بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات کا وقت لیا ہے۔ کبھی کوئی خاص دقت پیش نہیں آئی۔ وزیروں سے‘ سفیروں سے‘ امیروں سے‘ بادشاہوں سے! زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ دو تین دن انتظار کرنا پڑا۔ مگر ایک شخصیت ایسی تھی جس سے اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش میں چھکے چھوٹ گئے۔ پہلے تو سراغ ہی نہیں مل رہا تھا کہ کس سے رابطہ کیا جائے۔ ہر شے پُراسرار تھی۔ شخصیت بہت بڑی مگر آہنی پردوں کے پیچھے! کئی صحافی دوستوں سے مدد مانگی۔ کوشش انہوں نے بہت کی مگر تھک ہار کر اظہارِ عجز کر دیا۔
پھر مجھے یہ محاورہ یاد آگیا کہ ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘۔ ایک پرانا بے تکلف دوست پولیس میں ملازم تھا۔ اس سے اظہارِ مدعا کیا۔ پہلے تو اس نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر میں نے جب پرانی دوستی کا واسطہ دیا تو کہنے لگا یار! معاملہ بہت خطرناک ہے۔ کسی کو معلوم ہو گیا کہ شیدے ڈاکو کا نمبر میں نے دیا ہے تو میری شامت آ جائے گی۔ اس پر مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا: کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کہ پولیس کی خاموشی یعنی ''نیم رضا‘‘ کے بغیر کوئی ڈاکا نہیں پڑ سکتا؟ پھر میں نے اسے آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔ یہ 2012ء یا 2013ء کی بات ہے۔ میں اسلام آباد کی سب سے زیادہ پُراسرار نواحی آبادی میں قیام پذیر تھا۔ اس مشہور و معروف آبادی کا نام بتانے کی ضرورت نہیں‘ جو لوگ وفاقی دار الحکومت اور اس کے حدود اربعہ سے واقف ہیں وہ اس آبادی کو بخوبی جانتے ہیں۔ دو گھر چھوڑ کر نسیم صاحب (یہ اصل نام نہیں)رہتے تھے۔ ان سے گھریلو تعلقات تھے۔ بہت شریف اور بھلے مانس آدمی تھے۔ ان کی بیگم صاحبہ اور وہ ہمارے پورے کنبے سے محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک رات ان کے گھر میں ایک گاڑی کھڑی تھی جو ان کی اپنی نہیں تھی‘ کسی دوست کی تھی۔ صبح اٹھے تو غائب تھی۔ متعلقہ تھانے والے آئے‘ روٹین کی کارروائی ہوئی۔ پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ نسیم صاحب کو بھی معلوم تھا کہ ان تلوں سے تیل نکلنے کا امکان صفر سے بھی کم ہے؛ چنانچہ چپ ہو رہے۔ وہ خاموش طبع انسان تھے۔ کسی سے اس نقصان کا انہوں نے ذکر ہی نہ کیا۔ ہم چونکہ قریبی دوستوں میں سے تھے اس لیے ہم سانحے سے آگاہ تھے۔ چند ماہ کے بعد انہیں ایک فون کال موصول ہوئی کہ گاڑی واپس لینی ہے تو علاقہ غیر میں فلاں مقام پر آ کر لے جائیے۔ انہوں نے فون کرنے والے سے پوچھا کہ تم کون ہو اور میرا نمبر تمہیں کس نے دیا ہے؟ فون کرنے والے نے کہا کہ زیادہ باتیں نہ کرو‘ گاڑی لینی ہے تو آجاؤ۔ نسیم صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ کسی سے مشورہ کیا نہ بتایا۔ ایک پٹھان دوست کو ساتھ لیا اور جو جگہ علاقہ غیر میں بتائی گئی تھی وہاں پہنچ گئے۔ وہاں ان دونوں (نسیم صاحب اور ان کے پٹھان دوست) کو اغوا کر لیا گیا۔ ایک خراب‘ ویران گھر میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ بالٹی کے جس پانی سے منہ ہاتھ دھوتے تھے‘ وہی پیتے بھی تھے۔ کئی کروڑ کا تاوان مانگا گیا۔ قصہ کوتاہ دونوں ساٹھ‘ ساٹھ لاکھ دے کر چھوٹے۔ اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فون کرنے والوں اور اغوا کرنے والوں کو کیسے علم ہوا کہ نسیم صاحب کی گاڑی چوری ہوئی تھی اور یہ ان کا فون نمبر ہے۔ عقل والوں کے لیے اس میں سبق اور نشانیاں ہیں!
میری لعن طعن سے تنگ آکر پُلسیے دوست نے آخر کار شیدے ڈاکو کا نمبر دے دیا۔ یہ نمبر شیدے کا اپنا نہیں تھا‘ اس کے کسی چمچے کا تھا جو یوں سمجھیے اس کا پی اے یا سٹاف تھا۔ بہر طور اسی کی زبانی وقت اور جگہ کا تعین کیا گیا۔ مقام ایک سیون سٹار ہوٹل کی لابی تھی اور وقت دوپہر کا مقرر ہوا۔ دوپہر کا سن کر مجھے عجیب سا لگا۔ میرے ذہن میں تھا کہ ڈاکو رات کے وقت کو ترجیح دے گا۔ میں لابی میں جا کر انتظار کرنے لگا۔ میں ایک ایسے شخص کی توقع کر رہا تھا جس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوں گی‘ پگڑی سے آدھا چہرا چھپایا ہوا ہو گا۔ بہت دیر کے بعد ایک صاحب میری میز پر تشریف لائے اور آہستگی سے کہا Sheeda here !میرے تو اسے دیکھ کر اوسان خطا ہو گئے۔ یہ ایک کلین شیوڈ‘ وجیہ نوجوان تھا۔ اچھا خاصا خوش شکل۔ خشک بالوں میں سلیقے سے کنگھی کی گئی تھی۔ اس نے جو پولو پہنی ہوئی تھی اس پر ''باس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس برانڈ کی پولو بُشرٹ نو‘ دس ہزار روپے سے کم نہ تھی۔ بہترین کوالٹی کی جینز کے نیچے اس کے پاؤں میں کلارک کے جوتے نظر آرہے تھے! وہ فصیح و بلیغ انگریزی میں گفتگو کر رہا تھا۔ مشروب کا پوچھا تو اس نے ''لاتے‘‘ کافی کا بتایا!!
کہنے لگا: سوالات کیجیے۔ لہجہ مہذب اور شائستہ تھا۔ میرا پہلا سوال تھا کہ اتنا پڑھ لکھ کر ڈاکے مارنے کا کام؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی! شیدے نے جھاگ والی لاتے کافی کا گھونٹ بھرا اور ہنسا! کہنے لگا: بے شمار دوسرے ڈاکو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان پر کوئی معترض نہیں ہوتا! مجھ پر کیوں؟ میں نے حیرت سے پوچھا کہ کون سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکو؟ وہ ایک بار پھر ہنسا۔ کہنے لگا: تحصیلوں اور کچہریوں میں جو رشوت سارا دن لی جاتی ہے کیا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تک نہیں پہنچتی؟ کیا یہ ڈاکے نہیں؟ ترقیاتی اداروں میں کیا اَن پڑھ لوگ بیٹھے ہیں؟ کسی ڈی سی‘ کسی پٹواری‘ کسی تحصیلدار‘ کسی کمشنر‘ کسی ایس پی کا ماہانہ خرچ معلوم کر لیجیے۔ پھر اس خرچ کا موازنہ اس کی ماہانہ تنخواہ سے کیجیے۔ میری جواب طلبی اس کے بعد کیجیے۔ میں نے کہا: دیکھو شیدے! تم جن کے گھروں سے کیش‘ گاڑیاں‘ زیورات اور ایل ای ڈی اٹھاتے ہو اور گھر والوں کو رسیوں سے باندھ کر انہیں لوٹتے ہو‘ وہ سب مجبور اور مظلوم لوگ ہیں۔ کیا ان پر تمہیں رحم نہیں آتا؟ شیدا پھر ہنسا! کہنے لگا: کالم نگار صاحب یا تو آپ خود بے وقوف ہیں یا مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں! جو زمین یا جائیداد کے انتقال کے لیے یا مکان کا نقشہ منظور کرانے کے لیے یا زرعی زمین کی گرداوری کے لیے یا گیس‘ بجلی کے کنکشن کے لیے اپنی خون پسینے کی کمائی معزز ڈاکوؤں کو پیش کرتے ہیں کیا وہ مجبور اور مظلوم نہیں؟ وہ بھی زنجیروں سے بندھے ہیں۔ صرف تمہیں وہ زنجیریں نظر نہیں آتیں! اور ہاں! تم میری خوش لباسی پر حیران ہوئے تھے۔ جو ڈاکٹر گردوں کا کاروبار کر رہے ہیں اور ضرورت کے بغیر دلوں میں سٹنٹ ڈال رہے ہیں اور سٹنٹ بھی جعلی ڈال رہے ہیں اور جو فزیشن سرجن سے بھی ''کَٹ‘‘ لیتے ہیں اور لیبارٹری والوں سے بھی‘ کیا وہ سوٹڈ بوٹڈ نہیں؟ کیا ان کی قمیضیں اور نکٹائیاں اعلیٰ برانڈز کی نہیں؟ اور کیا وہ بھی ڈاکو نہیں؟
شیدے نے کافی کا لمبا گھونٹ بھرا۔ پھر مجھ سے پوچھا: کیا تم بچے ہو؟ یا اندھے اور بہرے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کن کن کے گھروں میں‘ ملک کے اندر اور ملک سے باہر‘ کرنسی نوٹ گننے کی مشینیں موجود ہیں؟ مجھے معلوم ہے تم ایک ڈر پوک کالم نگار ہو۔ تم مجھے ڈاکو ثابت کرو گے مگر جو مجھ سے بڑے ڈاکو ہیں‘ ان کا نام کبھی نہیں لوگے! اورہاں! تم تو شاعر بھی ہو! کیا اقبال کی وہ نظم تم نے نہیں پڑھی جس کا عنوان ہے ''مسولینی اپنے مغربی اور مشرقی حریفوں سے‘‘۔ پھر شیدے نے اس نظم کی پہلی سطر سنائی: کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟
شیدے نے مجھے کافی کا بل نہیں دینے دیا۔ ایک درد ناک مسکراہٹ کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے اس نے کہا ''خدا کا شکر ہے میں ان ڈاکوؤں میں سے نہیں جو قومی خزانے پر ڈاکے ڈالتے ہیں‘‘۔