دو دن پہلے‘ اٹھائیس مئی کو‘ اخبارات میں دو خبریں چھپیں۔ ایک تو نمایاں تھی۔ سب نے پڑھی۔ یہ یوم تکبیر کی تھی! ہم نے ایٹم بم بنایا اور دشمن کو قابو کر لیا۔ اس خوشی میں عام تعطیل ہوئی۔ خوشی کی بات بھی ہے‘ اس لیے کہ ایٹمی کلب میں شامل ہونا ہر ملک کے بس کی بات نہیں۔ ہم اب قوموں کی برادری میں ہائی سٹیٹس کے مالک ہیں! بھارت نے جب ایٹمی دھماکا کیا تو اس کے فوراً بعد اس کے لیڈروں کا لہجہ ہی بدل گیا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا جیسے پاکستان اب ایک ترنوالہ ہے۔ پاکستان نے جوابی دھماکا کیا تو حالات نارمل ہوئے۔ دوسری خبر بہت ہی کم لوگوں نے پڑھی ہو گی۔ جنہوں نے پڑھی ہو گی‘ وہ جلدی سے آگے بڑھ گئے ہوں گے۔ اس طالب علم نے بھی پڑھی! یہ خبر کسی دور افتادہ بستی کی ہے نہ علاقہ غیر کی! یہ لاہور شہر کی خبر ہے! ایک عورت نے دوسری بیٹی کو جنم دیا۔ اس گناہِ کبیرہ پر بہادر‘ جوانمرد شوہر نے بیوی کو شدید تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا۔ اس کارِ خیر میں اس کے عظیم المرتبت والدِ گرامی اور قابل ِفخر بھائی نے بھی اُس کا ہاتھ بٹایا۔ خبر کا دلچسپ‘ دردناک اور عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ شوہرِ نامدار حافظ قرآن ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!
یہ ہیں وہ دو انتہائیں‘ جن کے بیچ میں ہم رہ رہے ہیں! ایسی بلندی! ایسی پستی! ایک طرف ایٹمی طاقت۔ یوم تکبیر کی شان و شوکت! دوسری طرف جہالت کا گھٹا ٹوپ اندھیرا! مکروہ ترین مائنڈ سیٹ! قبل از اسلام کی جاہلی ذہنیت! جس کے ختم ہونے کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے! ایک طرف ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ دوسری طرف ہم اپنی ہی بستیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں کے مکانات نذرِ آتش کر رہے ہیں! کبھی کسی کو تشدد سے ہلاک کر دیتے ہیں۔ کبھی پٹرول چھڑک کر جلا دیتے ہیں!
بنیادی طور پر یہی کچھ بھارت میں ہو رہا ہے۔ وہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ‘ کم و بیش‘ یہی سلوک ہو رہا ہے جو یہاں غیر مسلموں سے ہو رہا ہے۔ وہاں بھی اتائی‘ سادھو‘ جوگی‘ پنڈت‘ نجومی‘ پامسٹ‘ سوامی راج کر رہے ہیں۔ یہاں بھی نجومی‘ پامسٹ‘ پیر‘ فقیر‘ ملنگ‘ گدی نشین‘ سجادہ نشین‘ مجاور‘ زائچے بنانے والے‘ ہاتھ دیکھنے والے‘ پیشگوئیاں کرنے والے‘ غیب کی خبریں دینے والے‘ مؤکل رکھنے والے‘ پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں! یہاں بھی کاروکاری‘ ونی اور سوارہ ہیں۔ یہاں بھی پنچایتیں دس دس‘ بارہ بارہ سال کی بچیوں کی شادیاں ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کر دیتی ہیں۔ وہاں بھی چولہے پھٹتے ہیں اور جہیز نہ لانے والی بہوئیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یہاں بھی بیٹیاں پیدا کرنے والی عورتوں کو ہسپتال ہی میں طلاق دے دی جاتی ہے۔ مارا پیٹا جاتا ہے۔ وہاں گنگا کے کثیف پانی سے اشنان کیا جاتا ہے۔ یہاں مزاروں کی مٹی پھانکی جاتی ہے‘ ہاں ایک فرق ہے۔ اُن کے پاس قرآن مجید نہیں۔ ہمارے پاس قرآن مجید ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے پاس بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں اس کے اندر کیا لکھا ہے۔ جن حافظ صاحب نے بیوی کو بیٹی جننے کے جرم میں اذیت دی ہے‘ انہیں وہ آیت حفظ تو ہو گی جس میں اُن جیسے لوگوں کا ذکر ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اس کے معنی سے ناآشنا ہوں گے۔
کیا ملکوں کو نقصان صرف بیرونی حملوں سے پہنچتا ہے؟ کیا صرف خارجی دشمن خطرناک ہوتے ہیں؟ نہیں! ملکوں کو بعض اوقات اندر سے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں! سوویت یونین بیرونی حملے سے نہیں منہدم ہوا۔ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ امریکہ سے زیادہ تھا۔ مگر سسٹم کے اندر بدعنوانی اس قدر زیادہ ہو گئی تھی کہ سسٹم کا پیٹ پھٹ گیا۔ جارج آرویل کی شہرہ آفاق کتاب ''اینیمل فارم‘‘ میں سوویت یونین کا اصل چہرہ دکھایا گیا ہے۔ پاکستان کا معاشرتی فیبرک تار تار ہو چکا ہے۔ طبقاتی تقسیم مکروہ حد تک خوفناک ہو چکی ہے۔ ریاست کی ترجیحات کسی اور طرف جا رہی ہیں۔ مسائل کا تقاضا کچھ اور ہے۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت عام ہے۔ سوشل میڈیا مسلک کی بنیاد پر زہر پھیلا رہا ہے۔ جہالت چاروں طرف رقص کر رہی ہے۔ جہالت ہی غربت کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ جہالت کی کئی اقسام ہیں۔ خطرناک ترین قسم وہ ہے جس میں پڑے لکھے لوگ جاہل ہوتے ہیں! ملک کو اندر سے خطرہ ہے۔ باہر کے خطرے کا سدباب تو ہم نے ایٹم بم بنا کر کر لیا۔ اندر کے خطرے سے کیسے نمٹیں گے؟
بریگیڈیئر ڈاکٹر شاہد رانا پرانے دوست ہیں۔ ان کے پاس ایک صاحب تشریف لائے‘ جن کی حالت ایسی تھی کہ انہیں سرجری کی سخت ضرورت تھی۔ ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگے ''مجھے تو بیٹا زبردستی لے آیا ہے‘ ورنہ پیر صاحب نے کہا تھا وہ ٹھیک کر دیں گے۔ کسی سرجری کی ضرورت نہیں‘‘۔ میرے ایک مرحوم دوست‘ جو اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ تھے‘ اپنے والد کو کراچی سے حیدرآباد لائے۔ حیدرآباد میں ایک حکیم صاحب تھے جو شوگر کا علاج شہد سے کرتے تھے۔ منع کیا‘ مگر نہ مانے۔ کچھ ہفتوں بعد فون کیا تو بتانے لگے کہ شہد سے پاپا کی طبیعت بہت بگڑ گئی تھی‘ آخر ہسپتال میں داخل کرانا پڑا! یہ ہے مائنڈ سیٹ کا پرابلم! کسی شہادت‘ کسی ثبوت‘ کسی تحقیق‘ کسی Evidence کے بغیر کسی کی بات مان لینا! یا اپنے ذہن میں ایک خیال بٹھا لینا اور اسے عالم گیر سچائی کا روپ دے دینا۔ مثلاً جو شخص بیٹی کی پیدائش پر غضبناک ہے اس سے پوچھئے کہ تم کس دلیل کی بنیاد پر بیٹی کے وجود کے مخالف ہو؟ بیٹی کا باپ ہونے میں کون کون سے نقصانات ہیں؟ دلیل سے بات کرو! غالباً وہ جواب دے گا کہ اس کی نسل بیٹے سے چلے گی تاکہ خاندان کا نام اور اس کا اپنا نام زندہ رہے۔ اس سے اس کے پردادا یا لکڑ دادا کا نام پوچھئے۔ اسے نہیں معلوم ہو گا۔ تو اگر بیٹا پیدا کرنے کے باوجود پردادا اور لکڑ دادا کا نام معدوم ہو چکا تو بیٹا اس کا نام کیسے زندہ رکھے گا؟ اگر پیر صاحب سرجری کے بغیر پروسٹیٹ کو ٹھیک کر دیں گے تو بہت اچھی بات ہے۔ صرف یہ ہے کہ اس کے لیے ثبوت چاہیے۔ کتنے لوگ اس تکلیف کے ساتھ پیر صاحب کے پاس آئے؟ ان میں سے کتنے پیر صاحب کی دعا یا تعویذ سے صحت یاب ہوئے۔ اس کا ریکارڈ دیکھنا ہو گا۔ پیر صاحب کے پاس آنے سے پہلے کا‘ اور صحت یاب ہونے کے بعد کا الٹرا ساؤنڈ دیکھنا ہو گا۔ پہلے پروسٹیٹ کا وزن کتنے گرام تھا اور بعد میں کتنا تھا۔ ایک نارمل اور سائنسی مائنڈ سیٹ اس تحقیق کے بغیر اور ریکارڈ دیکھے بغیر پیر صاحب کی روحانی قوت کو کبھی نہیں مانے گا۔ ہمارا قومی شعار یہ بن چکا ہے کہ ہم ہر سنی سنائی بات کو ثبوت دیکھے بغیر مان لیتے ہیں! اس جاہلانہ مائنڈ سیٹ کو سوشل میڈیا پر فارورڈ ہونے والے بے سروپا پیغامات نے مزید جاہل بنا دیا ہے۔ ہر شخص پرکھے بغیر ہر میسیج کو آگے چلا رہا ہے۔ آپ امریکہ یا یورپ کے بچے کو بھی کوئی بات بتائیں گے تو وہ Evidence مانگے گا۔ آپ مائنڈ سیٹ کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لوگ اسلامی شہد دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ اگر ان میں عقل ہوتی تو پوچھتے کہ کیا کوئی شہد غیر اسلامی بھی ہوتا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ایٹم بم کے بعد مراعات یافتہ طبقات بیرونی خطرات سے بے غم ہو کر‘ اس جاہلی‘ غیر سائنسی مائنڈ سیٹ کی مدد سے طویل حکمرانی کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ ایسا سوچ رہے ہیں تو تاریخ سے ناواقف ہیں! ہجوم گردی کل ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کر سکتی ہے جو سری لنکن منیجر کے ساتھ ہوا تھا!
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں