2005ء میں میری نواسی زینب پیدا ہوئی۔ یہ میری پہلی گرینڈ کِڈ تھی۔ (اُردو میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو پوتوں پوتیوں‘ نواسوں نواسیوں یعنی سب کے لیے استعمال کیا سکے)۔ یہ چند ماہ کی تھی کہ اپنی جنم بھومی امریکہ سے واپس آگئی۔ اس کے بعد زیادہ تر ہمارے (یعنی نانا نانو کے) پاس ہی رہی۔ یہ عجیب و غریب تجربہ تھا۔ معلوم ہوا کہ زندگی کا یہ مرحلہ باقی تمام مراحل سے مختلف ہے۔ زیادہ شیریں‘ زیادہ پُرکشش! اُن دنوں میں وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری ( برائے دفاع) تھا۔ شام کی تمام مصروفیات منسوخ کرکے سارا وقت زینب کے ساتھ گزارتا۔ شام پارکوں اور باغوں میں گزرتی۔ بچپن ہی سے رات کے مطالعہ کی عادت تھی۔ وہ عادت بھی ہوا ہو گئی۔ کہانیاں گھڑنے اور سنانے کا اپنا مزا تھا۔ کہانی سنانے کے دوران زینب کے عجیب و غریب سوالات ذہن کی پرتوں کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتے۔ پھر اللہ نے دو نواسے عطا کیے۔ 2010ء میں میلبورن میں پہلے پوتے کا ورود ہوا جو وہاں رہتے ہوئے بھی اردو اور پنجابی روانی سے بولتا ہے۔
ان بچوں کے فراق کے مراحل آئے تو یہ تجربہ جاں گسل تھا۔ کبھی بچے سفر کرکے دور چلے جاتے۔ کبھی مجھے سفر درپیش ہوتا اور ان سے دور جانا پڑتا۔ فراق کے درد کو کم کرنے کے لیے‘ اور کتھارسس کے لیے اس موضوع پر لکھنا شروع کر دیا۔ پہلا کالم شاید وہ تھا جس کا عنوان ''ٹُر گیا ماہیا‘‘ تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ یہ کالم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اردو دان نانیوں‘ دادیوں اور بابوں میں مقبول ہوئے۔ فیڈ بیک ملنے لگا ایسا کہ حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور اس موضوع پر لکھنے کی مزید تحریک بھی! جو موضوع ذاتی حوالے سے چنا تھا وہ بے حد مقبول ہوا۔ انسان جس مذہب کا ہو‘ جس رنگ کا ہو اور جس نسل سے ہو‘ بچوں کے بچوں سے والہانہ اور بے پناہ محبت کرتا ہے۔ دادا دادی‘ نانا نانی مشرق کے ہوں یا مغرب کے‘ چینی ہوں یا امریکی‘ سفید فام ہوں یا سیاہ فام‘ بچوں کے بچے ان کے گہرے دوست ہوتے ہیں۔ یہ دو طرفہ دوستی فطری ہے۔ صرف گرینڈ پیرنٹس (Grandparents) بچوں کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح بوڑھوں کی باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت بچے دیتے ہیں۔ شاید یہ واقعہ پہلے بھی شیئر کیا ہے۔ کینیڈا کے ایک ریستوران میں ایک سفید فام عمر رسیدہ خاتون دس بارہ سال کے ایک بچے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ بچہ کچھ کھا رہا تھا اور وہ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس سے پوچھا :پوتا ہے یا نواسا؟ کہنے لگی: نواسا۔ میں نے کہا کہ ہم پر الزام ہے کہ ہم بچوں کو بگاڑتے ہیں۔ کہنے لگی: ہاں! ہم بگاڑتے ہیں! اور بگاڑیں گے! یہی ہمارا کام ہے۔ اس لیے کہ ہم Grandparents ہیں!
بات اُن تحریروں کی ہو رہی تھی جو بچوں کے بچوں کے بارے میں لکھیں۔ کچھ عرصہ سے بہت سے دوست تقاضا کر رہے تھے کہ اس موضوع پر جتنی تحریریں ہیں‘ یکجا کر دی جائیں ۔ اسی طرح جو تحریریں گاؤں اور گاؤں کی بھولی بسری زندگی پر لکھیں‘ وہ بھی اُن احباب کے لیے بیک وقت تسکین اور ناسٹلجیا کا باعث بنیں جو دور دراز دیسوں میں رہتے ہیں۔ گاؤں کی جو زندگی ہماری عمر کے لوگوں نے دیکھی اور گزاری‘ آج کے گاؤں میں وہ ملتی بھی نہیں۔ سو یہ دہرا ناسٹلجیا ہے۔ سالہا سال اپنی مٹی سے دور زندگی گزارنے والے ان قارئین کا مطالبہ تھا کہ یہ تحریریں کتاب کی صورت یکجا کر دی جائیں۔ چنانچہ فیصلہ یہ کیا کہ ایک ہی کتاب اس طرح ترتیب دی جائے کہ پہلا حصہ ان تحریروں پر مشتمل ہو جو گرینڈ کِڈز کے حوالے سے لکھی گئی ہیں اور دوسرے حصے میں گاؤں کی زندگی پر لکھی گئی تحریریں شامل کی جائیں۔ اس فیصلے سے عزیزم امر شاہد (بُک کارنر) کو مطلع کیا تو انہوں نے اس پلان کی مکمل پذیرائی کی اور فوراً شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف میرا آسٹریلیا کا سفر سر پر تھا۔ گنے چنے چند دن رہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آسٹریلیا سے واپسی پر اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ مگر امر شاہد نے کہا کہ جانے سے پیشتر مسودہ مکمل کر کے دے دوں۔ کچھ تحریریں پہلے سے کمپوزڈ تھیں‘ کچھ امر نے فوراً کمپوز کرائیں۔ درمیان میں ایک پروف ریڈر بی بی نے سیاپا ڈالا۔ اس نے پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ مسودے کی اصلاح کا بیڑہ بھی اٹھا لیا۔ مصنف کی خوب خوب ''غلطیاں‘‘ نکالیں اور کتاب کو حشو و زوائد سے بھر دیا۔ میں نے ہمت ہار دی کہ اب جانے سے پہلے تکمیل مشکل ہے۔ مگر امر نے ہمت کی اور بی بی کی‘ کی ہوئی ''اصلاح‘‘ سے مسودے کو پاک کیا۔ دو تین دن میں فائنل نظر ثانی کرکے مسودہ بھجوا دیا۔ اب ٹائٹل کا مسئلہ درپیش تھا۔ اب تک چھپنے والی کتابوں میں سے زیادہ تر کے ٹائٹل عزیزم ڈاکٹر اسرارالحق نے بنائے تھے یا ان کی چھوٹی بہن‘ یعنی میری بیٹی نے۔ اب ایک ایسا سرورق چاہیے تھا جس میں بچہ بھی ہو اور گاؤں بھی! ان دونوں نے مل کر ایک ایسی تصویر ڈھونڈ نکالی جس میں میرا پوتا حمزہ‘ گاؤں کے ایک کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے۔ کمرہ کچھ کچھ شکستہ ہے‘ بالکل ایسا جیسے گاؤں میں ہوتے ہیں۔ بچے کا چہرا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس کا منہ دوسری طرف ہے۔ اس تصویر کو عزیزم امر نے ٹائٹل میں اس مہارت سے سمویا کہ یہ ایک بہت پُر کشش ٹائٹل ثابت ہوا اور متعدد نامور ادیبوں نے اسے سراہا! دوست گرامی پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر نے کتاب کو تقریظ سے نوازا۔ جیسے ہی کتاب کی ساری تیاریاں مکمل ہوئیں‘ میں آسٹریلیا آ گیا۔ میرے آنے کے تقریباً تین ہفتے بعد یہ کتاب ''سمندر، جزیرے اور جدائیاں‘‘ چھپ کر آگئی۔ گویا‘ ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے۔ یہ اس فقیر کی پہلی کتاب ہے جو غیر حاضری کے دوران منظر عام پر آئی۔ اس میں مصنف کا کمال کم اور پبلشر کا کمال زیادہ ہے۔ میرے خیال میں کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ لکھا ہے‘ محفوظ ہو جائے۔ آگے کتاب اور مصنف کے بھاگ۔ پڑھنے والے کتاب کو پسند کر لیں اور خدا ان کے دلوں میں مصنف کی محبت بھی ڈال دے تو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسے اپنا کمال نہیں سمجھنا چاہیے۔ صرف اور صرف پروردگار کا کرم سمجھنا چاہیے۔ ورنہ ایک سے بڑھ کر ایک کتاب بازار میں موجود ہے۔ بڑے بڑے لائق فائق حضرات کی تصانیف پڑی ہیں۔ عجز اختیار کرنا چاہیے اور برکت کی دعا کرنی چاہیے۔
آسٹریلیا میں موسم سرد ہے۔ تیز ٹھنڈی ہوا اتنے زور سے چلتی ہے کہ دھوپ میں بیٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ واک کے علاوہ مشاغل دو ہی ہیں۔ لکھنا پڑھنا اور بچوں کے ساتھ‘ ان کا نہیں‘ اپنا وقت گزارنا۔ ہم یہاں آئے تو سات سالہ سالار نے ایک خوبصورت کارڈ دیا۔ اس پر لکھا تھا: Dear grandpa and grandma Thank you for coming. I do not want you to go back to Pakistan. کہ ''دادا جان اور دادی جان! آپ کے آنے کا شکریہ! میں نہیں چاہتا کہ آپ واپس پاکستان جائیں!‘‘ کل شام ہم نے یہاں ایک چھوٹا سا پاکستان بنایا۔ یارِ دیرینہ‘ خالد مسعود خان‘ ایک ہفتے کے لیے میلبورن میں ہیں جہاں وہ اپنی دخترِ نیک اختر سے ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے غریب خانے کو تشریف آوری سے نوازا۔ میلبورن کے ادب دوست حضرات بھی موجود تھے۔ خالد مسعود وقت کے ابنِ بطوطہ ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری تو چار دانگ عالم میں مشہور ہے ہی‘ گفتگو بھی اتنی خوبصورت کرتے ہیں جیسے کرنیں بکھیر رہے ہوں!
اس خارزارِ درد میں احباب کا وجود
اس دھوپ میں ہیں چھاؤں کے ٹکڑے لگے ہوئے!