اِدھر اُدھر دیکھیے۔ کتنے ہی افراد جو پرائمری اور ہائی سکول میں آپ کے ساتھ تھے‘ آج دنیا میں نہیں ہیں۔ جو کالج‘ یونیورسٹی میں ساتھ تھے‘ ان میں سے بھی کچھ جا چکے ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو غور کیجیے‘ کتنے ہی آپ کے ہم عمر تھے جو کنوارے اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اگر آپ پوتوں‘ نواسیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو آپ پر پروردگار کا خاص کرم ہے! اس نے آپ کو اتنی مہلت دی کہ آپ ان شیریں میووں سے حظ اٹھا سکیں! کتنے ہی آپ کے دوست آخرت کو سدھار چکے! آپ آج بھی موجود ہیں! اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی سانسوں میں اضافہ کیا اور وہ دعائیں بھی قبول ہوئیں جو آپ کے بزرگ آپ کو دیتے رہے۔ وہ دعائیں جو روٹین لگتی ہیں‘ اصل میں قیمتی نسخے ہیں! ''اللہ حیاتی دے‘ اللہ سلامت رکھے‘ جُگ جُگ جیو‘‘ اور بہت سی اور بھی!! بڑی بوڑھیاں یہ بھی کہتی تھیں ''اللہ کرے کھُنڈی پر چلو‘‘ یعنی اتنی طویل عمر ہو کہ عصا کے سہارے چلو!
آپ کی مصروفیت کا احساس ہے! ازراہِ کرم پانچ منٹ مزید عنایت فرمائیے! اپنے جسم پر غور کیجیے۔ آپ کے دل کی مشین برابر چل رہی ہے۔ گردوں کی چھلنیاں ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ خون کی صفائی ہو رہی ہے۔ جگر صحت مند ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سُن سکتے ہیں! چل سکتے ہیں! پلکیں جھپک سکتے ہیں! گھٹنے ٹھیک کام کر رہے ہیں! کسی ہسپتال جا کر اُن افراد کو دیکھیے جو ڈائیلسز پر ہیں۔ ہر چند روز کے بعد ان کا خون ایک مشین سے گزرتا ہے تب صاف ہوتا ہے۔ گردے کی پیوندکاری کس قدر مشکل ہے‘ اس کا تصور ہی خوفناک ہے۔ پہلے تو کوئی اپنا گردہ دینے کے لیے آمادہ ہو۔ پھر اس کا گردہ مریض کے جسم سے مناسبت رکھتا ہو۔ آپریشن کامیاب ہو جائے تو پیوندکاری کے بعد ساری زندگی دوائیں کھانا پڑتی ہیں! لاکھوں کا خرچ الگ ہے! مصنوعی گھٹنے لاکھوں میں لگتے ہیں! اس سرجری کے بعد بے پناہ درد ہوتا ہے۔ اس قدر کہ کوئی پین کلر (Pain killer) کام نہیں کرتا! جگر کی پیوند کاری از حد مشکل ہے۔ میں ایک ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں جو اپنی بیگم کو جگر کی پیوندکاری کے لیے چین لے کر گئے مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں! بہرے پن کا علاج بظاہر آسان لگتا ہے۔ آلۂ سماعت بازار میں دستیاب ہے! مگر کم لوگوں کو راس آتا ہے۔ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ سر پر دھمک لگتی ہے۔ جسم کے ایک دانت کا‘ ایک انگلی کا‘ ایک پور کا‘ یہاں تک کہ پلکوں کے ایک بال کا بھی نعم البدل کوئی نہیں! اگر آپ کے سب اعضا سلامت ہیں‘ اگر آپ کو بھوک لگتی ہے‘ اگر آپ کو نیند آجاتی ہے تو آپ امیر بھی ہیں اور خوش بخت بھی!! سوال یہ ہے کہ اس امارت پر‘ اس خوش بختی پر‘ آپ شکر کتنا ادا کرتے ہیں؟
آپ کے بچے نارمل ہیں تو یہ آپ کی ایک اور خوش قسمتی ہے! ان والدین کی اذیت کا سوچئے جن کے بچے‘ سپیشل بچے ہیں! کوئی جسمانی طور پر اپاہج ہے تو کوئی ذہنی طور پر! ماں باپ ان کے علاج کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتے! جو آسودہ حال ہیں وہ انہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ یہ سپیشل بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ماں باپ کہیں جا نہیں سکتے! ساری زندگی آزمائش میں گزرتی ہے! خون کے آنسو روتے ہیں! آپ نے اپنے بچوں کے نارمل ہونے پر کتنی بار شکر ادا کیا ہے؟
پھر آپ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں آپ کو تعلیم دلوائی گئی! آج آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ ارد گرد دیکھیے۔ ہزاروں افراد ناخواندہ ہیں! آپ کا صوفہ ساز‘ آپ کا پلمبر‘ آپ کا سینیٹری ورکر‘ آپ کے دفتر میں آپ کا نائب قاصد‘ ڈھابوں میں گاہکوں کو چائے اور روٹی پیش کرنے والے‘ ریستورانوں میں برتن مانجھنے والے‘ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر ان کی مرمت کرنے والے‘ تنوروں کی حدت میں لہو کو پسینہ کرنے والے نانبائی اور بے شمار دوسرے لوگ جو تعلیم سے محروم رہے‘ آپ سے کم ذہین نہیں! مگر قسمت نے ان کا نہیں‘ آپ کا ساتھ دیا! آپ کے ماں باپ گاؤں سے شہر آگئے تو آپ پڑھ لکھ گئے! آپ کے والدین تعلیم یافتہ تھے تو آپ پڑھ لکھ گئے۔ آپ کے والدین استطاعت رکھتے تھے تو آپ پڑھ لکھ گئے! آپ کو قدرت نے ذہانت‘ لیاقت‘ اہلیت‘ استعداد اور مواقع دیے تو آپ پڑھ لکھ گئے! بے شمار امیر زادے اس لیے تعلیم یافتہ نہ ہو سکے کہ پڑھائی کا رجحان نہیں رکھتے تھے! ان کے کروڑ پتی والدین کو حسرت ہی رہی کہ ان کی اولاد تعلیم یافتہ ہوتی! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس حوالے سے آپ کس قدر خوش نصیب ہیں؟
اب ایک اور زاویے سے اپنے آپ کو دیکھیے!! اپنا موازنہ اُن قابلِ رحم افراد سے کیجیے جو آپ جیسے ہی ہیں مگر پتھر کے بتوں کے آگے جھکتے ہیں! کچھ قبروں کو سجدہ کرتے ہیں! کچھ جرائم پیشہ‘ نشہ باز ملنگوں اور بابوں کو کارساز سمجھتے ہیں۔ کبھی کسی کے پاؤں چاٹتے ہیں‘ کبھی کسی سے مار کھاتے ہیں‘ کبھی کسی کے کہنے پر ناچتے ہیں‘ کبھی کرنٹ لگانے والے کسی جعلی پِیر کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی پامسٹ کو ہاتھ دکھاتے ہیں! کبھی کسی سے فال نکلواتے ہیں! کبھی زائچہ بنواتے ہیں! یہ سب احتیاج کی صورتیں ہیں! اگر آپ ان سب مکروہات سے بچے ہوئے ہیں اور کسی کو اپنی قسمت کا مالک نہیں سمجھتے تو آپ صاف ستھری زندگی گزار رہے ہیں! کسی کے دروازے پر ذلیل ہو رہے ہیں نہ عزتِ نفس کو مجروح کر رہے ہیں! کیا آپ نے کبھی شکر ادا کیا ہے کہ آپ ان سب آلائشوں سے اور گندگی کی ان تمام صورتوں سے بچے ہوئے ہیں؟
بجائے اس کے کہ ہم ان تمام خوش بختیوں پر خوش ہوں‘ شکرگزاری کریں اور ایک اطمینان بھری زندگی گزاریں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے نالاں ہیں! شاکی رہتے ہیں! کبھی کسی رشتہ دار کی ذرا سی غلطی پر برا مان کر قطع تعلقی کے مرتکب ہوتے ہیں! کبھی کسی چھوٹی سی بات پر گھر میں تلخی پیدا کر لیتے ہیں! کبھی یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ گاڑی ٹھیک نہیں‘ بدلنی ہے۔ کبھی کسی اور کی خوشحالی دیکھ کر حسد کی آگ میں جل اٹھتے ہیں! اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر کُڑھتے ہیں اور سڑتے ہیں! اپنے سے نیچے والوں کو نہیں دیکھتے! مضطرب رہتے ہیں! سکون سے محروم!
Non issues کو سر پر سوار کیے رہتے ہیں! اپنی محدود سوچ اور منفی مائنڈ سیٹ کے سامنے نَکّو بنے رہتے ہیں! آپ آج سے یہ چار کام کیجیے۔ اوّل: کسی نے آپ سے زیادتی کی ہے تو بے شک تعلقات میں گرم جوشی نہ رکھیے‘ مگر بدلہ لینے کا خیال دل سے نکال دیجیے۔ دوم: گھر کے اندر یا باہر‘ کوئی عزیز‘ رشتہ دار‘ دوست‘ ناراض ہے تو آپ‘ خواہ آپ بے قصور ہیں‘ اس سے تعلقات کی تجدید کیجیے اور جو کچھ ہو چکا اسے اپنے تئیں بھلا دیجیے۔ سوم: اپنے بچوں کو بتائیے کہ جو سہولتیں انہیں میسر ہیں‘ ان پر شکر ادا کریں۔ انہیں یہ بھی بتائیے کہ جن بچوں کو یہ آسانیاں میسر نہیں وہ ان سے یعنی آپ کے بچوں سے کم لا ئق نہیں! بس وہ مواقع سے محروم رہے۔ اور چہارم: اگر آپ کو قدرت نے اتنی استطاعت دی ہے کہ آپ نے کُل وقتی یا جُز وقتی ملازم رکھا ہوا ہے یا رکھے ہوئے ہیں تو ان کی مقررہ تنخواہ کے علاوہ بھی ہر ممکن مدد کیجیے۔ وہ ایک لحاظ سے آپ کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ اشیائے خور و نوش‘ لباس‘ علاج‘ ان کے بچوں کی تعلیم میں جتنا حصہ آسانی سے ڈال سکتے ہیں‘ ڈالیے اور ڈالتے رہیے!! زیادہ نہیں‘ یہ چار کام ہی کر لیجیے! اس کے بعد دیکھیے گا آپ ایک خوبصورت دنیا میں رہ رہے ہوں گے! ایسی دنیا جسے کوئی اور دیکھ ہی نہیں سکے گا!!