2013ء کے انتخابات تو ختم ہوگئے، لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات اور کہانیاں چھوڑ گئے ہیں۔ ان پر حسبِ توفیق بحث ہوتی رہے گی۔ چند روز میں نو منتخب اسمبلیوں کے ارکان حلف اٹھا لیں گے۔ حکومت سازی کا عمل شروع ہوگا۔ مرکز اور صوبوں میں کہیں بھی کوئی مشکل نظر نہیں آ رہی۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان نشستوں کی تقسیم اس طرح ہو سکتی ہے کہ تینوں میں سے دو کو اکٹھا ہو کر حکومت بنانی پڑے۔ مخلوط حکومتیں دنیا میں بنتی رہتی ہیں۔ خود ہمارے ہاں بھی 2008ء کے انتخابات کے بعد ایسا ہی ہوا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو قریب کر دیا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف (ماضی کی) حرکتوں سے تائب نظر آ رہی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان بیرون وطن ہونے والی ملاقات جہاں برف پگھلنے کا اشارہ دے رہی تھی، وہاں اس کے نتیجے میں بھی بہت سی برف پگھلی تھی۔ برف کا کمال یہ ہے کہ پگھل جائے تو اپنی ہئیت کھو دیتی ہے۔ اس کا پانی بنتا ہے تو اسے دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ کبھی برف بھی رہا ہوگا۔ اس پانی کو سردی کے سپرد کر دیا جائے تو وہ دوبارہ برف بن جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ کبھی پانی بھی رہا ہوگا۔ ایک خاص درجے کی گرمی، اورایک خاص درجے کی سردی پانی اور برف پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہیں کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان کے درمیان مصافحہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کو معاف کرنے پر تیار ہو سکتی ہیں، لیکن بھلا ہو جنرل پرویز مشرف کی آرزوؤں کا کہ انہوں نے ان دونوں کو ایک مقام پر لا کھڑا کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جب 12 اکتوبر برپا کیا تھا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کا اُس جوش و خروش کے ساتھ خیر مقدم تو نہیں کیا تھا جو بھٹو صاحب کے مخالفین میں جنرل ضیاء الحق کی آمد پر پایا گیا تھا، لیکن وہ اس کے خلاف بھی کسی موقف کا اظہار نہیں کر پا ئی تھیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے جنرل موصوف کی حوصلہ افزائی فرمائی تھی اور یہ توقع بھی لگائی تھی کہ نواز شریف کے مخالفین یعنی محترمہ اور ان کے ہمنواؤں کی مدد کے بغیر ان کی گاڑی چل نہیں سکے گی، لیکن جنرل پرویز مشرف اپنی ذات پر ایمانِ کامل رکھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں اور جو بھی ان سے معاملہ کرے، اسے اس بات کا اعتراف کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ پس جنرل صاحب اور محترمہ کے درمیان وہ نہ ہو سکا جو اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق اور پی این اے کے درمیان ہو چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف میثاقِ جمہوریت تک پہنچے اور جب2008ء کے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان محاذ آرائی نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی۔ محترمہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ ان کے سفاکانہ قتل نے قومی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نواز شریف بچشمِ نم ان کے غم خواروں میں نمایاں تھے…2008ء کی انتخابی مُہم میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کا دامن نہیں کھینچا۔ جنرل پرویز مشرف کے سائے میں تولد ہونے والی مسلم لیگ (ق) کی بساط ابھی تک بچھی ہوئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف باقاعدہ منتخب صدر کا چولہ پہن کر ایوانِ صدارت میں براجمان تھے۔ ان انتخابات کے بعد گیلپ سروے نے یہ اطلاع بہم پہنچائی تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ووٹروں کی بھاری تعداد ان کو یک جا دیکھنا چاہتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ(مرکز اور پنجاب میں) مل کر حکومتیں بنائیں اور ایک ساتھ مل کر ملک کو بحران سے نکالیں۔ لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی نے اس وقت بھی ناک میں دم کر رکھا تھا اور توقع لگائی جا رہی تھی کہ دونوں بڑی جماعتیں مل کر ان سے عہدہ بَرآ ہوں گی۔ مرکز اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شریکِ اقتدار کر لیا اور اہلِ پاکستان کو ایک نیا منظر دیکھنے کو ملا۔ عدلیہ کی بحالی کے سوال پر اختلافات پیدا ہوئے، پہلے مرکز اور پھر پنجاب میں دونوں جماعتوں کے راستے الگ ہوگئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوتا رہا، اسے دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے اپنی طرح کے ریکارڈ قائم کئے اور پنجاب حکومت اپنی طرح کے ریکارڈ قائم کرنے میں لگ گئی… نتیجہ سامنے ہے، پیپلز پارٹی کو رائے دہندگان نے سبق سکھا دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب کے سر کا تاج ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف ایک نئی طاقت کے طور پر اُبھری ہے۔ خیبر پی کے میں وہ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا رہی ہے، جبکہ سندھ نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے استفادہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں بھی ایک بڑا اتحاد وجود میں آچکا ہے اور ایم کیو ایم کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہزاروں کی تعداد میں ووٹ حاصل کر لئے ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ تحریک انصاف نے بھی نشست حاصل کر لی ہے، بلکہ یہ کہئے کہ چھین لی ہے۔ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں بھی اس نے جیت کر دکھا دی ہیں۔ 2008ء کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اختلاط تو نہ چل سکا، لیکن پیپلز پارٹی نے مرکز اور تین صوبوں میں دوسرے رفقاء ڈھونڈ لیے۔ مرکز میں وہ سادہ اکثریت کے لئے بھی اپنے حلیفوں کی محتاج تھی، جبکہ سندھ میں اس نے اپنی سہولت کی خاطر اور ایم کیو ایم نے اپنی ضرورت کی وجہ سے ایک دوسرے کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ خیبر پی کے میں اے این پی کی قیادت میں پیپلز پارٹی اقتدار کا لطف اُٹھاتی رہی… مرکز میں مخلوط حکومت کی حالت دیدنی تھی، اس کے حلیفوں کی طرف سے آنے والا گرم ہوا کا ایک جھونکا بھی اسے لرزا کر رکھ دیتا۔ بھان متی کا کُنبہ جوڑ کر اقتدار کی دیوی کو گھر میں تو ڈال لیا گیا تھا، لیکن اس کا حساب روزانہ کی بنیاد پر چُکانا پڑ رہا تھا۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے جو ’’ہنگ پارلیمینٹ‘‘ کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں تو ووٹروں کا دل تھا کہ اندر ہی اندر بیٹھ رہا تھا۔ اے خدا، کہیں دوبارہ سانجھے کی ایسی ہنڈیا نہ مقدر میں لکھ دی جائے جس کے سانجھے دار کچی بوٹیاں نوچنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہوں۔ مقامِ شُکر ہے کہ مرکز میں ایسی مخلوط حکومت قائم نہیں ہوگی جو ہر وقت ڈانواں ڈول رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت واضح ہے۔ اس کے ساتھ جو بھی ملے گا، وہ اسے توانائی فراہم تو کرے گا، لیکن اس کی روح قبض نہیں کر سکے گا۔ بلوچستان اور خیبر پی کے میں قائم ہونے والی مخلوط حکومتیں بھی گڈ گورننس کا وعدہ کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا محاذ کرپشن کو برداشت نہ کرنے کی اپنی شہرت رکھتا ہے، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سکہ بند سیاسی جماعتیں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی شریک ہو چکی ہیں۔ ان سب کا عہد ہے کہ بلوچستان میں ماضی کو دُہرایا نہیں جا سکے گا۔ محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں مستند سیاسی کارکن بہت عرصے بعد بلوچستان کی حکومت میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ پاکستان بدل چکا ہے… بدلے ہوئے پاکستان میں پرانی سرگرمیوں کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے… ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو بھی یہ پیغام پہنچ جانا چاہئے کہ سندھ کی دھرتی پتھر کی نہیں ہے۔ پھولوں پر اس کا بھی حق ہے، خس و خاشاک کو ہمیشہ کے لئے اس کا مقدر نہیں بنایا جاسکتا۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)