پبلک ڈیلنگ والے ایک بہت بڑے ادارے میں کام پڑ گیا۔ کسی دوسرے شہر کے ایک بے سہارا شخص کا کام تھا۔ ایک دوست نے اس کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس کے بعد کی داستان دلخراش ہے‘ دلدوز ہے اور دلگیر!
یہ ایک نیا زمانہ ہے۔ ایسا زمانہ کہ اس کا مثیل اس سے پہلے‘ ہزاروں لاکھوں سال میں نہیں آیا۔ یہ زمانہ ایک لفظ‘ صرف ایک لفظ‘ کے گرد گھومتا ہے۔ ایسا لفظ جس نے دنیا کا جسم‘ دنیا کی روح‘ دنیا کا دل‘ دنیا کا مزاج‘ دنیا کی شان‘ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے دنیا ایک جوہڑ تھی۔ اب ایک سمندر ہے۔ اس سے پہلے دنیا ٹکڑوں پر مشتمل تھی۔ اب ایک اکائی ہے۔ اس سے پہلے دنیا ایک چیستان تھی۔ اب ایک کھلی کتاب ہے۔ یہ لفظ جس نے سب کچھ کایا کلپ کر کے رکھ دیا ہے ''انفارمیشن‘‘ ہے۔ اب کوئی جھونپڑی میں‘ آلتی پالتی مار کر‘ فرشِ خاک پر بیٹھا ہے یا محل میں مسندِ زرّیں پر‘ امریکہ میں بیٹھا ہے یا افریقہ میں‘ انفارمیشن‘ ہر معاملے کی‘ ہر موضوع پر‘ اس کی مٹھی میں ہے۔ اندازہ لگائیے‘ ایک زمانہ تھا کہ کراچی سے چھپنے والا روزنامہ اسلام آباد میں شام کو اور ڈھاکہ میں دوسرے دن ملتا تھا۔ اب آپ نے ایک بٹن دبانا ہے اور واشنگٹن اور نیویارک سے لے کر کلکتہ تک کے اخبارات آپ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں! اب دنیا بھر میں‘ ہر ملک کے ہر ادارے نے‘ ہر محکمے نے‘ ہر وزارت نے‘ ہر کارپوریشن نے اپنے سارے ضابطے اور طریقے اور معلومات اپنی ویب سائٹ پر ڈال رکھی ہیں۔ فون نمبر موجود ہیں۔ ای میل ایڈریس سامنے ہیں۔ پروسیجر وضاحت سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ کون سے منصب دار نے کون سا کام کرنا ہے۔ کچھ ہفتے پیشتر‘ سکاٹ لینڈ کے ایک دور افتادہ قریے میں کام پڑ گیا۔ یہ قصبہ ایک خاص قسم کی پارچہ سازی کرتا ہے۔ دیے گئے ایڈریس پر ای میل کی۔ اگلی صبح‘ ابھی سورج نے کرنوں کو تقویت نہیں دی تھی کہ جواب آ گیا اور دو ہفتوں میں نمونے!
اس صورتحال میں کسی کا جائز کام کرانا کیا مشکل ہے۔ اور وہ بھی اتنے بڑے‘ باوقار‘ باحیثیت اور معتبر ادارے میں!! اس اطمینان بخش ذہنی حالت کے ساتھ ادارے کی ویب سائٹ کھولی۔ تمام متعلقہ عہدوں اور حلقوں کے رابطہ نمبر دیے ہوئے تھے۔ دل خوش ہو گیا۔ الحمدللہ پاکستان بھی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل رہا ہے۔ اس تشفّی آمیز حالت میں متعلقہ افسر کا نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جاتی رہی۔ سوچا تھوڑی دیر کیلئے کہیں گئے ہوں گے‘ ابھی آ جائیں گے۔ وقفے وقفے سے شام چھٹی کے وقت تک نمبر ملاتا رہا۔ فون اٹینڈ نہ ہوا۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اب ان کے نائب کا نمبر ملانا شروع کیا۔ وہ بھی نہ اٹھایا گیا۔ سہ پہر کو نائب کے نائب کا نمبر ملانا شروع کیا۔ وہاں بھی خاموشی تھی! مکمل خاموشی!! صبح کو سورج ابھرا تو اس کی شعاؤں میں نئی امید کی روشنی تھی۔ اب ایک اور ذمہ دار منصب کے سامنے دیا ہوا نمبر ملانا شروع کیا۔ یہ عمل کئی بار دہرایا گیا۔ جواب ندارد۔ اب ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ادارے کے سربراہ کی توجہ اس صورتحال کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی جائے۔ جدوجہد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ سربراہ کے میر منشی‘ سربراہ تک پہنچنے کی سیڑھی تھے۔ یہی اداروں کی Hierarchy ہوتی ہے جو ناگزیر بھی ہے۔ مگر یہاں یہ مسئلہ ہوا کہ میر منشی بھی رسائی سے بالا تھے۔ دو دن ان سے بات کرنے کی کوشش جاری رہی مگر بقول ذوق:
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
ادارے کا ٹیلی فون ایکسچینج بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ آخر مرتا کیا نہ کرتا۔ بادل نخواستہ ترکیب نمبر چھ آزمانا پڑی۔ تب جا کر سربراہ سے بات ہو سکی۔ بہت ادب کے ساتھ عرض گزاری کی اور جو تجربے ہوئے‘ بیان کیے۔ دست بستہ یہ درخواست بھی کہ اپنے ادارے کے نمبر کبھی خود بھی آزمائیے کہ بہترین فیڈ بیک یہی ہے۔
اب مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آ پڑی کہ اسی ادارے میں دو قریبی دوست بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ انہیں صورتحال معلوم ہوئی تو انہوں نے شکوہ کیا کہ جو بھی کام تھا‘ انہیں کیوں نہ بتایا۔ بلکہ اچھی خاصی کلاس لی اور خوب ٹِکا کر لی کہ اتنے پاپڑ بیلنے کے بجائے انہیں کہتے کہ‘ بقول ان کے‘ وہ وہاں کس لیے بیٹھے ہیں۔ اب کوئی دوست آپ کی کلاس لے‘ اور آپ ہی کے کام کے ضمن میں‘ تو‘ اصلاً یہ آپ کی خوش بختی ہوتی ہے۔ اس کلاس لینے میں دلسوزی ہوتی ہے اور محبت! جب توبیخ کرنے والا اور فہمائش کرنے والا کوئی نہ رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا خیر اندیش کوئی نہیں رہا۔ میری بڑی بہن جب بھی سرزنش کرتی ہیں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ماں باپ تو چلے گئے‘ خوش بختی ہے کہ یہ تو موجود ہیں۔ سایہ سلامت رہے۔ جب دوسرے آپ کے گھٹنے چھوکر ملیں اور آپ کسی کے گھٹنے نہ چھو سکیں تو سمجھ جائیے کہ یہ شگون اچھا نہیں!
مگر اَحِبّا کو کون سمجھائے کہ دوستوں کو کبھی ایسی تکلیف نہیں دی جو ان کے منصب اور ان کے مقام سے فروتر ہو۔ ایسا کام کہنا جو ان کی حیثیت سے ہم آہنگ نہ ہو‘ گناہ بے لذت والا معاملہ ہے۔ توپ سے تتلی مارنا بدذوقی ہے۔ یوں بھی اپنا اصول یہ ہے کہ ؎
ہزاروں ہیں کبھی تعداد کم ہونے نہیں دی
کہ ہم نے دوستوں کو آزمایا ہی نہیں ہے
( بقلم خود)
بچپن میں جب عربی پڑھانے کی (ناکام؟) کوشش کی جا رہی تھی تو ایک دعا بھی پڑھائی گئی تھی جو آج تک یادداشت پر کَندہ ہے۔ یا رَبِّ لا تَضطَرَّنی الیٰ امتحانِ اَصدِقائی لِاَنَّ اَنَا لا اُرِیدُ اَنْ اَفْقَدَ واحِداً مِنْہُم۔ اے اللہ! مجھے میرے دوستوں کا امتحان لینے پر مجبور نہ کیجیو کیونکہ میں اُن میں سے کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتا!
بات قومی مسئلے سے ذاتی حکایت کی طرف مُڑ گئی۔ یہ ایک ادارے کا حال نہیں‘ اس سے پورے ملک کے تمام شعبوں کا قیاس کیجیے۔ زخم اتنے ہیں کہ روئی کم پڑ جائے گی۔ آئی ٹی‘ جس نے باقی دنیا کو خودکار کر دیا ہے‘ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ دوسرے ملک انسانی رابطے (Human Contact) سے جان چھڑا رہے ہیں‘ فون سے یا ای میل سے یا ویب سائٹ سے کام ہو رہے ہیں۔ ہم ہر کام کے لیے کسی نہ کسی افسر‘ کسی نہ کسی اہلکار‘ کسی نہ کسی انسانی رابطے کے محتاج ہیں۔ سفارش کا کلچر اسی لیے ختم نہیں ہو رہا۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو خدا تک بھی براہِ راست نہیں پہنچنا چاہتے۔ وہ لاکھ کہے ''ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں‘‘ ہم پھر بھی سیڑھی کی تلاش میں رہتے ہیں! تفصیل ان سیڑھیوں کی ہم سب جانتے ہیں!
اب یہی سوچا ہے کہ کسی کا کام خود کو سونپا ہی نہ جائے۔ بندہ کب تک ٹھوکریں کھاتا رہے اور طمانچے سہتا رہے۔ موسم آئیں گے‘ موسم جائیں گے۔ رُتیں بدلتی رہیں گی! مگر اس باغ کی حالت یہی رہے گی۔ یہاں پھول پژمردہ اور نہریں خشک ہی رہیں گی۔ بہار وخزاں‘ یہاں‘ سب یکساں ہیں! یہاں شاخوں پر بوم ہی نظر آئیں گے اور روِشوں پر چہل قدمی کرتے اُود بلاؤ! نصف صدی پہلے جب منیر نیازی نے کہا تھا کہ ع حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ! تو وہ صورتحال تو غنیمت تھی۔ اب تو حرکت مکمل جمود میں بدل چکی ہے اور سفر خیال و خواب ہو چکا۔ اب تو پوری قوم گُل محمد بن چکی ہے جو جنبش کا نام ہی نہیں لے رہی! ہم جیسوں کیلئے ایک ہی راہِ فرار ہے۔ دشت اور گلّہ بانی!!