کتابیں ہر روز ہی موصول ہوتی ہیں۔ عام ڈاک سے بھی‘ کوریئر سے بھی! اس پیکٹ کو بھی میں کتاب ہی سمجھا۔ جِلد کافی مضبوط لگ رہی تھی۔ ہاں کتاب شاید پتلی سی تھی! کھولا تو یہ ایک شادی کا دعوتی کارڈ تھا!دو موٹے گتّوں کے اندر دعوت نامہ تھا۔یہ نہایت قیمتی ‘ کتاب نما‘ دعوت نامہ ایک لفافے میں بند تھا۔ لفافے کے منہ پر دو ڈوریاں لگی تھیں جن سے لفافہ ایک بیگ کی شکل اختیار کر گیا تھا جسے ڈوریوں کی مدد سے پکڑا یا لٹکایا جا سکتا تھا!
مجھے اس سے ‘ فی الحال‘ غرض نہیں کہ اس دعوت نامے پر لاگت کتنی آئی! چلیے ‘ ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ شادی پر جہاں بہت سے دیگر‘ جائز‘ ناجا ئز ‘ اخراجات آئے اور خواتین کھل کھیلیں‘ وہاں ایک مہنگا آئٹم دعوتی کارڈ بھی سہی! عام طور پر ہماری خواتین ‘ مردوں کے اعتراض کا جواب یہ دیتی ہیں کہ خوشی کا موقع ہے ‘ اور خوشی کے مواقع روز روز کہاں آتے ہیں! مہنگے دعوتی کارڈ کا بھی یہی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ بہت سے لوگ اب کارڈ چھپواتے ہی نہیں! دیدہ زیب ڈیزائن بنواتے ہیں اور پھر اسے وٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتے ہیں! کبھی کبھی کچھ دوست یا عزیز فون کر کے گھر کا پتا پوچھتے ہیں کہ دعوت نامہ بھیجنا ہے۔ میں انہیں سختی سے منع کر دیتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ وٹس ایپ پر جگہ‘ تاریخ اور وقت بتا دیجیے۔ مقصد اطلاع بھیجنا یا اطلاع وصول کرنا ہے! امید کرنی چاہیے کہ جس طرح سوشل میڈیا نے عید کارڈ کا رواج ختم کر دیا ہے‘ شادیوں کے دعوتی کارڈ چھپوانے کا سلسلہ بھی جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے گا!!
کارڈ کو پڑھا! یہ انگریزی زبان میں تھا! کارڈ بھیجنے والے قریبی عزیز تھے۔ جب بھی ملتے‘ شستہ اور رواں اُردو میں بات کرتے! مجھے یقین ہے کہ انہوں نے انگریزی میں لکھا ہوا یہ کارڈ جس جس کو بھی بھیجا‘ اس سے بات انگریزی میں کبھی نہ کی ہو گی! اگر شادی کی اطلاع فون پر دیتے تو اُردو میں اطلاع دیتے! تو پھر انہوں نے کارڈ انگریزی میں کیوں لکھوایا؟ جن صاحب کی بات کر رہا ہوں ان سے تو نہیں پوچھ سکتا کہ خاندانی حساسیت اور نزاکتوں کا معاملہ ہے! مگر اکثر احباب سے پوچھتا ہوں! دو جواب ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ بچوں کا اصرار تھا کہ کارڈ انگریزی میں چھپیں! کوئی پوچھے کہ بچے آپ کے اپنے نہیں؟ آپ نے ان کی کیسی تربیت کی کہ وہ شادی کے دعوتی کارڈ بھی اُردو میں چھپوانا نہیں پسند کرتے؟ شرم کا مقام تو آپ کے لیے ہے! دوسرا جواب یہ ہوتا ہے کہ '' صاحب ! کیا کریں! رواج ہی یہی ہے !‘‘ اب کون کہے کہ خدا نے تو آپ کو آزاد پیدا کیا تھا! رواج نے آپ کے پاؤں میں زنجیر اور آپ کی ناک میں غلامی کی نکیل کب ڈالی؟ افسوس ہے آپ کی غلامانہ بے بسی اور بے کسی پر ! اور رحم آتا ہے آپ کی ابلہی اور سبک مغزی پر!!!
آپ اگر یہ شادی لندن یا نیویارک میں کر رہے ہیں اور متوقع مہمانوں میں انگریز یا امریکی شامل ہیں تو کارڈ انگریزی میں چھپوانے کی منطق سمجھ میں آتی ہے مگر تقریب آپ پاکستان میں کر رہے ہیں۔تقریب کے دوران آپ انگریزی نہیں بولیں گے! شادی ہال والوں سے بھی انگریزی میں بات نہیں کی مگر کارڈ انگریزی میں !! واہ! جناب ! واہ!
یہ احساسِ کمتری کب ہماری جان چھوڑے گا؟ حکومت سے شکوہ ہے کہ اُردو نافذ نہیں کرتی ! سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے دائرۂ کار میں اردو نافذ کی ہے؟ کیا ہم شادی کے دعوتی کارڈ اُردو میں چھپوا رہے ہیں؟ کیا ہم چَیک اُردو میں لکھتے ہیں؟ کیا ہم پارسل پر اپنا اور دوسرے کا پتا اُردو میں لکھتے ہیں؟ کیا ہمارے گھر اور دفتر کے باہر ہمارا نام اُردو میں لکھا ہے؟ کیا ہماری دکان کے اوپر لگا ہوا بورڈ اُردو میں ہے؟ کیا ہم اپنا بزنس( visiting ) کارڈ اُردو میں چھپواتے ہیں؟ اگر انگریزی میں ہے تو ساتھ اُردو میں کیوں نہیں؟ کیا ہماری دکان‘ یا کاروبار کی رسید‘ اُردو میں چھپی ہوئی ہے؟ کیا ہم سوشل میڈیا پر اُردو کو ذریعہ اظہار بنائے ہوئے ہیں؟ ہماری تو یہ حالت ہے کہ اُردو کو انگریزی حروف تہجی میں لکھتے ہیں اور پھر فخر سے اسے رومن اُردو کا نام دیتے ہیں! ڈوب مرنے کا مقام ہے! شلوار قمیض پر نکٹائی لگانے والی بات ہے! اُردو کی بورڈ عام ہے۔ یہ فقط دماغ کی کج روی ہے جو اُردو کو انگریزی حروف میں لکھوا رہی ہے! اُن بزرجمہروں پر تو حیرت کے ساتھ ساتھ رحم بھی آتا ہے جو کالم کے نیچے کمنٹ میں کالم نگاروں کو گالی بھی رومن اُردو میں دیتے ہیں اور تہمت بھی رومن اُردو میں! یعنی بُرا کام کرنا بھی ہے اور کرنا بھی بُرے انداز میں ہے! اگر آپ اُردو کی بورڈ استعمال کرنا جانتے نہیں تو یا تو آپ نالائق‘ غبی اور نا اہل ہیں یا آپ محض سبزی ہیں! ایسی سبزی جو سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہے!
شرماتے ہیں؟ پی ٹی سی ایل کا ادارہ فون کا بل اُردو میں کیوں نہیں جاری کرتا؟ بجلی اور گیس کے بل انگریزی میں جاری کرنے کی کیا منطق ہے؟ سٹیٹ بینک‘ کمر شل بینکوں کو کیوں نہیں ہدایت جاری کر رہا کہ چیک بُک اُردو میں چھپوائیں؟ ریلوے اور ہوائی جہازوں کے ٹکٹ اُردو میں کیوں نہیں ہیں؟ یہاں بھاری اکثریت اُردو بھی نہیں پڑھ سکتی! آپ انگریزی کے گھوڑے سے اُترنے کا نام نہیں لے رہے!! کیوں؟ نرم ترین الفاظ میں بھی اسے بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے!
اور یہ دلیل کتنی بودی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے! اب انگریزی پڑھے بغیر گزارہ نہیں! ہم دنیا سے کٹ جائیں گے! چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ انگریزی واقعی بین الاقوامی زبان ہے! انگریزی پڑھے اور جانے بغیر گزارہ نہیں۔ مگر پاکستان کے اندر انگریزی کیوں لازم ہے؟ آپ امام دین کو انگریزی میں بِل کیوں بھیج رہے ہیں؟ آپ اگر بینکار ہیں تو آپ کے گاہکوں کی اکثریت انگریزی سے ناآشنا ہے۔ آپ چیک بُک اور دیگر کئی اقسام کے فارم انگریزی میں چھاپ کر کیوں ان کے سر پر تھوپ رہے ہیں؟ یہ سب کام وہ ہیں جن کے لیے حکومت کی منظوری لازم نہیں! اگر ہم خود اپنے اپنے دائرے میں اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہے ہیں تو حکومت سے شکوہ کیسے کر سکتے ہیں؟
اس پرانی تقریر کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں اپنی زبان ہی کو ذریعہ اظہار بناتی ہیں! بھائی! مسئلہ ضرورت کا ہے اور کامن سینس کا ! ایک شخص انگریزی پڑھ ہی نہیں سکتا ‘ آپ اسے وہ دستاویز‘ یا بِل‘ انگریزی میں مہیا کر رہے ہیں جو اس کے لیے ضروری بھی ہے ! آپ کی اُس سے آخرکیا دشمنی ہے؟ میرے ننھیالی گاؤں کا ایک آدمی نوکری کرنے کسی شہر چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد واپس آیا تو '' لُون ‘‘ کو نمک کہنے لگا! یہ وہ زمانہ تھا جب گاؤں میں سکول تھا نہ اخبار نہ فون نہ ٹی وی ! ماں کے فرشتوں کو بھی ''نمک‘‘کا پتا نہ تھا۔ اس سادہ لوح عورت نے میرے نانا جان سے شکایت کہ کہ میرا پتر تو اپنی زبان ہی بھول گیا ہے! نانا جان نے اس '' نو دولتیے‘‘ کو کہا کہ بے وقوف شخص! تیس سال تم گا ؤں میں رہے ہو اور ایک سال شہر میں اور گاؤں کی زبان بھول گئے ہو! یہ نخرے بند کرو!! ہمارے بھی یہ سارے نخرے ہیں! سوچ سطحی! شان و شوکت جھوٹی ! احساس کمتری شدید !
اے ارضِ سیہ روز! کوئی اور ہی سورج!
شاید کہ بدل جائیں یہ ایام ہمارے