ایک اور نیا سال!!!

ایک اور نیا سال ! دائرے کے اندر ایک اور سفر!
حیرت ہوتی ہے جب نئے سال کیلئے نئے تخمینے لگائے جاتے ہیں۔نئی امیدیں باندھی جاتی ہیں!مگر کیوں؟ اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کے درمیان آخر ایسی کون سی تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ ہم پہلے سے بہتر ہو جائیں؟ ہمارے علاقے میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے کہ '' جیڑھے اِتھے بھَیڑے ‘ او لاہور بھی بھیڑے‘‘ کہ جو یہاں برے ہیں وہ لاہور جیسے خوبصورت شہر جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے۔ لاہور سے ایک اور دلچسپ بات یاد آئی۔ گاؤں میں ہماری ایک بزرگ تھیں۔ وہ اظہارِ افسوس کیا کرتی تھیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ گویا پیدا ہی نہیں ہوا۔ مگر جو لاہور دیکھے بغیر مر گئے ان کا کیا بنے گا؟
پرانا سال اور نیا سال! یہ سب ہماری تقویم کا حصہ ہے! خدا کی تقویم میں ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ایک تقویم عشق کی بھی ہے کہ بقول اقبال :
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
رہی ہماری تقویم! تو ہم کیا اور ہماری تقویم کیا! بُڈھی کھوسٹ تقویم ٹوٹی ہوئی کھاٹ پر لیٹی ہے۔ کھانستی ہے اور بلغم تھوکتی ہے! کونے میں سال ‘ مہینے‘ ہفتے اور دن ‘ نڈھال پڑے ہیں! حال ہے نہ مستقبل! پچھتر برس پچھتر صدیوں کی طرح گزرے ہیں۔ بیرونی قرضے‘ دس دس برس پر محیط کئی آمرانہ ادوار! دہشت گردی کے جلو میں لاشیں‘ آگ اور دھواں! نقب زنی کی ملک گیر وارداتیں‘ چوریاں اور ڈاکے۔ منی لانڈرنگ! سرے محل۔ ایون فیلڈ۔بنی گالے۔ رائیونڈ۔ گجروں‘ بزداروں اور گوگیوں کے پھیلتے مہیب سائے۔گیٹ نمبر چار کے ساتھ تعلقات کی اُبکائی آور ڈینگیں! توشہ خانے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی کامیاب کوششیں۔ جان لیوا گرانی ! یہ ہے ہماری پون صدی کی تاریخ! یہ ہے ہماری تقویم! یہ ہے ہمارا کیلنڈر جس کے ہر مہینے کی ہر تاریخ پر کانٹا ( کراس) لگا ہوا ہے! یہ ہے ہماری جنتری ! پہلے جنتریوں میں جعلی حکیموں کے اشتہار ہوتے تھے! ہماری جنتری میں جعلی رہنماؤں کے پتے درج ہیں!
کون سا نیا سال ہے جس نے ہماری امیدوں کو بار آور کیا ہے ؟ ہماری معیشت کو آزاد کیا ہے؟ ہماری زراعت کو قابلِ رشک کیا ہے ؟ ہماری سیاست کوراست باز کیا ہے؟ ہماری برآمدات کو زیادہ اور درآمدات کو کم کیا ہے؟ ہماری جمہوریت کو خالص کیا ہے؟ ہمارے اداروں کو مضبوط کیا ہے؟ ہماری پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا ہے؟ ہماری بیورو کریسی کو عزت دار کیا ہے؟ ہماری سرحدوں کو سمگلنگ کی نحوست سے چھٹکارا دیا ہے؟ کسی سال بھی نہیں! نیا سال ایک دھوکے‘ ایک پرچھائیں ایک جھوٹے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں! جب بھی دسمبر ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے‘ ہمیں نیا سال اُس پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے جو ریگستان میں سفر کرنے والے پیاسے ساربان کو دکھائی دیتا ہے! پھر جیسے جیسے نیا سال ادھیڑ عمر کی طرف بڑھتا ہے‘ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو سراب تھا! وہی چٹیل‘ لق و دق صحرا! وہی ہڈیاں اور کاسہ ہائے سر ! ہم پچھتر سال سے ہر نئے سال کو پانی سمجھتے آئے ہیں ! ہر بار نیاسال سراب ثابت ہوتا ہے! مستقبل قریب میں کوئی تغیر رونما ہوتا نہیں نظر آرہا!
یہی نیا سال ہمارے حریفوں اور حلیفوں کے لیے کلیدِ کامرانی بنتا چلا آ رہا ہے! بھارت میں اشیا و خدمات کی قیمتیں دیکھ لیجیے! زر مبادلہ کے ریزرو دیکھ لیجیے! ڈالر کی قیمت دیکھ لیجیے۔ بنگلہ دیش کے لیے ہر نیا سال مژدۂ جانفزا لے کر آتا ہے! کوریا‘ ویتنام‘ سنگا پور‘ تائیوان‘ ملا ئیشیا‘ یو اے ای‘ یہ سب ملک ہمارے زیر دست تھے۔ ہم ان سے آگے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہر نیا سال ہمیں پیچھے دھکیلتا رہا! آج ہم نشانِ عبرت ہیں! قوموں کی برادری میں ہماری عزت ہے نہ وقعت!ہمارے گاؤں ازمنۂ وسطیٰ سے بھی قدیم تر دکھا ئی دیتے ہیں! ہمارے شہر گندگی اور کثافت کے گڑھ بن چکے ہیں۔پانی کی قلت ہے! بجلی کا کال ہے! چوریاں ڈاکے اغوا عام ہے۔ روزانہ درجنوں گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ سٹریٹ کرائم زوروں پر ہیں۔جانیں محفوظ ہیں نہ عزتیں نہ مال! بیورو کریسی عوام سے مکمل بے نیاز ہے اور احساسِ کمتری کے خول میں بند! سیاستدان پارٹیاں بدلنے میں مصروف ہیں! جرنیل اپنی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں گاف ہے اور مَیس ! اور عام پاکستانی سے کوسوں دور! طلبہ اور طالبات کو اندازہ ہی نہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی رومانٹک دلکش زندگی کے بعد انہیں کس ہولناک بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑے گا ! خواتینِ خانہ مہنگائی کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ میں ہیں! تاجر قوم کے درد سے بالکل لا تعلق! دن کے بارہ بجے بازار کھولتے ہیں اور رات کے بارہ بجے بند کرتے ہیں ! کسان بیج اور کھاد کی قیمتوں تلے کراہ رہا ہے۔
آپ باقی ساری باتیں چھوڑ دیجیے۔ صرف ٹریفک کا مسئلہ لے لیجیے۔ کیا کسی نئے سال نے ہماری ٹریفک کو مہذب دیکھا ہے ؟ اس میں کسی غیر ملکی مدد کی ‘ کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف ٹریفک پولیس کی دیانت داری اور فرض شناسی درکار ہے۔ مگر ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں شمار ہوتی ہے۔ وحشت اور ہلاکت کا بے رحم کھیل ! سڑکوں پر گویا خانہ جنگی ہو رہی ہے! سول وار کی صورت حال ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں! ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں قتلِ عام کر رہی ہیں۔غیر ملکی دیکھتے ہیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ کروڑوں موٹر سائیکل وبا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ موٹر وے کی ٹریفک مثالی سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ بھی تنزل پذیر ہو چکی ہے۔ لین کی پابندی ختم ہو رہی ہے! کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک نیا سال اس کام کے لیے ہی وقف کر دے! کہیں سے تو اصلاح کا کام شروع ہو جائے! مگر ہر سال ٹریفک کی ہلاکتوں کی تعداد گزرے ہوئے سال سے زیادہ ہو رہی ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں زیر زمین ریلوے کے سوا چارہ نہیں۔ لاہور میں خدا خدا کر کے اورنج ٹرین چلی ہے۔ بھارت کی زیر زمین ریلوے پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایران کو بھی دیکھ لیجیے۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود تہران میں زیر زمین ریلوے کا منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے اور مزید وسیع ہو رہا ہے۔ تیس لاکھ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا میٹرو سسٹم ہے۔اس کے مقابلے میں کراچی کی حالت کا اندازہ لگائیے! کراچی کی رگوں سے پیسہ خوب نچوڑا گیا ہے۔ دبئی سے لے کر ہیوسٹن اور لاس اینجلز تک کراچی کی دولت نے خوب خوب کرشمے دکھائے ہیں اور دکھائے جا رہی ہے۔ مگر خود کراچی ایک ایسی بیوہ ہے جس پر بُری نظریں تو سب کی ہیں لیکن بیچاری کا شوہر کوئی نہیں! ایک مفلوک الحال ‘ روتی پیٹتی بیوہ ! کیا کوئی پلان آپ کی نظروں سے گزرا ہے جس کے مطابق نیا سال کراچی کے لیے بہتر طرزِ زندگی کا نقیب ہو گا؟؟
ہر نیا سال ماتم کا سال ہے ‘ کفِ افسوس ملنے کا سال! ہر سال کے اختتام پر ہم وہیں کھڑے پائے جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ایک شیطانی دائرہ( vicious circle) ہے جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں! نہ جانے کب تک پھنسے رہیں گے! سال آتے اور جاتے رہیں گے! نیا سال مبارک کی آوازیں بھی آتی رہیں گی! حسب ِتوفیق نیو ایئر پارٹیاں بھی منائی جاتی رہیں گی! اس کالم نگار کی طرف سے بھی قارئین کو سالِ نو کی مبارک باد ! مگر جہاں تک معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ مواصلات ‘ تعلیم اور سرداری نظام کا تعلق ہے‘ سب کچھ وہی رہے گا اور وہیں رہے گا!
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں