موسم بدل گیا ہے۔ رُت نئی ہے! مسافر پرندے آرہے ہیں۔ غول کے غول! پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے !! (ن) لیگ کی جھیل پر اُتر رہے ہیں!
کچھ سادہ لوح اس تازہ ہجرت پر جز بز ہورہے ہیں! کچھ حیرت میں مبتلا ہیں! کچھ نفرین بھیج رہے ہیں اور طعنہ زن ہیں! یہ سب غلط ہیں! یہ اپنی تاریخ سے نابلد ہیں!یہ ہجرتیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں! بر صغیر کی مسلم آبادیاں انہی ہجرتوں میں پروان چڑھیں! یہ مسافرت تو ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے! ہم جب وفاداری بدلنے پر آتے ہیں تو بدل کر رہتے ہیں۔ پھر ہم اپنا قبیلہ‘ اپنا خون‘ اپنا محسن‘ اپنا وعدہ‘ اپنا حلف ‘ اپنا دین‘ اپنا ایمان ‘ اپنی آخرت کچھ بھی نہیں دیکھتے! ہم صرف مفاد دیکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے چڑھتے سورج کے پجاری رہے ہیں!ہم ہمیشہ ایک جھیل سے دوسری جھیل کو اور ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ کو نقل مکانی کرتے رہے ہیں! مفادات کی اس دوڑ میں کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بنگال تھا یا یوپی‘ کراچی تھا یا پشاور‘ پشتون تھا یا پنجابی‘ سندھی تھا یا بلوچی‘ کشمیر سے تھا یا دکن سے‘ کابل سے تھا یا جونپور سے ‘ سب میں دو صفات مشترک تھیں۔ مسلمان تھے اور وفاداریاں بدلنے کے ماہر!
یہ ایک سرد شام تھی۔کابل کے ارد گرد ‘ پہاڑوں پر برفباری ہو رہی تھی۔ ظہیر الدین بابر ایک مہم سے لوٹا تو محل کے دروازے پر ہی اسے اطلاع ملی کہ دریائے سندھ کے اُس پار سے ‘ جہاں پنجاب کی اقلیم ہے‘ مہمان آئے بیٹھے ہیں۔ ایک تو عالم خان تھا سلطنتِ دہلی کے حکمران ابراہیم لودھی کا چچا۔ دوسرا دلاور خان تھا‘ پنجاب کے گورنر دولت خان کا فرزند! دولت خان کو ابراہیم لودھی نے پنجاب کا گورنر مقرر کیا تھا۔ کچھ چھوٹی موٹی رنجشیں تھیں۔ حل یہ نظر آیا کہ ابراہیم ہی کا صفایا کر دیا جائے۔ چنانچہ عالم خان اور دلاور خان ‘ دونوں غدار کابل آئے اور بابر کو ترغیب دی کہ آؤ ! ہندوستان پر حملہ کرو ! بابر کو اور کیا چاہیے تھا۔ چڑھ دوڑا! ابراہیم لودھی سلاطینِ دہلی کے تین سو اٹھارہ سالہ دور میں واحد بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا!
عہد شکنی سے ہماری تاریخ اَٹی پڑی ہے۔ ہمایوں کا ستارہ گردش میں آیا تو راتوں کو اس کے عمائدین‘ اس کے حریف شیر شاہ سوری کے کیمپ میں چھپ چھپ کر جاتے تھے۔جب بھی کوئی مغل شہزادہ باپ کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا تو اس کی فتح کی امید میں خان اور سردار اس کے ساتھ ہو جاتے۔ جیسے ہی وہ کمزور پڑتا ‘ اسے چھوڑ جاتے۔ شاہجہان کے فرزند جب باہم بر سر پیکار ہوئے تو غداری اس قدر عام ہوئی کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دارا شکوہ اورنگ زیب کی تلوار سے بچ کر ایران کا رُخ کر رہا تھا۔ سہون شریف کے قریب اس نے دریا عبور کیا اور درۂ بولان کی طرف بڑھا۔کوئی لڑاکا فوج ساتھ نہ تھی‘ چند خواجہ سرا اور ملازم ساتھ رہ گئے تھے۔ ایک شخص جیون خان کی جاگیر کے پاس سے گزرا۔یہ وہی جیون خان تھا جسے شاہ جہان نے ہاتھی کے پَیروں تلے روند دینے کا حکم دیا تھا۔ دارا نے سفارش کی اور اس کی جان بچ گئی۔ اس سے بڑا احسان کیا ہو سکتا تھا۔ دارا نے فیصلہ کیا کہ دو تین دن اس کے ہاں ٹھہر کر آرام کرے اور اپنے منتشر حواس مجتمع کرے۔ خواتین نے منع کیا مگر دارا نہ مانا۔ نمک حرام جیون خان نے تین دن خوب خدمت کی اور اس کے بعد پکڑ کر اورنگ زیب کی فوج کے حوالے کر دیا۔ جو کچھ ''وفاداروں ‘‘ نے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ کیا وہ ہماری تاریخ کا'' سنہری اور روشن‘‘ باب ہے۔ اس کے بعد 1857ء کی جنگ ِآزادی کا حال دیکھ لیجیے۔ جس جس گدی نشین نے‘ جس جس کھڑ پینچ نے‘ مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ‘ اس کا نام تاریخ میں محفوظ ہے۔ وہی خاندان ہیں جو آج بھی اسمبلیوں میں براجمان ہیں! ہمارے شرفا انگریزوں نے مار دیے اور ٹوڈی ہم پر مسلط کر دیے!! پاکستان بنتا دکھائی دیا تو یونینسٹ مسلم لیگ میں آگھسے! قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ سب کچھ ہو سکتی ہے‘ باعثِ عزت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میں ممدوٹ دولتانہ مخاصمت کے دوران ساری حدیں عبور کر لی گئیں! پھر دولتانہ اور فیروزخان نون کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔ نومبر 1953ء میں دولتانہ نے اپنی قیام گاہ پر پنجاب اسمبلی کے اُن ارکان کا اجلاس منعقد کیا جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان ارکان کی تعداد چھیاسی تھی۔ مقابلے میں ملک فیروز خان نون نے بھی اپنے حمایتی ارکان کا اجلاس بلا لیا۔ یہ تعداد میں ستاسی تھے۔ شرمناک حقیقت یہ تھی کہ کچھ ارکان نے دونوں اجلاسوں میں شرکت کی اور دونوں کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا۔ اگر اس وقت ایسے دوغلے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایاجاتا اور نشانِ عبرت بنایا جاتا تو کیا عجب وفاداریاں بدلنے کی مؤثر حوصلہ شکنی ہو جاتی!!
ری پبلکن پارٹی میں اور پھر ایوب خان کی کونسل مسلم لیگ میں چہچہانے والے پرندے سب مسافر تھے۔ یہ ایک سیاستدان ہی تو تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کا مشورہ دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے مجلس شوریٰ بنائی تو ہم سب جانتے ہیں کہ کس کس کے اباجان نے ساتھ دیا اور خوب ساتھ دیا! سیاستدان اپنی اپنی پار ٹیوں کو چھوڑ کر یوں بھاگے جیسے پارٹیاں نہ تھیں‘ سانپ تھے! جن صاحب کو جنرل نے ریوالور کا تحفہ دیا‘ انہوں نے جس طرح چوہدری شجاعت حسین کی (ق) لیگ کو چھوڑا وہ کہانی عبرتناک بھی ہے اور زیادہ پرانی بھی نہیں ہوئی۔ ایک معروف سابق صحافی جو پرویز مشرف کے عہد میں چوہدریوں کے ساتھ تھے آج بھی ایوان بالا کے رکن ہیں مگر (ن) لیگ کے کوٹے پر!!
عمران خان کی کابینہ کے ارکان کی بہت بڑی تعداد مرغانِ باد نما پر مشتمل تھی! مستقبل کی کابینہ میں کم و بیش یہی چہرے ہوں گے! میاں نواز شریف بلوچستان گئے تو تیس سیاستدان ان کے کیمپ میں داخل ہو گئے! کل پرسوں ایک اور مشہور شخصیت ان کی ویگن میں سوار ہوئی! زبانِ خلق نقارۂ خدا ہے! سب کو نظر آرہا ہے کہ ہما کس کے سر پر بیٹھنے کے لیے پر تول رہا ہے! پرندے دور دور سے آرہے ہیں اور (ن) لیگ کی جھیل پر اُتر رہے ہیں! کل جہاں ویرانی تھی آج وہاں چہل پہل اور گہما گہمی ہے! کل جس حویلی کے دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ آج وہاں خاک اُڑ رہی ہے!! کل رائیونڈ سنسان تھا۔ آج بنی گالہ اجاڑ پڑا ہے۔ چراغ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے! کیسی وفاداری ؟ کون سی جاں نثاری ؟ کوئی جی دار شخص ایک فہرست اس لحاظ سے بھی ترتیب دے کہ کون کون سا سیاستدان کس کس پارٹی میں کتنا عرصہ رہا۔ہر سیاستدان کے نام کے ساتھ لکھا جانا چاہیے کہ موصوف کتنی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔
ان مسافر پرندوں کو خوش آمدید اور جی آیاں نوں کہنے والے بھی اتنے سادہ نہیں! انہیں معلوم ہے کہ یہ صدقے قربان ہونے والے حضرات جوق در جوق کیوں آرہے ہیں؟ یہ دل سے نہیں‘ دماغ سے ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے حساب کتاب کیا ہوا ہے اس لیے تشریف لا رہے ہیں! استقبال کرنے والا بھی دل ہی دل میں ان سے نفرت کر رہا ہے! مذاق اُڑا رہا ہے! مگر استقبال اس لیے کر رہا ہے کہ بر سر اقتدار آنے کے لیے اس کمبخت کی ضرورت ہے! آنے والے کے دل میں بھی محبت کا کوئی جذبہ نہیں! اس نے ایک بار پھر اقتدار میں شریک ہونا ہے! ہماری ساری نفسیات اس ایک محاورے میں بند ہے کہ جج کی ماں مری تھی تو سارا شہر جنازے میں شریک تھا۔ جج خود مر گیا تو کوئی نہ آیا!