ماتم کا ایک اور زاویہ

یہ قصہ بھارتی شہر احمد آباد کا ہے۔ ایک عام سے محلے کے ایک عام سے گھر میں ایک بوڑھا رہتا تھا۔ یہ کرائے کا گھر تھا۔ ایک کمرے کے اس گھر میں بوڑھے کا کُل سامان ایک چارپائی‘ پلاسٹک کی ایک بالٹی اور ایلومینیم کے کچھ برتنوں پر مشتمل تھا۔ پانچ سو روپے ماہانہ اس کی پنشن تھی۔ بوڑھا برتن خود دھوتا تھا۔ گھر کی صفائی بھی خود کرتا تھا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ اسے اپنے جیسا عام آدمی سمجھتے تھے جو انہی کی طرح اس غریب محلے میں رہتا تھا۔ایک بار مالک مکان کرایہ مانگنے آیا تو بوڑھے کے پاس کرایہ ادا کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ مالک مکان کو غصہ آیا۔اس نے بوڑھے کا سامان اٹھایا اور باہر پھینک دیا۔ اب بوڑھا فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا بے یار و مددگار! محلے کے لوگوں نے مالک مکان کی منت کی اور اس نے اجازت دے دی۔ بوڑھا سامان اندر لے جا رہا تھا تو وہاں سے کسی اخبار کے نامہ نگار کا گزر ہوا۔ اسے یہ واقعہ دردناک لگا۔ اس نے اس کی خبر بنائی اور بوڑھے کی تصویر ساتھ لگا دی۔ جب اس کے ایڈیٹر نے تصویر دیکھی تو اس کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے نامہ نگار سے پوچھا کہ کیا وہ اس بوڑھے شخص کو جانتا ہے؟ نامہ نگار ہنسا۔ ایک غریب بوڑھے کو جان کر وہ کیا کرے گا۔ ایڈیٹر نے اسے بتایا کہ اس نوّے سالہ بوڑھے کا نام گلزاری لال نندہ ہے جو دوبار بھارت کا وزیر اعظم رہا اور وفاقی وزیر بھی رہا۔ دوسرے دن کے اخبار میں خبر چھپی تو جیسے دھماکہ ہو گیا۔ ریاستی وزرا‘ حکام اور وزیر اعظم کے نمائندے سب پہنچ گئے۔ سب نے منت کی کہ سابق وزیر اعظم اور مرکز کے سابق وزیر سرکاری گھر میں شفٹ ہو جائیں‘ ان کے لیے سرکاری مراعات اور سہولیات حاضر ہیں۔ مگر گلزاری لال نندہ نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں سرکاری مراعات استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ آخری دم تک وہیں رہے۔
گلزاری لال نندہ 1898ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ایف سی کالج میں پڑھے۔کئی بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔دو بار بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ کئی شعبوں کے وزیر رہے۔ وفات کے وقت کوئی مکان‘ کوئی جائداد‘ کوئی بینک بیلنس نہیں تھا!
ہمارے پاس قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے سوا‘ اور شروع کے کچھ رہنماؤں کے سوا‘ ایسی کوئی مثال نہیں ۔ لگتا ہے کہ جس طرح مسلمان سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ سرجری ‘میڈیکل علوم‘ ‘ سوشل سائنسز ‘ ایجادات اور دریافتوں میں پیچھے رہ گئے ہیں اسی طرح سادگی اور دیانت میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کا معیار ِزندگی شاید ہی دنیا میں اور کسی حکمران کا ہو! ہمارے حکمرانوں کی جائدادیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مغل بادشاہ ان کے سامنے بھکاری لگتے ہیں۔مغربی دنیا میں حکمرانوں کے گھر چھوٹے اور سادہ ہیں۔ یہ ٹرینوں اور سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔ غیر ملکی سرکاری مہمانوں کی تواضع انتہائی سادگی سے کی جاتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان میں سے اکثر کوئی نہ کوئی کام روزی کمانے کے لیے ضرور کرتے ہیں۔ ان کے پاس محلات ہیں نہ گاڑیوں اور جہازوں کے فلیٹ! ان کے بچے عام شہریوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں! ان حکمرانوں سے پارلیمنٹ اور عوام ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں۔
ایک بار پھر بھارت کی طرف چلتے ہیں! لال بہادر شاستری وزیر اعظم رہا اور وزیر اعظم بننے سے پہلے کئی وزارتوں کا بھی انچارج رہا۔ 1964ء میں اس نے پانچ ہزار روپے کا قرض لیا۔ یہ قرض فیئٹ کار خریدنے کے لیے تھا۔مانک سرکار‘ بھارت کی مشرقی ریاست تری پورہ کا اکیس سال ( 1998ء سے لے کر 2018ء تک ) مسلسل وزیر اعلیٰ رہا۔ اس کے بعد سالِ رواں کے آغاز تک ‘ چھ سال ‘ اپوزیشن لیڈر رہا۔گھر ہے نہ زمین‘ جائداد ۔ موبائل فون بھی نہیں رکھتا۔ ٹیکس ریٹرن کی نوبت ہی کبھی نہ آئی۔دو کمروں کے فلیٹ میں رہائش ہے۔چیف منسٹر کے طور پر تنخواہ پارٹی کو دے دیتا تھا۔ پھر پارٹی سے پانچ ہزار روپے گھر کے اخراجات کے لیے لیتا تھا۔ چیف منسٹری کے دوران بھی بیوی کے ساتھ زیادہ تر رکشا استعمال کرتا رہا! گوا کے چیف منسٹر منوہر پری کار پر اس کے مخالفین نے الزام لگایا کہ گارڈ آف آنر لیتے وقت چپل پہنے ہوئے تھا۔ اپنا بیگ خود اٹھاتا تھا۔مہنگی گاڑی سے کنارہ کش رہا۔مغربی بنگال کی چیف منسٹر مماتا بینر جی سادہ سفید ساڑی میں ملبوس رہتی ہے۔ بی جے پی کا ملک گیر سیلاب اسے نہ ہٹا سکا۔ شکستہ سے آبائی گھر میں رہتی ہے۔ پروٹوکول سے بے نیاز ہے۔ گلیوں میں عام چلتی پھرتی ہے۔ کورونا کے ایام میں گھر گھر جا کر لوگوں کی مدد کرتی رہی۔
سنگاپور کا معمار لی کوان یئو صرف ایک مکان کا مالک تھا۔ اس کی وصیت تھی کہ اس مکان کو منہدم کر دیا جائے تا کہ سرکاری خزانے پر اس کی دیکھ بھال کا بوجھ نہ پڑے۔گیارہ سال تک برطانیہ کی وزیر اعظم رہنے والی مارگریٹ تھیچر نے باورچی کبھی نہ رکھا۔ سرکاری فرائض سے فارغ ہو کر ‘ ہر روز اپنا اور اپنے میاں کا کھانا خود پکاتی بلکہ کبھی کبھی اپنی کابینہ کے وزرا کو بھی اپنا پکا ہوا کھانا کھلاتی۔ جب وہ جاپان میں ایک اجلاس میں شرکت کرنے گئی تو مہمانوں میں وہ واحد خاتون وزیر اعظم تھی۔ جاپانی حکومت نے اس کی حفاظت کے لیے بیس خواتین گارڈ مقرر کیں جو جوڈو کراٹے کی ماہر تھیں۔ مگر تھیچر نے اس خصوصی انتظام سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خاتون کے طور پر نہیں آئی بلکہ وزیر اعظم کی حیثیت سے آئی ہے۔جو سہولت دوسرے وزرائے اعظم کو نہیں دی جا رہی‘ وہ قبول نہیں کرے گی ! عارف صادق ایک پاکستانی تارک وطن ہیں۔ سڈنی میں رہ رہے ہیں۔ آسٹریلین گورنمنٹ میں اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ مجھے بتا رہے تھے کہ متعلقہ وزیر نے ان کے دفتر کا معائنہ کرنا تھا۔ وہ دفتر میں کام کر رہے تھے کہ دروازہ کھلا اور وزیر صاحب‘ اپنا بیگ اٹھائے‘ کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے ساتھ اور کوئی نہ تھا۔ پروٹو کول نہ اور کچھ! خود گاڑی چلا کر آئے۔ کسی نے استقبال نہیں کیا۔
طالبان کو چھوڑ کر‘ پوری مسلم دنیا میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں! ہمارے پاس خلفائے راشدین کے بعد حکمرانوں کی سادگی شاید ہی کہیں دکھائی دے ! اُموی تھے یا عباسی‘ سلطنت عثمانیہ کے حکمران تھے یا مغل یا صفوی‘ سب نے عیش و عشرت کی زندگی گزاری۔ پاکستان کے حکمران (اور سیاستدان ) سپیشل جہازوں کے سوا پاؤں کہیں نہیں رکھتے! لاہور ہے یا رائے ونڈ‘ لاڑکانہ ہے یا کراچی‘ گجرات ہے یا پشاور ‘ یا بنی گالہ‘ ایسے ایسے محلات ہیں کہ عام پاکستانی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ان کا فرنیچر‘ ان کے خدام‘ ان کے باورچی خانے‘ ان کی زمینیں‘ ان کے کارخانے‘ ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کی جائدادیں‘ سب کچھ سوچ سے بھی ماورا ہے۔ دنیا ہزاروں سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جس ملک کے حکمران عیش و عشرت کی زندگی گزاریں‘ وہاں کے عوام مفلس ہوتے ہیں! اپنی جیب‘ اپنی تجوری‘ اپنے محلات بھرنے والے حکمران عوام کو سوائے فریب کے کچھ نہیں دے سکتے! کروڑوں کی گھڑیاں‘ لاکھوں کے ہینڈ بیگ‘ لندن اور دبئی میں رہائش مستقل اور اپنے ملک میں عارضی !! بچے ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ارب پتی ہوتے ہیں! بیٹے بھی لندن میں اور نواسے بھی لندن میں رہتے ہیں!! جب تک ایسے رہنماؤں سے جان نہیں چھوٹتی‘ اس ملک کا مستقبل تاریک ہی رہے گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں