نوجوان پریشان تھا۔ غصے میں تھا۔ صدمے میں تھا۔ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اضطراب اس کے جسم سے‘ اس کی رَگ رَگ سے‘ اس کے مساموں سے زہریلی شعاؤں کی طرح پھوٹ رہا تھا۔ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔ آج کل دو کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔ اس لیے ملنے ملانے سے گریز کرتا ہوں۔ یوں بھی زندگی جھنجھٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر میرے دوست نے کہا کہ اس نوجوان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ضرور سنوں کہ اس میں نوجوان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ ہاں مجھے اس ملک کی پسماندگی کی ایک اور وجہ ضرور معلوم ہو جائے گی۔ نوجوان بیرونِ ملک سے آیا تھا۔ پہلی بات اس نے جو کی‘ اس کی مایوسی اور بے بسی پوری طرح بتا رہی تھی۔ ''سر! پاکستان میں میرے ماں باپ ہیں ورنہ یہاں نہ آتا‘‘۔ اسے پانی پلایا‘ چائے پیش کی مگر جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اُس سلسلے میں مَیں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ بغل گیر ہو کر روؤں۔
اس نوجوان نے‘ جو بیرونِ ملک ملازمت کر رہا تھا‘ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف بینک میں ڈالر اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ سارا سال بیرونِ ملک سے ڈالر بھجواتا رہا جو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہے۔ اب وہ ایک ہفتے کے لیے آیا تھا کہ یہ ڈالر نکلوا کر کچھ ضروری امور سر انجام دے۔ وطن پہنچ کر دوسرے دن متعلقہ برانچ میں گیا کہ رقم نکلوائے‘ مگر برانچ نے بتایا کہ اس کا اکاؤنٹ تو بند (De-activate) ہو چکا ہے۔ پیسے نہیں نکلوائے جا سکتے۔ نوجوان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے وجہ پوچھی تو بینک نے جواب دیا کہ اس اکاؤنٹ میں ایک سال سے کوئی ٹرانزیکشن (لین دین) ہی نہیں ہوا! نوجوان نے کہا کہ ٹرانزیکشن کیوں نہیں ہوا؟ ہر ماہ ڈالر بھیجتا رہا ہوں جو میرے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہے۔ اس پر بینک نے کہا کہ آپ نے جمع کرائے ہیں‘ اسے ہم ٹرانزیکشن مانتے ہی نہیں۔ چونکہ اس عرصے میں آپ نے کوئی رقم نکلوائی نہیں‘ اور ساری رقم بینک ہی میں پڑی رہی جس سے بینک کو فائدہ ہوا‘ اس لیے بینک نے اس احسان کا بدلہ یوں اُتارا ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ کو De-activateکر دیا ہے۔ اب آپ رقم نکلوا ہی نہیں سکتے۔ نوجوان نے پوچھا کہ اکاؤنٹ کھولتے وقت یہ بات کیوں نہ بتائی گئی؟ پھر اکاؤنٹ بند کرتے وقت کیوں نہ بتائی؟ اس کا جواب بینک کے پاس کوئی نہ تھا۔ نوجوان چھ سات دن کی چھٹی لے کر آیا تھا۔ اکاؤنٹ کو دوبارہ Activate کرنے کے لیے ڈھیر ساری کاغذی کارروائی ضروری تھی۔ بائیو میٹرک بھی ہونی تھی۔ یہ کم از کم تین چار دن کا کام تھا۔ اس کے بعد رقم نکل بھی آتی تو نوجوان کے پاس دو دن بچتے تھے جو اس کے کاموں کے لیے کم تھے۔
یعنی آپ کے ملک کو اگر کوئی باہر سے ڈالر بھیج رہا ہے‘ جس کی آپ کو اشد ضرورت ہے تو آپ اسے سہولت پہنچانے کے بجائے اذیت پہنچا رہے ہیں۔ آپ اسے وارننگ دیتے ہیں نہ اطلاع بہم پہنچاتے ہیں‘ نہ اپنا یہ منحوس قانون بتاتے ہیں۔ ہر ماہ ایس ایم ایس کے نام پر پیسے کاٹتے ہیں تو یہ اطلاع ایس ایم ایس پر کیوں نہیں دی جاتی! ڈالر لیے جا رہے ہیں۔ جب نکلوانے کی بات کی جاتی ہے تو اچانک بتایا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ ناکارہ ہو چکا ہے۔ اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سب سٹیٹ بینک کا کیا دھرا ہے!! یعنی: چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی (کفر کعبے سے اٹھے گا تو مسلمانی کا کیا بنے گا؟)۔
ہم گورنر سٹیٹ بینک سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سب کیا ہے؟ جب ڈالر لے رہے ہیں تو واپس دیتے وقت گردے باہر نکال کر تار پر کیوں لٹکا رہے ہیں؟ مالک کی اپنی رقم ہے۔ پانچ منٹ میں تسلی کی جا سکتی ہے کہ مالک یہی ہے۔ تین چار دن کیوں؟ تو پھر اس میں تعجب ہی کیا ہے اگر تارکینِ وطن آپ کو باہر سے رقم نہیں بھیج رہے! بجائے اس کے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں‘ لوگوں کو خوار کیا جا رہا ہے۔ اندازہ لگائیے‘ ملک کو فارن ایکسچینج دینے والوں کے ساتھ کیسا زبردست حسنِ سلوک کیا جا رہا ہے۔ واہ سٹیٹ بینک واہ!
اس نوجوان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ مذاق کا سن کر مجھے اپنی پڑ گئی۔ تین سال پہلے میں اور اہلیہ ایک نجی بینک کی مقامی برانچ کے منیجر کے پاس گئے اور بتایا کہ ہم میاں بیوی مشترکہ اکاؤنٹ کھلوانا چاہتے ہیں جس میں ہم ہر ماہ اپنی نواسی کے لیے کچھ رقم ڈالا کریں گے۔ وہ چونکہ چھوٹی ہے اس لیے اس کے اپنے نام اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا۔ہم نے منیجر کو خاص طور پر بتایا کہ اس اکاؤنٹ سے رقم نکلوائی نہیں جائے گی۔ منیجر نے اکاؤنٹ کھول دیا۔ اور اس کالے قانون کا نہیں بتایا۔ تب سے ہم اپنی حقیر استطاعت کے مطابق اس اکاؤنٹ میں ہر ماہ کچھ ڈالتے ہیں کہ بچی بڑی ہو گی تو یہ رقم اس کی تعلیم کے کام آ جائے گی۔ نوجوان کی رُوداد سن کر بینک کی اس برانچ کو فون کیا اور خود پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہمارا اکاؤنٹ بھی De-activate کر دیا گیا ہے حالانکہ ہر ماہ رقم جمع بھی ہو رہی ہے۔ پوچھا اطلاع کیوں نہیں دی؟ اس کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ بھئی! اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ کو اکاؤنٹ کھولتے وقت یہ حساس قانون وارننگ کی شکل میں لکھ کر دینا چاہیے!!
اور اکاؤنٹ کھولنا کون سا آسان ہے؟ بینک اتنی بار طلب کرتا ہے جتنی بار دانتوں کا ڈاکٹر بھی نہیں طلب کرتا۔ کئی کئی گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے۔ کئی کاغذوں پر دستخط! بائیو میٹرک۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ کھولنے کی منظوری اوپر سے آئے گی۔ اس منظوری کا آپ کو کبھی نہیں بتایا جاتا۔ ہفتوں پر ہفتے گزر جاتے ہیں۔ آپ خود ہی پوچھئے تب کہیں جا کر اکاؤنٹ نمبر بتایا جائے گا۔ میرا کئی بار کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اکاؤنٹ نمبر ملنے تک‘ تمام روابط اور پروٹوکول کے باوجود‘ کم از کم پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بہت بڑے ہوٹل کے بزنس کمپلیکس میں ایک نامی گرامی بینک ہے۔ اس میں پہلے دن حاضری ہوئی۔ ساری کارروائی ہو گئی۔ اکاؤنٹ نمبر کئی یاد دہانیوں کے ساتھ ایک ماہ بعد ملا۔ برانچ نے اس کی ذمہ داری ہیڈ آفس پر ڈالی! یہ واقعہ ایک سال پہلے کا ہے۔ بھارت میں سیونگ اکاؤنٹ تو فوراً کھل جاتا ہے۔ کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ چار دن درکار ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی کام ملک کے مفاد میں کیا جائے تو یہ طے ہے کہ کام کرنے والے کو خوب رگڑا دیا جائے گا۔ آپ نے کارخانہ لگانا ہے یا کچھ بر آمد کرنا ہے یا باہر سے ڈالر یا پاؤنڈ ملک میں بھیجنے ہیں‘ یا اکاؤنٹ کھولنا ہے یا قومی بچت مرکز میں جا کر اپنی کمائی ریاست کو دینی ہے تو ہر ممکن رکاوٹ ڈالی جائے گی۔ کئی چکر لگوائے جائیں گے‘ دھکے دیے جائیں گے‘ ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جائے گی یہاں تک کہ ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ مر جائے گا۔ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ اس کے بعد دو ہی راستے ہیں‘ یا تو چُپ کرکے بیٹھ جائے اور ملک کے لیے کچھ کرنے کا خیال دل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دے یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائے !! اور دوسروں کو بھی بتا دے کہ:
بھاگ مسافر میرے وطن سے میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
اور یقین کیجیے! اس تمام سینہ کوبی اور گریہ و زاری کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنے والا!