسب کا حصہ ہے۔ اس کے ایک بزرگ ہرات کے والی رہے۔ اس کی والدہ محترمہ کے نانا جان مرزا جان محمد افغان ہرات سے آئے اور زمین کی اُس پٹی کے ہو رہے جو دریائے سندھ کے مشرق اور فتح جنگ کے مغرب میں واقع ہے۔ کالا چٹا پہاڑ اس پٹی کی شمال کی طرف سے حفاظت کر رہا ہے۔ جنوب مشرق میں کھیری مورت کا پہاڑ پہرہ دے رہا ہے۔ مرزا جان محمد افغان دانشور تھے اور مصنف اور مفسر بھی! فرخ یار ادبی میراث کے لحاظ سے ثروت مند ہے۔
شاہ حسین پر لکھنا آسان نہیں‘ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس راستے میں بہت سے مشکل مقام آتے ہیں۔ ایک تو ان کی ذات اور زندگی کے ساتھ بے شمار تنازعے چمٹے ہوئے ہیں۔ دوسرے اس زمانے کی پنجابی جس میں انہوں نے شاعری کی‘ ہر کسی کی دسترس میں نہیں آ سکتی! شاہ حسین کی پیدائش اس وقت ہوئی جب برصغیر‘ بشمول پنجاب شدید عدم استحکام کا شکار تھا۔ شیر شاہ سوری‘ مغل بادشاہ ہمایوں کے تخت اور جان دونوں کے درپے تھا۔ شاہ حسین کا سالِ پیدائش 1538ء ہے۔ اس کے ٹھیک دو سال بعد شیر شاہ سوری نے ہندوستان کی حکومت سنبھال لی۔ فرخ یار نے بتایا ہے کہ شاہ حسین کا تعلق لاہور کے نو مسلم راجپوت خاندان سے تھا۔ فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں شاہ حسین کا جدِ اعلیٰ ''کلس رائے‘‘ مسلمان ہوا۔ یہ خاندان کپڑا بنانے کے فن سے وابستہ تھا۔ شاہ حسین کو شیخ ابو بکر کے مدرسہ میں داخل کرایا گیا۔ یہ مدرسہ مسجد تل بھگہ بیرون ٹکسالی دروازہ واقع تھا۔ شاہ حسین دس برس کے تھے کہ ان کی ملاقات ایک سیلانی طبیعت کے حامل قادری صوفی بہلول دریائی سے ہوئی۔ بہلول دریائی نے اس نوعمر کی کایا پلٹ دی۔ کچھ دن وہیں مسجد میں رہ کر شاہ حسین کو سلوک کی منزلیں طے کروائیں۔ اور پھر حسین کو روحانی طور پر حضرت داتا گنج بخش کے سپرد کرکے واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔ شاہ حسین اگلے بارہ برس تک داتا گنج بخش کے مزار پر کسبِ فیض کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ وہ سماج اور مذہب کے ظاہری اعمال سے گریز کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد شیخ سعداللہ کے حلقۂ درس میں جانے لگے۔ یہ درس موجودہ لنڈا بازار سلطان سرائے محلہ دارا شکوہ میں ہوتا تھا۔ آپ مولانا فتح اللہ دانشمند کے فرزند تھے۔ طبیعت پر ملامت اور مستی کا رنگ غالب تھا۔ دورانِ درس تفسیرِ مدارک پڑھاتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے ''اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے‘‘(سورۃ الانعام: 32) تو شاہ حسین پر حال طاری ہو گیا۔ درس سے دیوانہ وار‘ رقصاں‘ نکل گئے اور طرزِ زندگی بالکل بدل لیا۔ حضرت بہلول نے سنا تو لاہور تشریف لائے‘ حسین کو تلقین کی اور واپس چلے گئے۔ 1575ء میں بہلول کا انتقال ہو گیا۔ شاہ حسین کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی جب ان کی ملاقات راوی کے پار شاہدرہ میں مادھو لال نامی ایک ہندو نوجوان سے ہوئی۔ اُس وقت مادھو لال کم و بیش سولہ برس کا تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں اس کے قبولِ اسلام کی روایت ہے۔ مادھو لال کو اس کے خاندان نے گھر سے نکال دیا تو وہ شاہ حسین کے ساتھ رہنے لگا۔ یہ قربت اس حال تک پہنچی کہ شاہ حسین‘ مادھو لال حسین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ شاہ حسین کی وفات 1599ء میں ہوئی۔ یہ شہنشاہ اکبر کا عہد تھا۔ دارا شکوہ نے اپنی تصنیف ''حسنات العارفین‘‘ میں شاہ حسین کو ملامتیہ کا استاد لکھا ہے۔
فرخ یار کی شاہ حسین پر لکھی گئی یہ کتاب صرف شاہ حسین کے تصوف اور ملامت کا تذکرہ ہی نہیں‘ تصوف کے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی عارفانہ روایت میں جو مقام سنگیت کا ہے‘ اس پر فرخ نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اسلامی تاریخ اور تہذیب کا ایک سمندر ہے جو اس کتاب میں بند ہے۔ تصوف اور ملامت کے باہمی تعلق کی جو تشریح اور تعریف اس کتاب میں کی گئی ہے‘ شاید ہی اردو زبان میں کہیں اور ملے! مذاقِ عجم کی تاریخ جو فرخ نے لکھی ہے‘ بے مثال ہے۔ اس ضمن میں فرخ حوالے دیتا جاتا ہے اور ملک ملک‘ شہر شہر‘ عہد بہ عہد ساری حقیقتیں سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ ابو نعیم اصفہانی‘ ابو حمزہ صوفی خراسانی‘ احمد غزالی ( امام غزالی کے چھوٹے بھائی)‘ مولانا روم‘ شمس تبریزی‘ شیخ سعدی‘ فخرالدین عراقی‘ حافظ شیرازی اور ترک صوفی یونس ایمرے کے حوالوں سے فرخ نے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ عباسی خلفا‘ اندلسی حکمرانوں اور سلاطینِ دہلی کو بھی اس حوالے سے زیر بحث لایا گیا ہے۔
فرخ نے دو احسانات شاہ حسین کے دلدادگان پر مزید کیے ہیں اور اس کے لیے محنتِ شاقہ کو بروئے کار لایا ہے۔ پہلا کام یہ کیا ہے کہ شاہ حسین کی شاعری کے متن پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے‘ اس کی فہرست دی ہے۔ ان محققین میں ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ‘ عبدالمجید بھٹی‘ پروفیسر پیارا سنگھ پدم‘ پروفیسر ڈاکٹر نذیر احمد (جو گورنمنٹ کالج کے نامور پرنسپل تھے)‘ محمد آصف خان اور مقصود ثاقب شامل ہیں۔ فرخ یار نے ان تمام مصنفین کے پیش کردہ متون کا ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کیا ہے اور ایک ایک کافی کا تجزیہ کرکے ایک ایک لفظ کا‘ ایک ایک سطر کا اور ایک ایک مصرعے کا اختلاف واضح کیا ہے۔ یہ تحقیق 52 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ دوسرا بہت بڑا کام یہ کیا ہے کہ 162 اشلوک اور کافیوں کا متن درج کرکے ان کا آسان اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ساتھ مشکل الفاظ کی تشریح بھی کی ہے۔ یوں فرخ نے شاہ حسین کے ان عشاق پر کرم فرمائی کی ہے جنہیں قدیم اور ادق پنجابی پڑھتے ہوئے مشکلات پیش آتی ہیں۔ مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ایک کافی اور اس کا ترجمہ دیکھیے :
کُڑیے جاندیے نی‘ تیرا جوبن کُوڑا
پھیر نہ ہوسیا رنگلا چُوڑا
وَت نہ ہوسی آ ایل جوانی‘ ہس لے کھیڈ لے نال دل جانی
مونہہ تے پوسی آ خاک دا دُھوڑا
کہے حسین فقیر نمانا‘ تھیسی رب ڈاڈھے دا بھانا
چلنا ای تاں بَنھ لے مُوڑا
اے چلی جاتی لڑکی! تیری یہ جوانی جھوٹی ہے۔ دوبارہ یہ رنگین چُوڑا رہے گا نہ جوانی کی یہ سرمستیاں! جا اپنے پریتم کے ساتھ اٹھکیلیاں کر! اس سے پہلے کہ تیرے سر پر خاک کا چھینٹا پڑ جائے۔ حسین‘ اپنے سائیں کا فقیر کہتا ہے کہ وہی ہوگا جو اس زور والے مالک کو منظور ہے۔ چلنا ہے تو باندھ اپنی گٹھڑی!!
چُوڑا/ سر کا ایک زیور۔ ایل/ اَلہڑ‘ منہ زور۔ پوسی آ/ پڑے گا۔ دُھوڑا/ چھینٹا۔ بھانا/ تقدیر‘ رضا ۔ بَنھ لے/ باندھ لے۔ مُوڑا/ سامان‘ پونجی۔