"MSC" (space) message & send to 7575

کمزور ڈھانچے میں مضبوط ’’قوم‘‘

انتخابات 2013ء کے نتیجے میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلزپارٹی اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف (اور اس کے رفقا) کی بالادستی قائم ہو چکی ہے۔کراچی اور پشاور میں نئے وزرائے اعلیٰ نے حلف اٹھالیا ہے،جبکہ پنجاب میں یہ مرحلہ طے ہونے کو ہے۔مذکورہ بالا تین جماعتوں کی اس کامیابی سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تینوں ’’علاقائی‘‘ بن گئی ہیں؟ مسلم لیگ(ن) پنجاب، پیپلزپارٹی سندھ اور تحریک انصاف خیبرپی کے کی جماعت ہے؟ کئی تجزیہ کار اس نکتے کو بار بار زیر بحث لا رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد پاکستان علاقائی جماعتوں کے چنگل میں آ گیا ہے۔یہ جماعتیں جب ایک دوسرے سے الجھیں گی تو وفاقی وحدتوں کے درمیان الجھائو پیدا کردیں گی ، یوں ملکی وحدت کو صدمہ پہنچے گا۔یہ عناصر 1970ء کے انتخابات کا حوالہ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ان انتخابات نے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے کو سیاسی طور پر ایک دوسرے سے الگ کردیا تھا، اسی طرح تازہ انتخابات نے پاکستان کو تین سیاسی منطقوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس دلیل کی بے وزنی عیاں ہو سکتی ہے۔پہلی بات تو یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ 1970ء کے انتخابات کا کوئی موازنہ 2013ء کے انتخابات سے ممکن نہیں۔ 1970ء میں کوئی آئینی ڈھانچہ موجود نہیں تھا،انتخابات مجلس دستور ساز کے لئے منعقد ہوئے تھے۔ منتخب ہونے والے ارکان نے دستور کو تخلیق کرنا تھا،اس میں ناکامی ہی نے سارا الجھائو پیدا کیا۔حالیہ انتخابات ایک متفقہ آئین کے تحت منعقد ہوئے ہیں۔کامیاب ہونے والوں نے اس آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔یہ ایسا جوہری فرق ہے جو معاملے کو یکسر مختلف بنا دیتا ہے۔یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ 1970ء میں عوامی لیگ نے مغربی حصے سے اور پیپلزپارٹی (اور دوسری سیاسی جماعتوں ) نے مشرقی حصے سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کی تھی۔ حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ مغربی صوبوں میں عوامی لیگ کے چند امیدوار تو انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے پائے گئے تھے، لیکن ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی۔مشرقی حصے میں پیپلزپارٹی نے کوئی امیدوار ہی کھڑا تک نہ کیا تھا،یوں دونوں حصے سیاسی طور پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگئے تھے۔ حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو تینوں بڑی جماعتوں میں سے کسی کو بھی ’’علاقائی‘‘ خول میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ(ن) نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 117،تحریک انصاف نے 9اور پیپلزپارٹی نے محض دو نشستیں حاصل کی ہیں،لیکن اگر ووٹوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے کل پچھتر لاکھ ووٹوں میں سے پچاس لاکھ سے زائد پنجاب سے حاصل کئے گئے ہیں۔خیبرپختونخواسے اسے سولہ لاکھ ووٹ ملے ہیں۔گویا تحریک انصاف کو ملنے والے ہر تین ووٹوں میں سے دو پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ جماعت دوسرے صوبوں میں اپنے وجود کا احساس بھی دلا رہی ہے۔اس نے سندھ اور بلوچستان سے علی الترتیب 7اور 3فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے حاصل کردہ ڈیڑھ کروڑ ووٹوں میں 90فیصد پنجاب کے ہیں،سندھ سے اسے دس لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں۔بلوچستان اور سندھ میں اس کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں یہ سب سے بڑی جبکہ خیبرپی کے میں تیسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی کو بڑا صدمہ اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کے حاصل کردہ ستر لاکھ ووٹوں میں سے 50فیصد کا تعلق سندھ سے ہے۔پنجاب کا حصہ 42،جبکہ بلوچستان اور خیبرپی کے کا8فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والی کسی بھی جماعت کو علاقائی خانے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ گیلپ آف پاکستان کے ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی یہ خبر بھی لائے ہیں کہ ان انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان برپا کشمکش انجام کو پہنچ گئی ہے۔1970ء کے بعد سے پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے حامیوں اور مخالفوں میں تقسیم تھا۔ان کی ’’خانہ جنگی‘‘ نے طویل مارشل لائوں کے لئے راستہ ہموار کیا۔ڈاکٹر صاحب کا یہ تجزیہ ’’ایگزٹ پول‘‘ سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔دنیا بھر میں ووٹروںکے رجحانات کا جائزہ لینے کا یہی مستند طریقہ ہے۔الیکشن کمیشن کا فراہم کردہ ڈیٹا اس طرح کا جائزہ لینے میں کوئی مدد نہیں دیتا کہ بیلٹ پیپر پر کسی طرح کا کوئی نشان نہیں ہوتا،جس سے پتہ چل سکے کہ کس جماعت کو کس عمر،پیشے اور صنف کے ووٹروں نے کس حد تک توجہ کا مستحق جانا ہے۔ملک کے 70اضلاع میں تقریباً پانچ ہزار ووٹروں سے ووٹ دینے کے فوراً بعد پوچھے گئے سوالات کے نتیجے میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ووٹروں میں سے 73فیصد کی دوسری چوائس کوئی تیسری جماعت نہیں ہے۔مسلم لیگ(ن) کو ووٹ دینے والوں کی انتہائی بھاری اکثریت یہ کہتی ہے کہ وہ اس جماعت کو ووٹ نہ دیتے تو تحریک انصاف ان کا انتخاب ہوتی۔یہی معاملہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کا ہے۔گویا، سوا دو کروڑ رائے دہندگان میں ایک دوسرے کے بارے میں انتہائی تلخ جذبات موجود نہیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں آئندہ الیکشن جنگ کی طرح نہیں، بلکہ کرکٹ یا ہاکی میچ کی طرح لڑے جائیں گے اور ووٹروںکے درمیان کوئی ناقابل عبور خلیج حائل نہیں ہوگی۔ گیلپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف گریجوایٹس یا زیادہ تعلیم یافتہ افراد میں زیادہ حمایت رکھتی ہے،جبکہ مسلم لیگ(ن) انڈر گریجوایٹس اور (نسبتاً) کم تعلیم یافتہ طبقات میں بہت مضبوط ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے، اس لئے ان کی بھاری تعداد کی حمایت بھی نتائج کو ان کے حق میں فیصلہ کن بنانے میں ناکام رہی ہے۔1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مزدوروں اور کسانوں کو متحرک کرکے پاکستانی سیاست کو ایک نئی جہت عطا کی تھی۔پاکستان قومی اتحاد، آئی جے آئی اور پھر مسلم لیگ(ن) نے تاجروں، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو متحرک کرکے پاکستانی سیاست کا رخ بدل دیا تھا اور اب عمران خان نے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو ،جو عام طور پر سیاسی جھمیلوں سے دور رہتے ہیں، ایک نیا تحرک دے کر قومی سیاست میں نئی روح دوڑا دی ہے۔ یوں پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی پاکستان کی انتخابی سیاست میں محو ہو چکی ہے۔ریاستی ڈھانچہ خواہ کمزور نظر آئے، یہ توانا اورمضبوط ہے۔ (نوٹ:یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتاہے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں