ناشائستہ لوگ گھروں میں گھس آئے ہیں! اور المیہ یہ ہے کہ گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے!
جس قماش کے لوگوں کو ہم شرفا گلی میں سلام نہیں کرتے تھے‘ ان سے کوئی بات نہیں کرتے تھے‘ اپنے بچوں پر جن کا سایہ نہیں پڑنے دیتے تھے‘ جنہیں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم سے کلام کریں‘ وہ ہمارے دالانوں‘ خوابگاہوں یہاں تک کہ زنان خانوں میں آ گئے ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!!
آپ کا کیا خیال ہے جو شخص پکے جواریوں اور نشے کے عادی مجرموں کی طرح سگرٹ کا سوٹا ایک خاص انداز میں لگاتا ہے‘ وہ آپ کے گھر میں داخل ہو کر‘ آپ کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ سکتا ہے؟ آپ یہ سن کر لاحول پڑھیں گے۔ مگر وہ تو آپ کے ڈرائنگ روم ہی میں نہیں‘ آپ کے بیڈ روم میں بیٹھا ہے! افسوس! صد افسوس! ریٹنگ کے راتب اور ڈالر کی ہڈی کے لیے چند اینکر ایسے غیر مہذب افراد کو پروگراموں میں بلاتے ہیں! تین حرف ایسی ریٹنگ پر! اور ایسے ڈالروں پر!! ثقافت کی کرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن کے اصل ٹھکانوں کے نام بھی شرفا کے گھروں میں نہیں لیے جاتے تھے اور اب یہ اُس جسم کے ساتھ جو زمین پر بوجھ ہے اور اس زبان کے ساتھ جو کاٹ دینی چاہیے‘ شرفا کے گھروں کے اندر‘ پورے کے پورے براجمان ہیں! واہ رے سکرین!! تُو نے بھی کیا دن دکھائے ہیں!!
مثالیں تو بہت ہیں۔ مگر دو تو سو فیصد منطبق ہو رہی ہیں۔ اندھوں کے ایک گروہ کو ہاتھی ملا تھا۔ جس کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا‘ اس نے کہا: ہاتھی دستی پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ جس نے اس کی ٹانگ کو ٹٹولا‘ اس نے کہا: ہاتھی ستون جیسا ہے۔ اسی طرح ہر اندھے نے اپنی اپنی ''تحقیق‘‘ سے آگاہ کیا۔ دوسری مثال وہی پامال شدہ لطیفہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے گھر بچہ پیدا ہوا۔ انہوں نے اسے چوم چوم کر مار دیا۔ سوشل میڈیا پر ہم بحیثیت قوم‘ یوں ٹوٹ کر گرے ہیں جیسے ''کفار‘‘ نے یہ خاص ہمارے لیے ہی ایجاد کیا ہے۔ مسلکی اختلافات اجاگر کرنے والوں کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ ایک صاحب تو برملا کہتے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں۔ پہلے اختلافی مسائل پر بحث مسجدوں اور امام بار گاہوں کی چار دیواریوں کے اندر ہوتی تھی۔ ان اجتماعات میں صرف وہی لوگ شریک ہوتے تھے جنہیں ان مسائل میں دلچسپی تھی اور علم بھی رکھتے تھے۔ یہ ایک دوسرے سے بات ادب واحترام سے کرتے تھے۔ اب یہ مسائل سوشل میڈیا کے ذریعے جہلا تک پہنچ گئے ہیں۔ علما تو آج بھی خندہ پیشانی سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں مگر جاہل معتقدین کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا ہے۔ ہر تیسرا چوتھا کلپ مسلکی تفریق کا ہے۔ فارورڈ کرنے کا جنون ہے جو چاروں طرف رقص کر رہا ہے۔ ایک صاحب کی تلقین ہے کہ چار چار شادیاں کرو کہ امت مسلمہ کی تعداد بڑھے۔ اس پیغام کو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ اتائیوں کی الگ چاروں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں۔ فیس بک ہے یا یوٹیوب‘ ہر بیماری کے شرطیہ علاج کا دعویٰ موجود ہے۔ ''نوے سال تک شوگر کنٹرول میں رہے گی۔ جوڑوں کا درد ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ۔ شوگر‘ گردے‘ معدہ‘ جگر سب ٹھیک۔ مرتے دم تک شوگر نہیں ہو گی۔ بیاسی سال کی عمر میں فِٹنس چاہتے ہو تو یہ دوا کھا لو‘‘۔ اس قسم کے سینکڑوں اعلانات عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں! کوئی پابندی ہے نہ ایکشن!! کسی زمانے میں دیواروں پر حکیم حضرات کے اشتہار لکھے جاتے تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ پشاور سے کراچی تک سفر کر کے دیکھ لیں‘ پاکستان میں کوئی مرد تندرست نہیں ہے۔ اب یہی تاثر سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ ایک اور طبقہ عبادات کا پرچار کرتا ہے۔ احرام باندھنے سے لے کر‘ ایئرپورٹ پہنچنے تک‘ طواف سے لے کر واپسی تک‘ ایک ایک مرحلے کی تشہیر کی جاتی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ اذیت اس وقت ہوتی ہے جب اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے سکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس طاقتور طبقے کی دسترس الیکٹرانک میڈیا تک بھی ہے اور سوشل میڈیا تو ویسے ہی ان کا زر خرید غلام ہے۔ یہ لوگ مذہب میں بھی منہ مارتے ہیں۔ اگر یہ ڈرامہ لکھتے ہیں تو اس کا بھی‘ بقول ان کے‘ اوپر سے الہام ہوتا ہے۔ پھر جب قدرت کی لاٹھی ان کے چہروں سے نقاب نوچتی ہے تو یہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں! یہ اور بات کہ یہ خود اس بدنامی سے سبق نہیں سیکھتے۔ اس قبیل کے افراد کو شہرت چاہیے خواہ بدنامی کے راستے ہی سے ملے۔
سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک گُر یہ بھی ہے کہ خواتین پر نام نہاد دانشورانہ حملے کیے جائیں۔ کامن سینس کی بات ہے کہ سب مرد اچھے نہیں اور سب مرد بُرے بھی نہیں! اسی طرح خواتین اچھی بھی ہیں اور بُری بھی! مگر تعمیم (Generalisation) کر کے تمام خواتین کی تنقیص کرنا نرم ترین لفظوں میں بھی جہالت ہے۔ انسانوں کی اکثریت‘ مرد ہوں یا عورتیں‘ ہمیشہ سے اچھی رہی ہے۔ تمام خواتین اینکرز کے لیے‘ بلاامتیاز‘ جس سوچ کا اظہار کیا گیا ہے اور جس زبان کا استعمال کیا گیا ہے‘ وہ قابلِ مذمت ہے! یہ خواتین ہماری ہی بہنیں اور بیٹیاں ہیں! ان کی عزت ہماری عزت ہے۔ ان میں بہت ٹیلنٹڈ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے اور فخر ہونا چاہیے! ایک خاص مائنڈ سیٹ جو جہالت کا شاخسانہ ہے‘ تعلیم یافتہ‘ بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین سے الرجک ہے۔ انہیں اچھا نہیں سمجھتا۔ ایسے مرد‘ اور ان مردوں کو میڈیا پر لانے والے مرد‘ نفسیاتی طور پر بیمار ہیں اور شدید احساسِ کمتری کا شکار! ملازمت پیشہ خواتین میں اچھی خاصی تعداد ایثار کرنے والی خواتین کی ہے جو اپنے بیمار اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا ہیں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کرتی ہیں! میں ایسی کئی بچیوں کو جانتا ہوں جن کے سب بھائی بیرونِ ملک سدھار گئے اور وہ ماں باپ کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر ہے۔ اس نے ماں کے گھٹنوں کی سرجری کرائی اور باپ کے دل کا علاج کرایا۔ ایک وکیل ہے اور اس نے بیمار ماں کی رات دن خدمت کی۔ ایک دفتر میں کلرک ہے جبکہ اس کا میاں بیمار ہو کر بستر سے جا لگا ہے اور وہ پورے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ میں ایک ایسی خاتون کو جانتا ہوں جس کا میاں افغانستان ''جہاد‘‘ کے لیے گیا اور واپس نہ آیا۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں۔ وہ ایک ادارے میں نائب قاصد لگ گئی۔ اس نے محنت مزدوری کر کے چاروں بیٹیوں کو پڑھایا۔ ان میں سے ایک آج ہیڈ مسٹریس ہے‘ دو پروفیسر ہیں‘ ایک پولیس افسر ہے اور اب ماں اس کے پاس رہتی ہے۔ عورت کی تذلیل کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انہیں ایک عورت ہی نے جنم دیا اور پال پوس کر بڑا کیا۔ حیرت ہے کہ اس قماش کے نام نہاد دانشور اپنے کنبے اور اپنے خاندان کی خواتین کا کیا احترام کرتے ہوں گے۔ ایدھی مرحوم‘ بیگم بلقیس ایدھی کے بغیر اتنا بڑا کام کیسے کر سکتے تھے؟ ڈاکٹر رتھ فاؤ جس نے پاکستان سے جذام کا خاتمہ کیا‘ ایک عورت ہی تھی۔ مدر ٹریسا بھی عورت ہی تھی! ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی شخص‘ بقائمی ہوش و حواس خواتین کے بارے میں ایسی گفتگو کر سکتا ہے؟
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں!!