اندازہ لگائیے۔ وزیراعظم اور صدرِ مملکت کے دفاتر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر‘ وفاقی دارالحکومت سے ایک بزنس مین اغوا ہوتا ہے۔ پولیس کے ہاں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ بزنس مین ایک مہینہ کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ رہائی کے لیے آٹھ کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ رہائی میں پولیس کا کوئی حصہ نہیں۔ میڈیا کی رپورٹ کی رُو سے یہ رہائی ''جرگے‘‘ نے دلوائی۔ حکومت نے‘ جو عوام کے جان و مال کی ذمہ دار ہے‘ کچھ نہیں کیا۔ یہ خبر محض نمونے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ ورنہ ملک میں چوری‘ ڈاکا زنی‘ اغوا برائے تاوان عام ہے۔ گاڑی‘ موٹر سائیکل‘ زیور‘ جان‘ کچھ بھی‘ کہیں بھی محفوظ نہیں!
اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے۔ اس وقت پاکستان‘ اپنی سرحدوں کے اندر‘ دو پاکستانوں میں بٹ چکا ہے۔ پہلا پاکستان‘ یوں سمجھیے‘ فرسٹ ورلڈ ہے۔ یہ کھیل کے ایک وسیع میدان کی طرح ہے۔ اس میدان میں پانچ کھلاڑی کھیل رہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں کے نام ہیں مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ پی ٹی آئی‘ جے یو آئی اور ان کے علاوہ ایک اور‘ پانچواں کھلاڑی! ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں! دور دور کا بھی نہیں! یہ سب لوگ کروڑ پتی‘ ارب پتی بلکہ کچھ تو کھرب پتی ہیں۔ ان کی اپنی دنیا ہے۔ یہ لوگ بازار سے خود سودا سلف نہیں خریدتے۔ ان کے بچوں کے سکول‘ کالج‘ ان کے ہسپتال‘ ان کی تفریح گاہیں‘ سب الگ ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے امرا کی بھی ایک کلاس جڑی ہوئی ہے۔ اس کلاس میں اَپر کلاس عدلیہ‘ سول اور خاکی بیورو کریسی کے بالائی حصے‘ ٹاپ کے جاگیردار‘ بلوچستان کے سردار‘ صنعت کار‘ بینکوں کے مالکان اور ٹریڈرز شامل ہیں۔ یہ سارے اُس پاکستان کا حصہ ہیں جو فرسٹ ورلڈ کی طرح ہے۔ انہیں عوام کی مشکلات‘ اذیتوں‘ مسائل اور دکھوں کا کوئی آئیڈیا ہی نہیں! چونکہ آئیڈیا نہیں اس لیے احساس بھی نہیں! زندگی کیا ہے‘ اور اس کی گہری‘ ناقابلِ عبور گھاٹیاں کتنی خوفناک ہیں‘ انہیں کچھ معلوم نہیں! نواز شریف صاحب‘ زرداری صاحب‘ شہباز شریف صاحب‘ حمزہ شہباز صاحب‘ بلاول بھٹو صاحب‘ مریم بی بی‘ مولانا صاحب‘ چودھری صاحبان‘ چودھریوں کے فرزندانِ کرام‘ عمران خان صاحب‘ ڈار صاحب‘ ترین صاحب‘ علیم صاحب‘ پی ٹی آئی کی ٹاپ براس‘ ان تمام پارٹیوں کے ٹاپ کے عمائدین‘ وزرا‘ ان میں سے کسی کو بھی آئیڈیا نہیں کہ یو پی ایس کی بیٹریاں کتنے میں آتی ہیں؟ گیس اور بجلی کا کنکشن کیسے ملتا ہے؟ ہسپتالوں میں دوا کیسے ملتی ہے؟ مکان بنوانا ہو تو نقشہ کیسے اور کیا دے کر منظور کرانا ہوتا ہے؟ پاسپورٹ بنوانے میں کتنی ذلت اٹھانا پڑتی ہے؟ بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کتنے پھیرے لگانا پڑتے ہیں؟ سبزی اور گوشت خریدتے ہوئے دل پر کیا گزرتی ہے؟ دوائیاں کتنی مہنگی ہیں؟ تھانوں میں کس کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے! پٹواری اور تحصیل دار سے ملاقات کتنی مشکل ہے؟ بجلی اور گیس کے بل کس طرح بچوں کا پیٹ کاٹ کر ادا کیے جا رہے ہیں؟ ان کے پاکستان میں یہ سارے سوال مضحکہ خیز ہیں۔ ذرا یہ معلوم کرنے کی کوشش تو کیجیے کہ اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں ہر نئی کابینہ آنے پر صرف ''مرمت اور تزیین و آرائش‘‘ پر (اصل لفظ تزیین ہے‘ تزئین نہیں) کتنے کروڑ اور کتنے ارب روپے سرکاری خزانے سے لگتے ہیں؟ پولیس کے انسپکٹر جنرلوں‘ کمشنروں‘ جرنیلوں کی سرکاری قیام گاہوں پر ہر سال قومی بجٹ کا کتنا حصہ اٹھ جاتا ہے؟ جو آمر یہاں حکومت کرتے رہے‘ ان کی نسلیں کس معیار کی زندگی گزار رہی ہیں؟ یہ سب پہلا پاکستان ہے۔ یوں سمجھیے یہ پاکستان امریکہ ہے یا سوئٹزر لینڈ! یا سیون سٹار ہوٹل ہے! یہاں زندگی لگژری‘ تعیش‘ آرام اور سہولت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کینیڈا‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ آئر لینڈ‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ جرمنی‘ فرانس اور برطانیہ کے حکمران‘ اس پہلے پاکستان کے اکثر اراکین کے معیارِ زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ تو غلط نہ ہو گا!
رہا دوسرا پاکستان تو وہ 90‘ 95 فیصد پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ رِینگ رِینگ کر‘ اپنے آپ کو گھسیٹ گھسیٹ کر‘ سسک سسک کر‘ بلک بلک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے گھر ڈاکا پڑ جائے‘ چوری ہو جائے‘ ان کی گاڑی یا موٹر سائیکل اٹھا لی جائے تو کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔ جس بزنس مین کے اغوا کا ذکر آغاز میں کیا ہے‘ وہ ایک ماہ کے بعد کروڑوں دے کر رہا ہوا ہے۔ کیا وزیراعظم یا وزیر داخلہ‘ پولیس کے مدار المہام سے جواب طلبی کریں گے؟ نہیں کبھی نہیں! یہ ان حضرات کا مسئلہ ہی نہیں! کمرشل سنٹر سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی شہر کا گنجان علاقہ ہے۔ وہاں سے پورا خاندان اغوا ہو گیا۔
وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ملک آٹو پر چل رہا ہے تو درست کہا ہے۔ سیاستدان‘ سب مل کر‘ کئی سال سے جو تیرہ تالی کھیل رہے ہیں‘ اور اقتدار لینے کے لیے‘ یا لیا ہوا اقتدار بر قرار رکھنے کے لیے‘ گھمسان کی جو لڑائی لڑ رہے ہیں‘ اس میں عوام کی فکر تو کیا‘ عوام کے ذکر کی بھی گنجائش نہیں! عدالتیں انہی اصحاب کے مقدموں میں مصروف ہیں۔ جیلوں میں بند لاکھوں افراد فیصلوں کے منتظر ہیں مگر اقتدار کے یہ کھلاڑی عدالتوں کو سانس ہی نہیں لینے دے رہے!
اس ملک کو ذلت و ادبار سے نکالنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے اور بڑے فیصلوں کی۔ زرعی اصلاحات بھارت نے تقسیم کے چار سال بعد کر لی تھیں۔ ہمارے ہاں پتھر کے زمانے کا سرداری اور جاگیردارانہ نظام بدستور موجود ہے۔ تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہر سال بے تحاشا بی اے‘ ایم اے‘ ایم بی اے نکل رہے ہیں‘ جیسے برسات میں پتنگے نکلتے ہیں۔ کوئی ایسا سسٹم موجود نہیں جس کے تحت وہ مضامین پڑھے پڑھائے جائیں جن کی ملکی معیشت کو ضرورت ہے۔ ٹریفک کی لاقانونیت ختم کرنے کے لیے پولیس کی اوور ہالنگ چاہیے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے بلند پایہ صنعتی پالیسی درکار ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے حکومت کے پاس ان بنیادی فیصلوں کے لیے قابلیت موجود ہے؟ یہاں سارا نظام‘ اگر اسے نظام کہا جا سکتا ہے تو‘ حریفوں کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ ترجیحات میں ملک ہے نہ ملک کے عوام! سوال یہ ہے کہ حکومت ہے کہاں؟ اگر حکومت موجود ہے تو ڈاکے‘ چوریاں‘ اغوا برائے تاوان کو کیوں نہیں ختم کرتی؟ کیا پارلیمنٹ میں کوئی سوال اٹھائے گا کہ اسلام آباد میں ہر روز کتنی گاڑیاں‘ کتنے موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں؟ کتنے ڈاکے پڑ رہے ہیں؟ کسی بھی دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ صرف بڑے بڑے شہروں میں ہونے والی وارداتوں سے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ انارکی ہے! مکمل انارکی! رشوت اور سفارش کے بغیر پَتّا بھی نہیں ہلتا۔ چار چار لاکھ روپے زمین کی گرداوری کے لیے مانگے جا رہے ہیں۔ زرعی زمین میں ٹرانسفارمر لگوا کر دیکھ لیجیے۔ زن بچہ کولہو میں پِس جائے گا۔
اور تو اور! اس ملک کی تو سرحدیں ہی نہیں ہیں! ایران کی سرحد پر کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا؟ مغربی سرحد کا وجود ہی نہیں! ملک میں لاکھوں غیرملکی دندناتے پھر رہے ہیں۔ کسی کو پروا ہے نہ فکر! افغانستان گلے میں پھانس بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری افغان پالیسی کیا ہے؟ کسی کو معلوم ہے تو ازراہِ کرم بتا دے! ذرا ڈالر کے مقابلے میں افغانی کی قدر دیکھیے اور پھر روپے کی! دیکھنے کے بعد چُلو بھر پانی کی ضرورت پڑے گی! جس مقدس طبقے اور جن مقدس ہستیوں کی ڈیوٹی ہے کہ روپے کی قدر کو پاتال سے اٹھائیں‘ انہیں اس سے کچھ فرق ہی نہیں پڑتا کہ ڈالر کتنا مہنگا ہے! ملک کیسے چل رہا ہے؟ شاید جون ایلیا کا یہ شعر سمجھا سکے:
ہم ہیں یہاں سے جا رہے جانے کہاں ہیں جا رہے
خیر جہاں ہیں جا رہے بس یہ سمجھ وہاں چلے