بجلی کے پنکھوں سے پہلے کپڑے کے مستطیل پنکھے ہوتے تھے جو کمرے کے درمیان‘ چھت سے لٹکائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ رسی بندھی ہوتی تھی۔ ایک آدمی اس رسی کو کھینچنے پر مامور ہوتا تھا۔ رسی کھینچنے سے پنکھا ہلتا تھا اور کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کو ہوا لگتی تھی۔ انگریز دور میں یہی پنکھا استعمال ہوتا تھا جسے مقامی ( یعنی ہندوستانی ) خدام کھینچتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے' شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ سخت گرمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے نوکر کبھی سو بھی جاتا تھا۔ ایسے میں انگریز افسر اسے جگانے کے لیے پاؤں سے ٹھوکر مارتا تھا۔کبھی کبھی بوٹ کی ٹھوکراس طرح لگتی تھی اور ایسی جگہ لگتی تھی کہ نوکر کی موت واقع ہو جاتی تھی۔قتل کے اس جرم میں سفید فام قاتل کو سزا دی جاتی تھی جو دو روپیہ جرمانے کی صورت میں ہوتی تھی!
آپ کا کیا خیال ہے کہ سفید چمڑی کے جانے کے بعد صورت حال بدل گئی ہو گی؟ نہیں! پولیس تشدد سے جن شہریوں کی موت واقع ہوتی ہے اس کے بدلے میں کتنے قاتلوں کو پھانسی دی گئی ہے؟ کتنوں کو عمر قید کی سزا ملی ہے؟ اگر کسی پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو اس حوالے سے اعداد و شمار پوچھتی اور قوم کو بھی بتاتی! اب تو دو روپے جرمانے والی سزا بھی نہیں ہے!! دو دن پہلے راولپنڈی میں پولیس تشدد کے دو واقعات پیش آئے۔ ایک نوجوان کو حوالات میں ہنٹر سے مارا گیا۔دوسرا واقعہ ٹیکسلا کا ہے۔ ایک ملزم کی ماں‘ ملزم کی گرفتاری میں مزاحم ہو رہی تھی۔ اسے پولیس نے دھکے دیے اور تھپڑ مارے۔ ماں تو ماں ہے۔ ملزم کی ہو یا منصف کی ! اسے سمجھایا جا سکتا تھا اور گرفتاری ماں پر تشدد کے بغیر بھی عمل میں لائی جاسکتی تھی! رونے پیٹنے کے علاوہ بیچاری نے کیا کرنا تھا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ پولیس کے محکمے نے تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کیا ایکشن لیا۔ دونوں معاملات میں تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔ اورمعاملہ کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔
یہ ہے وہ کھیل جو ایک طویل عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔انسان کا بچہ تھانے میں مر جائے یا بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنے ‘ یہی دو ''ایکشن‘‘ لیے جاتے ہیں۔ اہلکار یا اہلکاروں کو معطل کر دیا جاتا ہے اور انکوائری کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ یہ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں !! اخبار کی خبر شام تک مر جاتی ہے۔ دوسرے دن کس نے پوچھنا ہے کہ معطل کرنے کے بعد کیا ہوا اور انکوائری کا کیا نتیجہ نکلا۔ اور معطل کر دینا کونسی سزا ہے؟ یہ تو ایسی تعطیل ہے جس کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ یعنیPaid holidays!!
ماضی میں قانون یہ تھا کہ معطلی کے دوران آدھی تنخواہ ملتی تھی۔ یہ زیادہ نہیں تو تھوڑی سی سزا ضرور تھی۔ پھر یہ قانون بدل دیا گیا۔ اب پوری تنخواہ ملتی ہے۔ کیا خوب سزا ہے۔ گھر میں بیٹھیے۔ کام کوئی نہیں! تنخواہ پوری پائیے۔ سزا نہ ہوئی پکنک ہو گئی!! سزا وہ ہوتی ہے جس سے دوسرے عبرت پکڑیں! کچھ دن کے بعد معطل کیا جانے والا اہلکار بحال کر دیا جاتا ہے! زیادہ سے زیادہ اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ تبادلہ بھی سزا نہیں ہے۔ یہ تو ملازمت کا حصہ ہے ! اسی لیے تھانوں اور حوالات میں تشدد کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ اس کے ختم ہونے کی ایک ہی صورت ہے۔ سخت اور عبرتناک سزا! یعنی کم سے کم ملازمت سے مکمل بر طرفی! اور زیادہ سے زیادہ ‘ برطرفی کے ساتھ قید! اعداد و شمار مہیا نہیں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج تک تشدد کرنے کے جرم میں پولیس کا کوئی اہلکار نوکری سے نکالا نہیں گیا!
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہماری پولیس سے عام شہری ڈرتا ہے۔ خوف زدہ ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جائز کام کے لیے بھی تھانے نہ جائے۔ گیا تو مصیبت میں پھنس جائے گا۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی؟ کیا اوپر کی سطح کے پولیس افسروں نے اس پر غور کیا ہے؟ کیا حکومت نے کبھی سوچا ہے؟ کیا پارلیمنٹ نے کبھی اس سوال کو موضوعِ بحث بنایا ہے؟ مہذب ملکوں میں عوام پولیس سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں!
ان ملکوں میں جہاں واردات ہو ‘ پولیس خود وہاں پہنچتی ہے۔ ہمارے ہاں متاثرہ شخص یا خاندان کو خود چل کر تھانے جانا پڑتا ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ چوری یا قتل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد رپورٹ کرنے والا ایک جال میں پھنس جاتا ہے۔ بلکہ ایک شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ اس کی آئندہ نسلیں بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہیں! ایف آئی آر کٹوانا تو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔
ہماری پولیس عوام کی خدمتگار نہیں‘ حکومت کی خدمتگار ہے۔ یہ حکومت کی کنیز ہے۔ ہر حکومت کی !! گویا یہ ریاست کی ملازم نہیں‘ حکومت کی ملازم ہے! ہم یہ نکتہ پہلے بھی کہیں عرض کرچکے ہیں کہ ہمارے ہاں پولیس اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ طے پا چکا ہے! پولیس حکومت کی زر خرید غلام بن کر رہے گی! حکومت کا ہر جائز ناجائز کام کرے گی۔بغیر وارنٹ کے گھروں میں گھسے گی۔ بغیر جرم کے لوگوں کو گرفتار کرے گی۔ حکومتِ وقت کے اشارے پر ہر غیر قانونی کام کرے گی۔اس کے بدلے میں حکومت پولیس کے ''معاملات‘‘ میں دخل اندازی نہیں کرے گی! پولیس تشدد سے ملزم کو ہلاک کردے ‘ اس کے ہاتھ پاؤں توڑ دے‘ملزم کے گھر سے اس کی بے گناہ خواتین کو اُٹھا لے‘ انہیں دھکے دے‘ تھپڑ مارے ‘ ہنٹر چلائے‘حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی! حکومت نہیں پوچھے گی کہ تھانیدار یا بڑے افسر کی یا اس سے بھی بڑے افسر کی تنخواہ کتنی ہے اور اس کے گھر کا خرچ کتنا ہے ؟ یہ ہے حکومت اور پولیس کے درمیان‘ غیر تحریری معاہدہ جس پر ‘ فریقین کامیابی سے عمل کر رہے ہیں!!
اور صوبے کی پولیس کے سربراہ کی اپنی پوزیشن کیا ہے؟ کیا اُسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو اس کے ہم منصب کو امریکہ‘ برطانیہ‘ سنگاپور یا جاپان میں حاصل ہیں ؟ کیا وہ خود مختار یا کم از کم نیم خود مختار ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں ! اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کب تک اس پوسٹ پر رہنا ہے۔ جن ماتحتوں سے اس نے کام لینا ہے وہ کسی اور کے حکم سے تبدیل ہو سکتے ہیں! وہ اپنی مرضی کی ٹیم تیار کر ہی نہیں سکتا۔ ان افسروں کو تو آئے دن ایئر پورٹوں پر جا کر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ کوئی پوچھے کہ چیف منسٹر نے یا وزیر اعظم نے کہیں آنا جانا ہو تو ایس پی‘ آئی جی‘ ڈی سی اور کمشنر کا کیا کام کہ اس کا استقبال کرے یا اُسے رخصت کرے؟ پروٹو کول کی یہ مضحکہ خیز ڈیوٹی کیا ان افسروں کے کارِ منصبی میں خلل نہیں ڈالتی؟ کوئی ہے جو اس غلامانہ ڈرل کو ختم کرے؟ نصف سے زیادہ پولیس حکمرانوں‘ وزیروں اور بڑے لوگوں کے محلات پر پہرے دے رہی ہے! کروڑوں اربوں کا خرچ! حاصل صفر!!
پس نوشت: یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبر ملی ٹیکسلا میں جس اہلکار نے ملزم کی ماں سے بد سلوکی کی اُسے ملازمت سے برطرف (ڈسمس) کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے اور واقعی اسے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے تو یہ ایک خوش آئند خبر ہے اور ایک اچھا آغاز ہے۔ امید ہے کہ تشدد کے انسداد کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ پولیس کے جس افسر یا افسروں نے یہ قدم اٹھایا ہے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔