پہلے بھی عرض کیا ہے کہ پاکستان ''طبقۂ امرا کی حکومت‘‘ یعنی اولی گارکی (Oligarchy) کا شکار ہے۔ سالہا سال سے‘ کئی دہائیوں سے‘ یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ متوسط طبقے کا کوئی پروفیسر‘ کوئی معیشت دان‘ کوئی دانشور حکومتی صفوں میں میرٹ پر آیا ہو۔ اگر کوئی‘ ایک آدھ نفر‘ اوپر آیا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے کسی نہ کسی بڑے آدمی کے ساتھ ذاتی وفاداری نبھائی ہے۔ طبقۂ امرا اس قدر غالب ہے کہ کوئی مڈل کلاس سے آ بھی جائے تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مار کے امرا کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ جنوب کی جس پارٹی نے شور مچایا تھا کہ مڈل کلاس سے ہے‘ اس کی مڈل کلاس جلد ہی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ اب کسی کی امریکہ میں پٹرول پمپوں کی قطار ہے اور کسی کے اہلِ خانہ لاس اینجلس کے گراں ترین علاقے میں رہتے ہیں۔ ایک صاحب صحافت سے سیاست میں آئے تھے۔ مڈل کلاس سے تھے۔ مگر پارٹیاں اتنی بدلیں کہ ساری حدیں پار کر ڈالیں!
آپ ''اولی گارکی‘‘ کے جبڑوں کی مضبوطی کا اندازہ ایک تازہ مثال سے لگائیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک میں عوام گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ صرف شاہراہوں پر رونما ہونے والے حادثات میں ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں موت کا رقص کر رہی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ایک ڈمپر ملتان میں چار پانچ افراد کو کچل چکا ہے۔ بلوچستان میں پنجابیوں کو بے دریغ قتل کیا جا رہا ہے۔ علاج نہ کرا سکنے کے باعث اموات واقع ہو رہی ہیں۔ مگر کسی حکومت کے کان پر کبھی جوں رینگی‘ نہ رینگ رہی ہے۔ کس نمی پُرسد کہ بھیا کیستی؟ مگر جب اولی گارکی کا کوئی رکن کہیں جائے تو اس کی حفاظت کے لیے ساری مشینریاں حرکت میں آ جاتی ہیں! سرکاری خزانوں کے منہ کھل جاتے ہیں! سینیٹ کے معزز چیئرمین نے لاہور آنا ہے۔ صوبائی انٹیلی جنس کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹ چیئرمین کو جَیمرز (Jammers) والی گاڑی مہیا کی جائے گی۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پانچ نئی جَیمرز گاڑیاں اور نو بُلٹ پروف گاڑیاں خریدی جائیں گی! کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ ایک گاڑی عدلیہ کے ایک رکن کو بھی دی جائے گی۔ ملتان کے کوئی ایم پی اے صاحب ہیں‘ انہیں پولیس سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے متعلقہ پولیس حکام کو احکام دینے کی بات ہوئی۔ مشائخ وِنگ کے کوئی رہنما ہیں‘ انہیں بھی پولیس سکیورٹی مہیا کی جا ئے گی۔
پانچ جَیمر گاڑیوں اور نو بُلٹ پروف گاڑیوں کی خرید کے لیے سمری چیف منسٹر صاحبہ کو بھیجی جا ئے گی۔ ہمیں چیف منسٹر صاحبہ سے پوری امید ہے کہ وہ اس سمری کو نامنظور کر کے اُس سازش کو ناکام بنا دیں گی جو غیر منتخب اور غیر سیاسی لوگ ان کے خلاف کر رہے ہیں۔ چیف منسٹر صاحبہ ازراہِ کرم یہ رپورٹ بھی طلب کریں کہ کون کون سے اور کتنے صاحبان کو پولیس سکیورٹی مہیا کی جا رہی ہے۔ اس کام کے لیے کتنی پولیس مختص کی گئی ہے اور سالانہ بجٹ اس سکیورٹی کا کیا ہے؟ ہم چیف منسٹر صاحبہ کی خدمت میں اپیل کرتے ہیں کہ امرا پر بے دریغ خرچ ہونے والے سرکاری روپے کا حساب کریں اور اس سلسلے کو بالکل روک نہیں سکتیں تو کم از کم گھٹانے کی کوشش تو کریں!
کابینہ کا اجلاس ہونا تھا۔ قائداعظم سے چائے کا انتظام کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ کہا: نہیں! گھر سے چائے پی کر آئیں۔ سرکاری روپیہ ان چیزوں کیلئے نہیں! آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم امرا اور عمائدین کو سرکاری خرچ پر سکیورٹی مہیا کرنے کی اجازت دیتے؟ نہیں! کبھی نہیں! ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جسے خطرہ ہو سیاست میں‘ یا منظر عام پر نہ آئے‘ اور آئے تو اپنی سکیورٹی کا انتظام اپنے پیسے سے کرے! جس شخص نے گورنر جنرل کیلئے سرکاری جہاز سخت مجبوری میں خریدنے کی اجازت دی اور قیمت کم کرنے کیلئے امریکہ میں پاکستانی سفیر جناب ابو الحسن اصفہانی سے اتنی طویل خط و کتابت کی اور ایک ایک پائی کی تفصیل اس طرح پوچھی کہ ذاتی جیب سے خریداری کرتے وقت بھی اتنی فکر کوئی نہ کرے!! وہ شخص اُن اللے تللوں کی اجازت کس طرح دے سکتا تھا جو بعد میں آنے والے حکمرانوں کا معمول بن گئے!!
یہاں ہم چیف منسٹر صاحبہ کی توجہ ایک اور امر کی طرف دلانے کی جسارت کریں گے۔ بھٹو صاحب کے دور تک ہر شہر میں ''پاکستان کونسل‘‘ کی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ مرکز کی وزارتِ اطلاعات ان لائبریریوں کی مائی باپ تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ لائبریریاں غائب ہو گئیں۔ لاکھوں کتابوں کا کیا بنا؟ کچھ معلوم نہیں! ہماری گزارش ہے کہ چیف منسٹر صاحبہ صوبے کے ہر شہر اور ہر قصبے میں پبلک لائبریری قائم کرنے کا حکم دیں۔ مثال کے طور پر عرض کروں کہ آسٹریلیا اور برطانیہ کے ہر قصبے میں ایک اور ہر شہر میں کئی پبلک لائبریریاں قائم ہیں۔ جیلانگ آسٹریلیا کا چھوٹا سا شہر ہے۔ اس میں 18لائبریریاں قائم ہیں۔ ایک لائبریری کی رکنیت ہر لائبریری میں کام آتی ہے۔ ہر لائبریری میں کمپیوٹر اچھی خاصی تعداد میں رکھے ہیں۔ تعلیمی مقاصد کے لیے لائبریری ممبرز کو مفت انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ چیف منسٹر صاحبہ کو لائبریری کلچر کی اہمیت بتانا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ آج جن ملکوں کی ترقی قابلِ رشک ہے اور جن ملکوں میں جا کر بسنے کیلئے ہم جیسے غریب ملکوں کے عوام ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں‘ اُن ملکوں کی معاشی اور عسکری طاقت کی پشت پر صرف دو چیزیں ہیں۔ لائبریریاں اور یونیورسٹیاں! یونیورسٹیاں بھی ایسی کہ تین تین سو سال سے داخلے اور امتحانوں کی تاریخیں نہیں بدلیں! ہمارے ہاں پبلک لائبریریوں کے فقدان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوانوں نے مضر‘ غیر اخلاقی اور غیر پیداواری مشغلوں کو مصروفیت بنا لیا ہے۔ افرادی قوت تباہی کے راستے کی طرف جا رہی ہے۔
ہم یہ درخواست بھی کریں گے کہ اگر چیف منسٹر صاحبہ صوبے کے ہر بڑے شہر میں کئی‘ اور ہر قصبے میں کم از کم ایک لائبریری قائم کرنے کے اس منصوبے کو اصولی طور پر شرفِ قبولیت بخشیں تو ازراہِ کرم اس منصوبے کو افسر شاہی کے دندانِ آز سے بچائیں! ملک میں‘ اور صوبے میں بھی‘ ایسے لائق اور بے غرض افراد کی کمی نہیں جو اس منصوبے کو خلوص اور حسن تدبیر سے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اسلام آباد کی معروف شخصیت ڈاکٹر فرح سلیم کو یہ فریضہ سونپا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل کے منصب سے ریٹائر ہونے والے‘ فقیر منش‘ عالم اور سکالر‘ ڈاکٹر معین نظامی بھی رجالِ کار میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ملتان میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد بھی یہ منصوبہ قابلیت کے ساتھ سنبھال سکتے ہیں۔ پوری علمی دنیا میں مشہور‘ مگر اپنے ملک میں اجنبی‘ بہت بڑے معیشت دان‘ اقوام متحدہ کے سابق مشیر‘ لاہور میں رہنے والے محمد اکرم خان اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ ان کی لندن سے چھپنے والی کتاب What is wrong with Islamic Economics کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اس کام کے لیے موزوں ہیں۔ الغرض کسی ایسی ہی بے غرض اور نیک نام‘ مگر لائق شخصیت سے یہ کام کرایا جانا چاہیے۔ چیف منسٹر صاحبہ اگر صوبے میں لائبریریوں کا جال بچھا دیں تو نہ صرف تاریخ میں اپنا نام تحسین آمیز الفاظ میں لکھوا جائیں گی بلکہ قوم کی ایسی خدمت کر جائیں گی جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر پڑیں گے۔ سعدی کہہ گئے ہیں:
خیری کُن اے فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند
اس سے پہلے کہ کوچ کا نقارہ بج اُٹھے‘ وقت کو غنیمت جانیے اور نیکی کر جائیے۔