"MSC" (space) message & send to 7575

عمران خان کا انتخاب!

عمران خان اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین منتخب نہ ہوتے تو یہ ایک ایسی خبر ہوتی، جو نہ صرف پاکستانی میڈیا کی شہ سرخی ہوتی بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ٹاپ سٹوری بنتی۔ وہ پاکستان کے ایسے سیاستدان ہیں، جن کا فین کلب پوری دنیا میں پھیلا ہُوا ہے۔ جہاں جہاں کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے، وہاں وہاں اُن کا نام گونجتا ہے۔ برطانیہ میں تو انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ان کی جوانی یہیں دیوانی بنی، شادی ہوئی اور یہیں اب ان کے دونوں بچے پرورش پا رہے ہیں۔ تعطیلات میں پاکستان آتے ہیں تو ان کے والد کو ہر شے بھول جاتی ہے۔ وہ انہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کی محبت ان کے دل و دماغ میں بھرتے ہیں اور پھر وہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وہاں بھی ایک پاکستانی کے طور پر ان کی پرورش ہو رہی ہے۔ ان کی طلاق یافتہ دُلہن ان سے دور ہو کر بھی پاکستان سے دور نہیں ہیں۔ یہاں کے حالات سے باخبر رہتی ہیں اور جب بھی کوئی مشکل گھڑی آئے، ان کے اندر کا ’’پاکستانی‘‘ بیدار ہو جاتا ہے۔ وہ ریٹائر ہوا ہے نہ اس نے طلاق لی ہے۔ وہ دو پاکستانی بچوں کی ماں ہیں، یہ اعزاز نہ ان سے کوئی چھین سکتا ہے، نہ وہ خود اس کو ترک کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو جمائما نے اس میں حصہ ڈالا، یہاں زلزلہ آیا تو بھی جمائما حرکت میں آئیں۔ برطانیہ میں عمران کا سماجی مرتبہ بہت بلند رہا، وہ برطانوی ایلیٹ کا حصہ سمجھے جاتے تھے، اسی لیے تو اس طبقے سے دُلہنیا لے کر آئے۔ 1997ء کے انتخابات کے بعد جمائما کا دل پاکستانی سیاست سے اُچاٹ ہوگیا، لیکن عمران خان صرف شوہر بن کر زندہ رہنے پر تیار نہیں تھے۔: جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی عمران اس بات پر ایمان لا چکے ہیں کہ پاکستانی سیاست کو تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی وہی لا سکتے ہیں۔ سیاست اب ان کے لیے ایک مشغلہ نہیں، عقیدہ ہے۔ شہرت انہوں نے بہت پالی، دولت بھی ان کے قدموں پر ڈھیر رہی، کرکٹ کے ایک بین الاقوامی مبصر کے طور پرآج بھی وہ ہفتوں میں کروڑوں کما سکتے ہیں۔ جمائما سے علیحدگی کے وقت برطانوی قانون کے مطابق ان کے آدھے اثاثوں پر عمران کا حق تھا۔ یہ لاکھوں، کروڑوں نہیں، اربوں میں تھے، لیکن انہوں نے ایک لحظے کے لیے بھی مُڑ کر نہ دیکھا، ان کے منہ میں پانی تو کیا آتا، ماتھے پر پسینہ بھی نہ آیا۔ اپنے غم کو سینے میں چھپا کر سرجھٹک دیا اور دستاویز لکھ کر دے دی، جو کچھ جمائما کے پاس ہے، وہ اس کو مبارک۔ پاکستان میں رہنے والے کئی افراد سیاست سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ عمران کے پاس سیاست کے بغیر ہی آچکا تھا، سب کچھ پا کر بھی انہیں یہ احساس ستانے لگا کہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔ اپنے لیے زندگی گزارنے میں کیا کمال ہے۔ یہ کام تو جانور بھی بخوبی کر لیتے ہیں۔ دوسروں کے لیے زندگی گزارنے کے جذبے نے پہلے انہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر پر آمادہ کیا اور پھر سیاست میں لے آیا۔ اگر پاکستانی قوم ان کے ساتھ مل کر اپنے لیے ایک ایسا ہسپتال بنا سکتی ہے تو دونوں مل کر اور کچھ کیوں نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے سارے ہسپتال درست کیوں نہیں کیے جاسکتے اور پاکستان کے سارے بچے معیاری تعلیم حاصل کیوں نہیں کرسکتے؟بے ہنر نوجوان ہنر مند کیوں نہیں بن سکتے‘ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے والے اپنے ہاتھوں کو کیوں حرکت میں نہیں لاسکتے اور ملک کی تقدیر کیوں نہیں سنبھال سکتے؟… یہ سوالات عمران کو مضطرب کرنے لگے، ان سے جواب طلب کرنے لگے اور بالآخر انہیں سیاست میں لے آئے۔ وہ ننگے پاؤں، اس صحرا میں اُتر گئے اور نخلستان کی تلاش شروع کر دی۔ لوگ ساتھ ملتے اور بچھڑتے رہے، کوئی ہمت بندھاتا رہا، کوئی مذاق اُڑاتا رہا، لیکن عمران نے سفر جاری رکھا۔ یہاں تک کہ 2012ء آگیا، وہ لمحہ طلوع ہوا، جب لوگ جوق در جوق ان کی طرف متوجہ ہونے لگے۔30 اکتوبر2012ء کو لاہور کے جلسے نے منظر یکسر بدل دیا۔ ایک ہزار سے ایک لاکھ، ایک لاکھ سے کئی لاکھ… پاکستان تحریکِ انصاف ایک بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بٹی ہوئی سیاست میں ایک نیا فریق اپنے آپ کو منوانے لگا۔ عمران نے اعلان کیا، مَیں اپنی پارٹی میں انتخابات کراؤں گا۔ ہر سطح پر اس کے عہدیدار ووٹ لے کر منصب پائیں گے۔ یہاں کوئی نامزدگی نہیں ہوگی۔ مخالفوں کے طعنے تو تھے ہی، دوست بھی تشویش میں مبتلا ہو گئے، ارے پگلے، پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں جماعتیں انتخابات کرا کر ٹوٹ جاتی ہیں۔ بااثر افراد کو اکٹھا کرو اور جتھہ بنا ڈالو، لیکن عمران نے ایک نہ مانی۔ بہت کچھ وہ ہوا، جو اپنے پرائے کہتے تھے، جھگڑے ہوئے، دھڑے بنے، شکایات پیدا ہوئیں، ہنگامے ہوئے، ایک دوسرے پر الزامات لگے لیکن انتخابات ہو کر رہے۔ اب اسی ہزار افراد منتخب ہو کر پارٹی کی شناخت بن چکے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو کم ہی ہُوا ہے ۔ منفی پہلو دب رہے ہیں اور مثبت نکات روشن ہو رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے منتخب افراد، درجہ بدرجہ اپنے عہدیداروں کا چناؤ کر رہے ہیں۔ یونین کونسل سے شروع ہو کر اعلیٰ قیادت تک جاپہنچے ہیں۔ عمران خان کو بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے۔23 مارچ کو مینار پاکستان کے سائے میں حلف اٹھانے کے لیے یہ سب اکٹھے ہوں گے۔ عمران کا اعلان ہے، دو ٹرم سے زیادہ کوئی شخص چیئرمین نہیں رہ سکے گا۔ تحریکِ انصاف کو ون مین شو نہیں بننے دیں گے۔ اسے ادارہ بنائیں گے۔ بلا مقابلہ انتخاب کو اس اعلان نے یقیناً بڑی خبر بنا دیا ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں