خیمہ اور اونٹ …( 2)

مشرق وسطیٰ کے کھرب پتی ممالک جو مسلمان بھی ہیں کسی بھی غیر ملکی مسلمان کو شہریت نہیں دیتے خواہ وہ وہاں پیدا ہوا ہو یا پچاس سال سے رہ رہا ہو !! مگر پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی سرحد پار کر کے آئے اسے شہریت دے دی جائے! اعزاز صاحب کا کہنا ہے کہ '' جو افغان یہاں پر موجود ہیں ہمارا بازو ہو سکتے ہیں ہماری طاقت ہو سکتے ہیں‘‘! افغان تاریخ سے واجبی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ افغانوں کی وفاداریاں خود افغانستان کے اندر کبھی مستحکم اور قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ افغان آزاد روحیں ہیں۔ Maverick ‘موڈی اور کسی بھی نظم و ضبط سے آزاد !! ولیم ڈالرمپل کی تصنیف '' ریٹرن آف اے کنگ‘‘ افغانوں کی نفسیات سمجھنے کیلئے تازہ سورس ہے۔ دنیا کا پیچیدہ ترین قبائلی نظام! جو کسی اصول کا پابند نہیں! خونی رشتوں کے اندر بھی ہولناک دشمنیاں! شاہ شجاع کے عمائدین میں سے ایک نے اپنے ساٹھ رشتہ داروں کی دعوت کی۔ مہمانوں کے کمرے کے نیچے پہلے ہی بارود بھری بوریاں رکھ دی گئیں۔کھانے کے دوران میزبان کسی بہانے باہر چلا گیا۔ ساٹھ کے ساٹھ رشتہ دار بھک سے اُڑا دیے گئے۔ یہ مہاجرین چالیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ آبادی انکی بڑھ کر کیا عجب کروڑ تک پہنچنے والی ہو۔ ( درست مردم شماری ان کی ناممکن ہے ) کتنی ہی نسلیں جوان ہو چکیں۔ یہاں کے پانی‘ اناج‘ دھوپ اور چاندنی سے تمتع اٹھایا۔ اب تک آپکے بازو اور آپکی طاقت کیوں نہیں بنے ؟ میں حرمین سے لے کر کینیڈا‘ امریکہ اور آسٹریلیا تک بے شمار افغانوں سے ملا ہوں جو پاکستان میں پیدا ہوئے‘ یہیں بڑے ہوئے۔ پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر باہر گئے‘ مگر پاکستان کے شدید مخالف ہیں۔ کئی واقعات ہیں! کالم کی تنگ دامانی مانع ہے۔ اگر اعزاز صاحب نے ان افغانوں کے انٹرویو کیے ہیں یا انکے پاس پاکستان کا دست و بازو بننے کیلئے تیار افغانوں کے اعداد و شمار موجود ہیں تو ازراہِ کرم ہمارے علم میں اضافہ کریں ! 1920-21ء میں جب '' ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلی تھی اور ہندوستان کے مسلمان ہجرت کر کے افغانستان گئے تھے تو ان کیساتھ وہاں جو سلوک ہوا ‘ تاریخ کا حصہ ہے !!
رہی یہ بات کہ '' افغان بھائیوں اور بہنوں کو گلے سے لگانے کی ضرورت ہے ‘‘ اور یہ کہ '' ہم نے انہیں عزت نہیں دی۔‘‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے! ایران نے افغان مہاجرین کو خاردار تاروں کے حصار سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اسکے بر عکس افغان مہاجرین سارے پاکستان میں پھیل گئے۔ نصف صدی سے کاروبار کر رہے ہیں۔ جائدادیں خرید لیں۔ لاکھوں نے ناجائز راستے سے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لے لیے۔منشیات اور اسلحہ سے پاکستان بھر گیا۔ سب سے زیادہ قربانیاں ان مہاجرین کیلئے خیبر پختونخوا نے دیں۔یہاں مہاجرین نے مزدوریاں چھین لیں۔ مکانوں کے کرائے آسمان تک پہنچ گئے۔ مقامی لوگ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے محروم ہو گئے۔ میں ا ٹک سے ہوں۔ مقامی تاجر وں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کراچی سے لے کر گلگت تک مہاجرین کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں ہے۔ صرف بارہ کہو اور ترنول ہی کی ڈیمو گرافی کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ اگر اب بھی گلہ ہے کہ عزت نہیں دی اور گلے سے نہیں لگایا تو پھر ایک ہی حل ہے کہ پاکستانیوں کو جلاوطن کر دیجیے۔ ابو سعید ابو الخیر سے منسوب رباعی یاد آرہی ہے
گفتی کہ فلان زیاد ما خاموش است/از بادۂ عشقِ دیگران مدہوش است
شرمت بادا ہنوز خاکِ درِ تو /از گرمئی خونِ دلِ من در جوش است
تمہیں گلہ ہے کہ ہم تمہاری یاد سے غافل ہیں اور کسی اور کی محبت میں گرفتار ! کچھ تو خیال کرو۔ تمہارے دروازے کی مٹی ہمارے خونِ دل کی گرمی سے ابھی تک جوش کھا رہی ہے!
جو مہاجرین پڑھے لکھے ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں انہیں پاکستان کی شہریت دے کر ہم افغانستان کے ساتھ نیکی کریں گے یا دشمنی ؟ افغانستان کی معیشت اور سوشل سٹرکچر پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ وہاں تعلیم یافتہ لوگوں اور ہنر مندوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ان سپوتوں کو اپنے ملک جا کر اس کی خدمت کرنی چاہیے! پہلے '' جہاد ‘‘ کے نام نہاد پاکستانی علم بردار اپنے بچوں کو تو امریکہ میں تعلیم دلاتے رہے اور انہیں بزنس مین بناتے رہے مگر افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دے دیں۔ جہاد کے علم بردار خود جہاد میں نہیں گئے۔ اپنے آراستہ ایوانوں میں متمکن رہے۔ افغانوں کو جہاد پر اکساتے رہے۔ اوجڑی کیمپ نے سرکاری ملازموں کی اولاد کو کھرب پتی بنا دیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ قابل اور ہنرمند افغان مہاجر افغانستان نہ جائیں اور اپنے ملک کیلئے کچھ نہ کریں ! یہ خیر خواہی نہیں!!
اعزاز صاحب کی یہ بات درست ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کا رول رہا مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ '' چار دفعہ افغانستان کی زمین تہِ تیغ ہوئی اور چاروں دفعہ پاکستان کا رول تھا ‘‘ تو یہ پاکستان کے خلاف ایک گمبھیر چارج شیٹ ہے !وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہمارے رول کی وجہ سے مہاجرین کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ ایسی بات نہیں۔ پہلی مثال وہ سوویت حملے کی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ '' ہم نے پیسے لیے اور جنگ افغانستان کے اندر لڑی اور بہت سارے افغان مہاجرین یہاں پر آئے‘‘ جب جنرل ضیا نے پاکستان کو ملوث کیا تو مہاجرین تو اس سے پہلے آچکے تھے۔ سوویت یونین کے حملے میں پاکستان کا رول کیسے ہو سکتا ہے !! طالبان پہلی بار حکومت میں آئے تو درست ہے کہ پاکستان نے ان کی حمایت کی مگر مہاجرین اسلئے تو نہیں آئے کہ پاکستان مدد کر رہا تھا!! پھر جب امریکہ چڑھ دوڑا اور مہاجرین کے مزید ریلے آئے تو اس میں پاکستان کا کیا قصور تھا؟ پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو کیا امریکہ نہ آتا ؟امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ افغانوں کو ان حملوں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ اس میں پاکستان کہاں سے قصوروار ہو گیا ؟ چیزوں کو Oversimplify کرنے سے تاریخ بدلتی تو نہیں ہاں اس کی شکل مسخ ضرور ہو جاتی ہے۔
اعزاز صاحب کا مؤقف ہے کہ خود کش حملہ آور افغان سرحد پار سے آئے تھے‘ یہاں رہنے والے افغان عام طور پر کسی قسم کی برائی میں یا قانون کی وائلیشن میں ملوث نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہے تو اچھی بات ہے‘مگر ہم یہ عرض ضرور کریں گے کہ اس معاملے میں محترم اعزاز صاحب نے جو تحقیق کی ہے اور جن اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خود کش حملہ آور سرحد پار سے آئے اور یہاں رہنے والے افغان قانون کی پامالی میں ملوث نہیں ہوتے تو ازراہِ کرم ہمیں اس تحقیق اور ان اعدادو شمار سے آگاہ ضرور فرمائیں!
آخر میں ہم اعزاز صاحب کی توجہ کچھ تلخ حقائق کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کی حمایت اور وکالت پاکستان نے پوری دنیا میں کی۔اپنی بساط سے بڑھ کر تعاون کیا مگر بار بار کی یاد دہانیوں اور درخواستوں کے باوجود افغانستان کی زمین پاکستان پر حملوں کیلئے مسلسل استعمال ہو رہی ہے۔ افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے جناب آصف درانی نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو سر حد پار کر کے پاکستان میں حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے تمام بڑے گروپ افغان حکومت کی طرف سے کسی مزاحمت کے بغیر افغانستان سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ آئے دن سرحد پر افغانستان کے فوجیوں کی طرف سے جھڑپیں اس کے علاوہ ہیں۔ اس صورتحال سے اغماض برت کر پوری قوت کیساتھ یہ کہنا کہ تمام افغانوں کو جنہیں پاکستان نے پناہ دی‘ شہریت دی جائے‘ تھپڑ مارنے والے کو دوسرا رخسار پیش کرنے کے مترادف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں