ضعیف الاعتقادی میں بہت مزے ہیں۔ اس سے زندگی میں رنگینی پیدا ہوتی ہے۔ ہر روز نیا دروازہ‘ نئی دستک! بقول ناصر کاظمی:
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
یوں بھی ''پنجابی مسلمان‘‘ کے عنوان سے اقبالؔ نے ایک نظم لکھ رکھی ہے:
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگائے
یہ شاخِ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
تو یہ بھی تو خیال رکھنا ہے کہ علامہ کا کہا غلط نہ ہو جائے؛ چنانچہ جیسے ہی معلوم ہوا کہ سمندر کے کنارے ایک نیا بابا آیا بیٹھا ہے‘ میں فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُسے ''کشتی والا بابا‘‘ کہتے تھے۔ جس نے جو مراد بھی پوری کرانی ہوتی‘ بابا اسے کشتی میں بٹھا کر کچھ دور لے جاتا۔ واپسی پر اُسے اتار دیتا اور بتاتا کہ کام ہو جائے گا۔ آپ مجھے اس امر کا کریڈٹ دیجئے کہ میں کسی ذاتی یا خاندانی مسئلے کے لیے نہیں گیا۔ میں تو قومی مسئلہ لے کر بابے کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ملک کی حالت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے! آزمائے ہوؤں کو بار بار آزمایا جا رہا ہے! کوئی حکومت عوام کے مسائل کو حل نہیں کرتی۔ بس ہر طرف دعوے ہی دعوے ہیں اور جھوٹے وعدے! جرائم کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے! چور بازاری‘ ٹیکس چوری‘ رشوت ستانی‘ سفارش‘ اقربا پروری اور کنبہ پروری کی بیماریاں آئے دن بڑھ رہی ہیں۔ آپ پہنچے ہوئے بزرگ ہیں! خدارا کچھ کیجئے تاکہ اس ملک کی تقدیر بدل جائے! میرا خیال تھا کہ بابا مجھے کشتی میں بٹھائیں گے‘ سمندر کے اندر ایک چکر لگائیں گے اور واپسی پر جب اُتاریں گے تو ملک کی حالت سنور چکی ہو گی! مگر ایسا نہ ہوا! میری عرض سُن کر بابا نے سر گھٹنوں پر رکھ لیا۔ کچھ دیر بعد سر اٹھایا تو ان کے چہرے پر جو مافوق الفطرت چمک تھی اُسے دیکھ کر مجھے یک گونہ اطمینان ہوا کہ با با جی ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکالیں گے! بابا نے مجھے کہا کہ جاؤ! جن لوگوں کو تم ملک کے خطرناک ترین دشمن سمجھتے ہو‘ جو تمہاری نظر میں بد ترین مجرم ہیں‘ جنہیں تم ارذل الخلائق قرار دیتے ہو اور جنہیں تم Scum of earth کہتے ہو انہیں گھیر گھار کر‘ ہانکتے ہوئے میرے پاس لے آؤ!
دو دن میں سوچتا رہا کہ ملک کے بدترین لوگ کون ہیں! مختلف طبقات پر نظر دوڑائی۔ ان کا مطالعہ کیا۔ تجزیہ کیا۔ اہلِ دانش سے پوچھا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ رشوت خور بد ترین لوگ ہیں؛ چنانچہ میں نے تمام رشوت خوروں کو اکٹھا کیا اور ہانکتا ہوا بابا جی کے حضور لے آیا۔ انہوں نے ایک نظر انہیں دیکھا پھر مجھ سے کہا کہ عقل کے اندھے! انہیں چھوڑ دو اور جو کہا ہے ویسا کرو! یہ برے لوگ ہیں مگر بدترین‘ مکروہ ترین‘ خبیث ترین‘ ارذل ترین نہیں ہیں! میں واپس آگیا! پریشان اور حیران تھا کہ آخر وہ کون سے لوگ ہیں؟ کون سا طبقہ ہے؟ بہت سوچا۔ پھر ملک بھر کے چوروں‘ ڈاکوؤں‘ نقب زنوں‘ اغوا کاروں‘ سمگلروں اور بردہ فروشوں کو اکٹھا کیا۔ ان میں کار چور بھی تھے اور زمینوں پر قبضہ کرنے والے بھی! اب کے مجھے یقین تھا کہ بابا جی کے حکم کی تعمیل ہو گئی ہے۔ مگر افسوس! ان چوروں ڈاکوؤں کو دیکھ کر بابا نے تیوری چڑھا لی۔ چیخ کر حکم دیا انہیں چھوڑ دو اور جاؤ! میں نے تمام ڈاکوؤں‘ اغوا کاروں اور چور اُچکوں‘ بد معاشوں کو بابا جی کے حکم پر چھوڑ دیا۔ اور نامراد واپس آگیا!
مزید سوچ بچار کے بعد میرا ذہن بیورو کریسی کی طرف گیا۔ یہی بدترین لوگ ہیں۔ یہی ملک کو چلاتے ہیں! قوتِ نافذہ انہی کے ہاتھ میں ہے! یہی ہیں جو ملک کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں؛ چنانچہ میں نے تمام بیورو کریسی کو جمع کیا۔ پھر انہیں بابا جی کی خدمت میں لے آیا۔ انہوں نے دیکھا تو غصے سے ان کا چہرا سرخ ہو گیا۔ پوری قوت سے چیخے ''احمق! انہیں چھو ڑ دو‘‘۔ اتنا کہا اور پردے میں چلے گئے!
یا اللہ ! آخر بابا جی کی نظر میں بد ترین لوگ کون ہیں؟ میں باری باری ایک ایک گروہ لے کر جاتا رہا۔ تاجر وں کو لے کر گیا کہ یہ ٹیکس چور ہیں۔ ناروا منافع لیتے ہیں۔ تجاوزات کے مجرم ہیں۔ شے بیچتے وقت نقص نہیں بتاتے۔ خریدا ہوا مال نہیں واپس کرتے مگر بابا جی نے انہیں بھی چھوڑ دیا۔ اساتذہ کو لے کر گیا کہ یہ قوم کی درست تعمیر نہیں کر رہے۔ انہیں بھی چھوڑ دیا۔ تھک ہار کر میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آخر کون سا گروہ بدترین گروہ ہے! بدترین لوگ تو میں باری باری سب آپ کے حضور پیش کرتا رہا! یہی تو وہ لوگ ہیں جو میری دانست میں تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ آپ نے کسی کو بھی قبول نہیں کیا۔ سب کو چھوڑ دیا۔ کچھ رہنمائی فرمائیے! آخر آپ کے خیال میں ارذل ترین گروہ کون سا ہے؟ بابا ہنسے۔ پھر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا۔ چائے منگوائی۔ پھر یوں گویا ہوئے ''میاں! تمہارے ملک کے بد ترین اور ارذل ترین لوگ وہ اہلِ سیاست ہیں جو آئے دن وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ آج اس پارٹی میں تو کل کسی اور میں اور پرسوں کسی اور پارٹی میں! ان کا کوئی ضمیر ہے نہ نظریہ! یہی لوگ ہیں جو اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ وزیر بنتے ہیں۔ انہی میں سے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم بنتے ہیں! چونکہ ان کا ضمیر نہیں ہوتا اس لیے یہ میرٹ کے بھی دشمن ہیں۔ یہی وہ گروہ ہے جو مجرموں کو چھڑواتا ہے‘ سفارشیں کرتا اور کرواتا ہے‘ یہی وہ گروہ ہے جو دیانت دار بیورو کریسی کے تبادلے کرواتا ہے‘ راشی افسروں کی حفاظت کرتا ہے اور چوروں ڈاکوؤں کی نہ صرف حفاظت کرتا ہے بلکہ انہیں استعمال بھی کرتا ہے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور اقتدار میں شرکت ہے! جاؤ اور انہیں پکڑ لاؤ!‘‘۔
میری تو جیسے آنکھیں کھل گئیں! واپس آیا اور پورے ملک سے ان افراد کو اکٹھا کیا جو ہر الیکشن کے موقع پر پارٹیاں بدلتے ہیں اور جو ہر کابینہ میں نظر آتے ہیں! پھر ان مرغانِ بادنما کو ہانکتا ہوا بابا جی کے حضور لے گیا۔ انہوں نے ان سب کو کشتی میں بٹھا لیا۔ پھر حکم دیا کہ جاؤ! اب اُن کھڑ پینچوں کو بھی پکڑ کر لاؤ جو ان منافقوں اور موقع پرستوں کو اپنی پارٹیوں میں قبول کرتے ہیں اور ہر بار قبول کرتے ہیں! میں واپس آیا تو ان بے ضمیروں کو بھی گھیر گھار کر‘ ہانکتا ہوا لے گیا۔ بابا جی نے انہیں بھی کشتی میں بٹھا لیا! پھر وہ کشتی کو سمندر میں لے گئے۔ واپس آئے تو کشتی میں اکیلے تھے!
میں رخصت ہونے لگا تو دفعتاً ذہن میں ایک بات آئی۔ عرض کیا کہ بابا جی! مقتدرہ کا کیا کریں گے؟ وہ بھی تو ان کو ادھر اُدھر لے جانے کی ذمہ دار ہے! بابا جی ہنسے اور فرمایا! پتر! جس دن کوئی ایسا سیاستدان حکمران بن گیا جو چارٹر جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے اُتر کر عوام کے ساتھ سڑکوں پر چلے پھرے گا‘ جو بازار سے اپنا سودا سلف خود خریدے گا‘ جو اپنے بیٹے‘ بیٹی بھتیجے اور بہن کو اقتدار میں شامل نہیں کرے گا‘ جس کے سر پر ایون فیلڈ‘ سرے محل‘ دبئی‘ لندن‘ جدہ اور نیویارک کی بھاری گٹھریاں نہیں ہوں گی‘ جس کی گردن پر بزدار‘ ڈار‘ زلفی‘ چودھری‘ مولانا اور گجر سوار نہیں ہوں گے‘ جو توشہ خانے کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھے گا‘ جو تھانوں اور کچہریوں کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار کمیشن سے پاک کرے گا اور جو بیورو کریسی کو نتھ ڈالے گا‘ اس کے حضور مقتدرہ بھی جھُکے گی!