"MTH" (space) message & send to 7575

عبث ہے شکوہ تقدیرِیزداں!!

قویٰ مضمحل ہو گئے تو حلب کا فلسفی شاعر۔ ''رسا لہ غفران‘‘ اور ''لزومات‘‘ ایسی شہرہ آفاق تصانیف کا بینائی سے محروم خالق ابوالعلا مُعرّی چارپائی سے لگ گیا۔
عقیدت مند گھبرا کر طبیب کو بلا لائے‘ یخنی پلائے جانے کا مشورہ ملا۔
عمر بھر ساگ پات پر گزاراکرنے والے معری کے لیے یخنی تیار کی گئی۔
شاگرد پلانے کو آئے‘ اٹھانا چاہا تو صاحب فراش بولا‘ کیوں اٹھاتے ہو؟
کہا گیا : یخنی پلانے کو
پوچھا گیا : کیوں؟
بتایا گیا : وید نے تجویز کی‘ نقاہت مٹائے گی۔
دریافت کیا گیا : کس شے سے بنائی؟
عرض کیا گیا : چوزے سے
استفسار ہوا : کہاں رکھی ہے؟
مطلع کیا گیا : آپ کی چارپائی کی پائنتی کے قریب رکھی تپائی پر۔
نحیف و نزارمعری کے تن نیم جاں میں معاً جنبش ہوئی۔ اس نے زوردار ٹھوکر سے یخنی کا برتن تپائی سمیت الٹ دیا اور بولا ''افسوس اے چوزے تجھ پر افسوس،تو کمزور نہ ہوتا تو تیری یخنی کبھی نہ بنتی‘‘
مشرق کے مرد دانا اقبالؔ نے معری کے اس خیال کو اپنے شعروں میں یوں موزوں کیا۔
اے مرغک بیچارہ ذرا یہ تو بتا تو
تیرا وہ گنہ کیا تھا‘ یہ ہے جس کی مکافات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تاریخ کی انگلی تھام کر دنیا بھر کی سیر کر لیں۔ہر وہ شخص‘ جس نے نوعِ بشر کو آزادی و خودمختاری کا درس دیا یا اس کی سعی کی مطعون ہوا اور لائق تعزیر بھی۔
......یہ یونان کی عدالت ہے‘ جہاں سفید ریش ، اور متین و باوقار سقراط کو پابجولاں کٹہرے میں لایا گیا ہے۔ گویا فیضؔ کی اس نظم کی مکمل تجسیم کہ
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
......''الزام ہے کہ یہ بوڑھا نوجوانوں کی اخلاق باختگی کا باعث بن رہا ہے‘ انہیں ریاستی نظریات و عقائد سے روگردانی کا درس دے کر سرکش بناتاہے۔
......''حقیقت یہ ہے کہ سقراط استحصالی نظام سے متنفر ہے‘ انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کی بات کرتا ہے‘ اندھی تقلید کو جہل قرار دیتا ہے۔ سب سے بڑا جرم اس کا یہ ہے کہ کمزوروں کو متحد ہوکر طاقتور ہو جانے کا یقین دلاتا ہے‘‘......کیا سنگین جرم ہے ان کے نزدیک جن کی قوت ہی عامیوں کی کمزوری میں مضمر ہے۔ نتیجہ...سزائے موت‘ زہر کا پیالہ‘ جو ہر سچے کا مقدر ہے لیکن سچائی کبھی نہیںمرتی۔ سقراط ایک نظرئیے کا نام ہے‘ وہ محض جسد خاکی ہوتا تو مر بھی جاتا لیکن وہ آج بھی زندہ ہے، اپنے افکار میں اور جب تک یہ افکار زندہ ہیں سقراط کیونکر مر سکتا ہے ۔ کیا خوب کہا کسی شاعر نے
اس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
......اور یہ ہے مصر‘ فرعون رعمسیس کی راج دھانی۔ بنی اسرائیل کو غلامی نباہتے نسلیں بیت گئیں۔ اب فرعون کے گھر میں پل کر جوان ہونے والے موسیٰ علیہ السلام نجات دہندہ بن کر آئے ہیں لیکن ایک عصا تھما کر ہولناک صحرائوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں...جرم؟انسان کی بیچارگی دور کر کے اسے آزاد بنانے کی تمنا...!!تاہم طورِ سینا سے رب ذوالجلال کا پیغام ،بنی اسرائیل جیسی ناہنجار قوم نے بھی بالآخر قبول کیا یہ الگ بات کہ بعد ازاں نافرمانیوں کی ایک تاریخ رقم کرتی رہی۔ 
......اور یہ مکہ ہے۔ بادیہ پیما ئوں کی سرزمین‘ پرلے درجے کے متعصب اور جنگجو‘ ہادی مرسل ﷺکے محض اس لیے اعدا بن بیٹھے ہیں کہ آپ ﷺ توحید اور انسانی مساوات کے داعی ہیں‘ جو عرب سرداروں کو کسی بھی صورت گوارا نہیں کہ امارت پہ زد پڑتی ہے۔ خریدے ہوئے غلام ساتھ کھائیں‘ پیئیں اور مسند پر برابر میں براجمان ہوں کیونکر ممکن ہے؟ ......نتیجہ عرصہ حیات تنگ کرنے کی ٹھان لی گئی اور پھر...ہجرت۔...لیکن یہ پیغام ربانی دنیا بھر میں پھیل کر رہا اور تاقیامت اس پر آنچ نہ آئے گی کہ ''سانچ کو آنچ نہیں‘‘ 
اے خطہ حسرت ویاس کے ساکنو!! آزادی کی تمنا جرم ہے...اس لیے کہ تم آزاد و متحد ہو کر طاقتور ہو گئے تو تمہارے آقائوں کی'' نقاہت ‘‘مٹانے کو تمہاری یخنی کیونکر بن سکے گی۔ تمہارے سروں پر راہبروں کی صورت بے شمار رہزن مسلط ہیں...کوئی لبرل جمہوریت کا وعدہ کر کے تو کوئی عقیدے کا پھریرا تھام کر...... کوئی خوشحالی کی امید دلا کر تو کوئی دنیا میں باعزت مقام دلانے کا وعدہ کر کے...... سب تمہیں خواب دکھا رہے ہیں ''کل‘‘ کے لیکن خود وہ ''آج‘‘ میں مزے سے زندہ ہیں۔ کسی نے سمندر پار کمپنیوں میں دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں تو کوئی ''شاہان رفتہ‘‘ کے محلات کا مالک ہے...... کوئی تمہیں دین اسلام میں قناعت و توکل کی اہمیت کا درس دیتا ہے لیکن خود ہر حکومت کا حصہ ہوتا ہے ،اربوں مالیت کے محل میں رہتا اور کروڑوں کی گاڑی میں گھومتا ہے......کوئی بھی میدان عمل میں آنے کی سنت نہیں بتاتا‘ سناتا ہے تو صبر‘ تحمل اور برداشت کے فضائل...... پیارے لوگو ،میرے لوگو !! ایک بات ازبر کر لو یہ کہ'' تم مجبور ہو تبھی ، یہ سب جابر ہیں‘‘کماتے تم ہو کھاتے اور لوٹتے یہ ہیں...... اپنے بچوں کے لیے دودھ خریدو یا اپنے گلتے ناسوروں پر رکھنے کو پھاہا...... روشنی جلاو یا چولہا ،ٹیکس تم دیتے ہو عیاشی یہ کرتے ہیں......آخر کیوں؟ اس لیے کہ تم اپنی کمزوری سے سمجھوتہ کر بیٹھے ہو یہ سوچ کر کہ یہ سب تقدیر کا لکھا ہے......ہرگز نہیں۔ نعوذباللہ خدائے بزرگ و برتر نہ ظالم ہے اور نہ ہی کسی کی غلامی اسے خوش آتی ہے۔ ہاں وہ اپنے بنائے قانون کا پاسدار ضرور ہے‘ لہٰذا
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں