کالم تو ایک اور موضوع پر لکھنا تھا۔ وزیر خارجہ کا دل اپنی وزارت میں لگ نہیں رہا۔ کابینہ کی کمیٹی جو نجکاری کے لیے بنائی گئی ہے‘ اس کی صدارت وزیر خارجہ کو دے دی گئی ہے۔ ایک اور طرفہ تماشا یہ ہوا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (Council of Common Interests)یعنی CCI میں سے وزیر خزانہ کو باہر نکال دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ کونسل صوبوں کے درمیان متنازع مسائل حل کرنے کے لیے ہے۔ یہ مسائل‘ زیادہ تر‘ مالیات سے متعلق ہوتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ جسے بھی کونسل کا رُکن بنائیں۔ ارے بھئی! صوابدید کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مچھلیوں کو دریا سے نکال کر درختوں پر آباد کر دیا جائے۔ صوابدیدی اختیارات کے لیے شرط ہے کہ عاقلانہ اور مدبرانہ طور پر Judiciously استعمال کیے جائیں گے۔ ارادہ تھا کہ کالم میں جناب وزیراعظم کی خدمت میں تفصیل سے یہ تجویز پیش کروں کہ جہاں پناہ! وزیر خزانہ کی اسامی کو ختم کر دیا جائے اور وزیر خزانہ کا قلمدان بھی وزیر خارجہ کے سپرد کر دیا جائے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ حق بحقدار رسید!!
مگر راستے میں دوراہا آ گیا اور میں مُڑ گیا۔ ایک وڈیو کلپ دیکھا۔ ہمارے دوست شعیب بن عزیز پلنگ پر دراز ہیں اور اُن کی نواسی اور نواسا اُن پر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ اس سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ یہ واقعہ میری کتاب ''عاشق مست جلالی‘‘ میں درج ہے مگر چونکہ اس کا تعلق براہِ راست اس وڈیو کلپ سے ہے اس لیے یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نواب آف کوٹ فتح خان سے منسوب ہے۔ کوٹ فتح خان کے نواب کی ریاست فتح جنگ کے مغرب اور جنوب میں واقع تھی۔ اس میں چوراسی گاؤں شامل تھے۔ ایک مفلس کسان نواب کا بچپن کا بے تکلف دوست تھا۔ کسان کی صحت اچھی تھی جبکہ نواب صاحب کی ڈانواں ڈول رہتی تھی۔ ایک دن نواب نے اپنے کسان دوست سے کہا کہ میں بہترین خوراک کھاتا ہوں۔ دسترخوان پر پچاس اقسام کی نعمتیں ہوتی ہیں۔ تمہیں کھٹی لسّی بھی مشکل سے ملتی ہے۔ سوکھی روٹی اور دال تمہاری غذا ہے۔ پھر بھی حیرت ہے کہ تم ہٹے کٹے ہو اور میں رنجور! کسان یہ سُن کر ہنسا! کہنے لگا: سردارا! (اس علاقے میں بے تکلفی سے اسی طرح مخاطب ہوا جاتا ہے) تم کیا بہترین غذا کھاتے ہو؟ مٹی اور راکھ! میں جب کھیتوں میں کام کر کے واپس گھر آتا ہوں تو میرے پوتے اور نواسے میرے اوپر کودتے ہیں۔ چھلانگیں لگاتے ہیں۔ کوئی سر پر سوار ہوتا ہے‘ کوئی کندھوں پر چڑھائی کرتا ہے۔ پھر وہ مجھے کھینچ کھانچ کر ہٹی پر لے جاتے ہیں جہاں میں انہیں بتاشے‘ ریوڑیاں‘ مکھانے اور نُگدی خرید کر دیتا ہوں۔ انہیں کھاتا اور لطف اندوزہوتا دیکھ کر مجھ میں سیروں خون بڑھتا ہے۔ یہی میری اچھی صحت کا راز ہے۔
مستقل قارئین جانتے ہیں کہ اس کالم نگار نے نواسوں‘ نواسیوں‘ پوتوں‘ پوتیوں‘ نانیوں‘ دادیوں‘ دادوں‘ نانوں پر تواتر سے لکھا ہے۔ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ یہ موضوعات دنیا بھر میں پسند کیے گئے۔ خاص طور پر تارکینِ وطن کو ان تحریروں میں و طن کی اور گزرے ایام کی خوشبو آئی اور وہ خوش بھی ہوئے اور مضطرب بھی! ایک صاحب نے ایک کالم پڑھ کر امریکہ سے لکھا کہ جب سے کالم پڑھا ہے‘ ماں یاد آرہی ہے اور روئے جا رہا ہوں! کچھ بوڑھوں نے لکھا کہ ان کالموں میں دنیا بھر کے نانا اور دادا کی نمائندگی کی جا رہی ہے۔ دیہی زندگی پر لکھے گئے کالم بھی بہت پسند کیے گئے۔ ایک زمانہ تھا جو دیکھتے دیکھتے ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ جن لوگوں نے اس زمانے کو دیکھا تھا‘ اس کا ذکر پڑھتے ہیں تو تسکین حاصل کرتے ہیں۔
سیاسی اور حالاتِ حاضرہ کے کالموں سے قاری بعض اوقات اُکتا جاتے ہیں!! کیوں؟ اس لیے کہ سب کالم کم و بیش ایک ہی‘ یا زیادہ سے زیادہ دو موضوعات پر ہوتے ہیں۔ جیسے آج کل چھ ججوں کا موضوع ہے۔ اب کالم نگاروں کی مجبوری ہے کہ اس تازہ ترین‘ سلگتے موضوع کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مگر پڑھنے والا اس ایک موضوع پر کتنی تحریریں پڑھے گا؟ (یہی حال وی لاگرز کا بھی ہے۔ سب کے ٹاپک یکساں ہوتے ہیں)۔ جب قاری کسی ایسے موضوع پر تحریر دیکھتا ہے جو گھسے پٹے سیاسی موضوع پر نہ ہو تو وہ اس کی طرف لپکتا ہے‘ اسے پڑھتا ہے اور فرحت پاتا ہے! اس کالم نگار نے پِزے اور برگر پر لکھا۔ شو ہارن کو موضوع بنایا۔ لاٹھی پر لکھا۔ لسی پر لکھا۔ اس موضوع پر لکھا کہ چائے پیالیوں سے ہٹ کر مگ میں منتقل ہو گئی۔ دوسرے ملکوں کی خوراک پر لکھا۔ پرانے ہَل اور نئے تھریشر پر لکھا۔ عید اور دیگر تہواروں کے اُس کلچر پر لکھا جو اب غائب ہو گیا ہے۔ اُن سردیوں کا نوحہ لکھاجو اب کبھی نہیں پلٹیں گی!! چرخے پر‘ گھر کی کپاس سے کھڈی پر بُنے ہوئے کھیس پر‘ ادوائن والی بان کی چارپائیوں پر‘ دیواروں پر لگے اُپلوں پر‘ کوئلوں سے دہکتی انگیٹھیوں پر‘ اونٹوں کے کجاووں پر‘ غرض بے شمار ایسے موضوعات پر لکھا جن پر شاید ہی کوئی لکھنے والا توجہ دیتا تھا۔ پھر ان غیر سیاسی تحریوں کو‘ جو سراسر ثقافتی موضوعات پر تھیں‘ کتابوں کی صورت میں یکجا کیا۔ ان کتابوں کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ ہر شخص کو ان میں اپنی گم ہوتی ثقافت دکھائی دے رہی تھی اور اپنا گُم شدہ ماضی نظر آ رہا تھا۔ کچھ تحریروں کو نصابی کتابوںمیں بھی شامل کیا گیا۔
پنجاب کے کچھ علاقوں میں پوتے کو اپنا خون اور نواسے کو '' پرایا‘‘ خون گردانا جاتا ہے۔ ایک قصہ نما کہاوت بھی ہے کہ ایک شخص اپنے نواسے کو کندھے پر بٹھائے جا رہا تھا۔ پوتا ساتھ پیدل آ رہا تھا۔ راستے میں کتا آ گیا جو ذرا بپھرا ہوا تھا۔ کندھے پر بیٹھے نواسے نے کتے سے کہا کہ آئو! میرے بابا کو کاٹ لو۔ پیدل چلتے پوتے نے پتھر اٹھا لیا اور کتے کو کہا خبردار! میرے بابا کے نزدیک نہ آنا! اس کلچر اور اس مائنڈسیٹ کی پشت پر وہی جاہلی تصور ہے کہ بیٹی بیٹے سے کم تر ہے۔ جائداد کا حصہ بھی بیٹی کو نہیں دیا جاتا کہ زمین ''غیروں‘‘ کو چلی جائے گی! اسی طرزِ فکر سے وہ مضحکہ خیز اور ظالمانہ رسم نکلی کہ بیٹی کی شادی (نعوذ باللہ) قرآن پاک سے کر دی اور وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر بیٹھی رہی۔ کلام پاک میں بیٹیوں کو ناپسند کرنے والوں یا کمتر سمجھنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس برُی خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبا دے‘‘۔ یہ مائنڈ سیٹ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اور اس کے لیے جاہل یا ان پڑھ ہونا لازم نہیں۔ اس میں تمام طبقات کی نمائندگی موجود ہے۔ کیا جُبے اور عمامے‘ اور کیا سوٹ اور نکٹائیاں‘ بیٹیوں‘ بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہوئے قولنج کا درد اٹھتا ہے اور موت پڑتی ہے۔ جس طرح بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نئیں اسی طرح پوتے اور نواسے اور پوتی اور نواسی میں کوئی فرق نہیں۔ سب جگر کے ٹکڑے ہیں۔ ہمارے پیغمبر کی تو مقدس نسل ہی بیٹی اور نواسوں سے چلی! یہ نواسے ہی کا غم ہے جو آج بھی رُلا رہا ہے۔
لہو روتا ہوں‘ تڑپتا ہوں‘ جو یہ سوچتا ہوں
کس قدر ہے مجھے محبوب نواسا میرا!!