مگر یہاں سنتا کون ہے!!

کتابوں کا شکاری ہوں! مگر برادرِ عزیز رئوف کلاسرا مجھ سے بھی بڑے شکاری ہیں۔ مجھ سے بڑے یوں کہ میں شکار تیر کمان‘ تلوار‘ بھالے اور نیزے سے کرتا ہوں اور رؤف کلاسرا جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ۔ ان کے پاس ایسے ایسے ''کتاب مار‘‘ میزائل ہیں جو کتاب کے آخری ٹھکانے تک کتاب کا تعاقب کرتے ہیں۔ بندۂ خدا ایسے ایسے ٹائٹلز اپنی وال پر لگاتا ہے کہ منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ چند دن پہلے ایک بھارتی سول سرونٹ کی خودنوشت کا ٹائٹل لگایا۔ چونکہ چند ایام سول سروس کی گھاٹیوں میں گزارے ہیں اس لیے بھارتی سول سروس کے ساتھ موازنہ پسندیدہ موضوع ہے۔ یوں بھی اگر آپ نے انڈیا کی ترقی کا مقابلہ اپنی حالت کے ساتھ کرنا ہے تو چار شعبوں میں کیجیے‘ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ اول ریلوے۔ دوم آئی ٹی‘ سوم سول سروسز اور چہارم الیکشن کمیشن! ویسے انڈین الیکشن کمیشن کا مستقبل دھند میں لپٹا ہوا ہے کیونکہ مودی صاحب جس راستے پر چل رہے ہیں وہ آمریت کی طرف جا تا ہے۔ تعجب نہیں اگر کل وہ سیکولرازم پر خطِ تنسیخ پھیر کر بھارتی آئین میں ''ہندو ریاست‘‘ کا لفظ گھسیڑ دیں۔ اب صرف آئینی تبدیلی ہی رہتی ہے۔ عملاً تو بھارت ہندو ریاست بن ہی چکا ہے۔ خیر! اُس کتاب کا عنوان دیکھ کر فوراً کلاسرا صاحب سے پوچھا کہ یہ تازہ ہرن کیسے ہاتھ لگا کیونکہ بھارت سے تو کتابیں آ نہیں رہیں! شادیوں یا خوشی کے دیگر مواقع پر جو کتابیں تحفے میں دیتا ہوں ان میں سے چند انڈیا کی چھپی ہوئی ہیں اور اب نہیں مل رہیں۔ کلاسرا صاحب نے بتایا کہ ان کے کسی جاننے والے نے بھیجی ہے اور یہ کہ وہ پڑھ لیں تو مجھے پڑھنے کے لیے دے سکتے ہیں۔ اس پیشکش کا سن کر ان پر پیار بھی آیا اور رحم بھی! بندہ جان دے دے کتاب نہ دے کیونکہ اس نام نہاد سخاوت کے سبب کئی کتابوں سے ہاتھ دھو چکا ہوں۔ تاہم اس پیشکش کا سنہری پہلو یہ بھی تھا کہ کلاسرا مجھ پر اعتماد کرتے ہیں جبھی تو اتنا بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔ مگر اتنا انتظار کون کرے! پھر کتاب کی ملکیت ایک الگ ہی لذت ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی کے پروفیسر ندیم صاحب خاص کرم فرما ہیں۔ انہیں کہا کہ یہ کتاب خرید کر آسٹریلیا بھیجیں تا کہ وہاں سے پاکستان آ سکے۔ انہیں کہہ تو دیا مگر پھر سوچا کہ یہ تو پہلے راستے سے بھی لمبا راستہ ہے۔ پھر ذہن میں ایک روشنی سی چمکی۔ دونوں بچوں کو کتاب کا نام بھیجا کہ اگر آن لائن مل رہی ہے تو لے کر میرے آئی پیڈ پر منتقل کریں! دونوں نے گیارہ گیارہ ڈالر میں خرید لی اور چند گھنٹوں میں دونوں نے میرے آئی پیڈ پر منتقل بھی کر دی۔ پروفیسر ندیم صاحب کو بھیجنے سے منع کر دیا۔ یہاں ضمنی واقعہ یہ پیش آیا کہ بچوں کی ماں نے آڈٹ اعتراض کیا کہ بیک وقت دونوں بچوں کو کہنے کی کیا تُک تھی‘ دونوں کے پیسے خرچ کرائے۔ مگر اُس وقت صورتحال اتنی غیر یقینی تھی اور بے تابی اس قدر تھی کہ کتاب کے حصول کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا تھا! ویسے بچوں کے پیسے خرچ ہونے پر باپ کو بھی اتنی ہی تشویش ہوتی ہے جتنی ماں کو ہوتی ہے!
کتاب خریدنے کی دھن اس لکھنے والے کو موروثی ہے۔ ہمارے آپ کے بزرگوں کے زمانے میں قریہ قریہ بستی بستی مدارس ہوتے تھے۔ ان میں سے ہر مدرسہ اگر یونیورسٹی نہیں تو کالج کے برابر ضرور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مدرسوں میں پڑھانے والے سکالر چندے لیتے تھے نہ تنخواہ! ان کے ذریعۂ معاش کا مدرسوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کوئی کھیتی باڑی کرتا تھا تو کوئی تجارت! طلبہ کو کتابیں استاد مہیا کرتا تھا اور کھانا اہلِ قریہ!! اسی لیے ہر استاد کی لائبریری میں ایک ایک کتاب کی کئی کئی جلدیں ہوا کرتی تھیں! ہمارے آبائی کتب خانے میں گلستاں‘ بوستان سے لے کر مثنوی رومی تک اور قدوری سے لے کر ہدایہ تک ہر کتاب کے کئی نسخے تھے۔ تب کتاب فروش کتابوں کے گٹھڑ اٹھائے بستی بستی مدرسوں میں جا کر کتابیں فروخت کرتے تھے۔ ایک بار دادا جان کے پاس مطلوبہ رقم نہیں تھی اور کتاب چھوڑنا نہیں چاہتے تھے تو قمیض اتار کر کتاب فروش کو دی اور کتاب حاصل کر لی۔ آج سوچتا ہوں کہ قمیض لازماً اچھی ہو گی جبھی کتاب فروش نے یہ سودا منظور کیا۔ ایک بار سنگاپور کی ایک فارمیسی میں ایک کتاب دیکھی۔ (کتابوں بھرا ایک رَیک وہاں اکثر دکانوں میں ہوتا ہے) کتاب کا عنوان حد درجہ اشتہا انگیز تھا۔ Sons of Yellow Emperor یعنی چینیوں کی عالم گیر ہجرتوں کا قصہ! ڈیموگرافی میں دلچسپی کے باعث دل مچل اٹھا۔ مگر قیمت پوچھی تو استطاعت سے زیادہ لگی! اسی دن پاکستان واپسی تھی۔ واپس آنے کے بعد کتاب کی یاد برُی طرح ستانے لگی! ہر روز بیگم سے کہتا کہ غلطی ہوئی‘ لے لینی چاہیے تھی! ایک برس بعد پھر سنگاپور جانا ہوا۔ سیدھا اُسی فارمیسی پر گیا۔ کتاب وہاں ندارد تھی۔ اُن دنوں توحید احمد مرحوم سنگاپور میں ہمارے سفیر تھے۔ قیام انہی کے ہاں تھا۔ بہت عالم فاضل شخصیت تھے۔ کمپیوٹر پر اُردو میں پہلی کتاب انہوں نے ہی لکھی تھی جو مقتدرہ قومی زبان نے شائع کی تھی۔ پاکستان سے روانگی سے پہلے اُن سے پوچھا کہ ان کے لیے کیا چیز لانی ہے۔ انہوں نے دو چیزوں کی فرمائش کی۔ پہلی‘ پنڈی اسلام آباد کے مشہور حلوائی کی خاص برفی۔ دوسری‘ دیوانِ بیدل! کسی زمانے میں پشاور کے ایک افغان کتاب فروش سے دیوانِ بیدل کے دو نسخے خریدے تھے۔ ایک جناب ظفر اقبال کی نذر کیا تھا۔ دوسرا ذاتی نسخہ تھا۔ توحید احمد مرحوم کے لیے وہی لے گیا۔ اتفاق سے اُن کی سرکاری قیام گاہ کی بغل ہی میں کتابوں کی مشہور عالم دکان‘ بین الاقوامی چین (chain) ''بارڈر‘‘ تھی جو بعد میں دم توڑ گئی۔ سنگاپور کی برانچ بارڈر کی ایشیا بھر میں سب سے بڑی برانچ تھی۔ جب فارمیسی میں وہ کتاب نہ ملی تو بارڈر سے مانگی۔ ان کے پاس موجود نہیں تھی مگر دو دن بعد انہوں نے کہیں سے منگوا دی۔ یوں ایک سال کے اضطرابِ مسلسل کے بعد یہ کتاب ہاتھ لگی۔ حسین حقانی صاحب نے (اُن دنوں وہ ہم عامیوں سے بھی مل لیا کرتے تھے) ایک بار مشورہ دیا کہ مجھے ایک کتاب ''دی مارچ آف فولی‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ تلاش کی‘ کہیں نہیں ملی۔ امریکہ سے منگوانی پڑی۔
یہ جو بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں اور رسالوں کی نقل و حمل بند ہے‘ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں فائدہ کس کا ہے اور نقصان کس کو ہو رہا ہے؟ فائدے کا تو معلوم نہیں! ہاں دونوں ملکوں کے اُن لاکھوں افراد کا نقصان ضرور ہو رہا ہے جو کتابوں اور رسالوں کے شائق ہیں۔ بھارت کے اُردو دان بالعموم‘ اور اُردو ادب کے قارئین بالخصوص‘ پاکستان میں چھپنے والے ادبی جرائد سے محروم ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابیں وسیع پیمانے پر شائع ہوتی ہیں اور ہر موضوع پر میسر ہوتی ہیں۔ بھارت سے منگوائی گئی کتابیں ہم پاکستانیوں کو برطانیہ اور امریکہ کی نسبت ارزاں پڑتی ہیں! یوں زیادہ نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے۔ خوشبو اور علم کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ دونوں ملک کشمیر کے مسئلے پر اٹکے اور لٹکے ہوئے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کتابوں کی ترسیل روکنے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا تو حل ہو چکا ہوتا! باقی تجارت نہیں بھی کھلتی تو کم از کم کتابوں کی درآمد برآمد تو کھول دی جائے۔ مگر یہاں سنتا کون ہے!! ناصر کاظمی کہہ گئے ہیں:
اسیرو! کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں