برادرم عارف نظامی اور میں دونوں اخباری مالکان اور مدیران کی تنظیموں‘ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر رہ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں، اس لئے کسی سابق صدر کا ’’پرویز مشرف‘‘ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی‘ ہاں رفیق تارڑ بنایا جا سکتا ہے، بلکہ یہ کہیے سابقین بنے بنائے رفیق تارڑ ہوتے ہیں کہ صدارت کے خاتمے کے بعد بھی عزت کی زندگی گزارتے ہیں۔یہ اور بات کہ مذکورہ دونوں تنظیموں میں صدر محض علامتی سربراہ نہیں ہوتا۔تنظیمیں اس کی افتاد طبع کے مطابق چلتی یا کھڑی رہتی ہیں۔اس لئے بحیثیت سابق صدر یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری صدارتی زندگی جناب تارڑ کی سابقہ اور جناب ممنون حسین کی موجودہ زندگی سے بہرحال مختلف تھی۔ اے پی این ایس کی مجلس عاملہ کا اجلاس 19ستمبر کو کراچی میں طلب کیا گیا تو اس کے متحرک و فعال صدر سید سرمد علی نے خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی۔ عارف اور میں دونوں ’’صدارتی احکامات‘‘ کے تابع کراچی پہنچے۔ برادرم جمیل اطہر نے کہ سی پی این ای کے سربراہ ہیں اپنی عاملہ کا اجلاس بھی طلب کر لیا۔ اے پی این ایس کے اجلاس سے تین گھنٹے پہلے، یعنی گیارہ بجے ان کی صدارت کا لطف اٹھایا۔ پاکستان پریس کونسل کی کارکردگی پر تفصیلی بحث ہوئی کہ یہ ادارہ اخبارات میں ضابطہ ء اخلاق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے ازالے کے لئے قائم ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی بچوں سے بداخلاقی کے حالیہ واقعات کی کوریج کا جائزہ لیا گیا۔ ایڈیٹر حضرات میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس حوالے سے اطمینان کا اظہار کر سکے۔ اضطراب کی شدید لہر نے بے قرار کر رکھا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایڈیٹر سی پی این ای کے دائرے میں نہیں آتے، لیکن پیشہ ورانہ طور پر اس سے کوئی فاصلہ بھی نہیں رکھ سکتے۔ ایک حد تک ان کے انداز بھی زیر نظر تھے۔ فیصلہ کیا گیا کہ برادران صحافت کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لئے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا جائے۔ بداخلاقی کے مجرموں کا تعاقب ضروری ہے، لیکن اس کے اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنا بھی لازم ہے۔ہمارے معاشرے میں درندگی کا نشانہ بننے والی بچیوں اور خواتین کو جو الجھنیں پیش آتی ہیں، ان سے آنکھیں بند نہیں کی جانی چاہئیں۔اسلامی نقطہ نظر سے بداخلاقی کا ہدف بننے سے عزت اور عصمت کو کوئی آنچ نہیں آتی۔ ان مظلوموں کا وقار اور اعتبار قائم رکھنا ایک سماجی ہی نہیں مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ شرکاء میں اتفاق تھا کہ متاثرین کے اور ان کے اعزہ و احباب کے ناموں کی تشہیر سے ہرصورت گریز کیا جانا چاہیے۔ اے پی این ایس کا موضوع اخبارات کو درپیش معاشی مشکلات تھیں۔ سپریم کورٹ میں احتسابی جذبے میں شرابور ہمارے اپنے بھائی بندوں نے جو درخواستیں دائر کی تھیں، ان کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت سے اشتہارات کی رقوم کی وصولی کھٹائی میں پڑ گئی۔ بڑی کوششوں کے بعد سرکاری اختیارات کی ایک ارب سے زائد رقم کی ادائیگی کا حکم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے حاصل کیا گیا تھا، طریق کار طے کرتے کرتے مالی سال ختم ہوگیا۔ پھر راجہ پرویز اشرف کے درِ دولت پر دستک دی گئی۔ پیاسے کنویں کے پاس پہنچنے والے تھے کہ عدالتی کارروائی کا دریا راستے میں حائل ہو گیا۔ مالی سال پھر ختم ہو چکا اور اب پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو پانچ سو ارب روپے کی ادائیگیاں تو کر دی ہیں، لیکن میڈیا کا ڈیڑھ ارب ابھی تک توجہ کا منتظر ہے۔ اس ایک بات نے کئی اور باتوں سے مل کر اخبارات کا بوجھ بڑھا دیا ہے،کراچی کے حالات ہمارے اجلاسوں کا موضوع نہیں تھے، لیکن مقامی دوستوں سے تبادلۂ خیال کا موقع تو موجود تھا۔ رات گیارہ بجے کی پرواز سے لاہور واپس ہونا تھا۔برادر عزیز انیق احمد نے پُرتکلف عشایئے کا اہتمام کر ڈالا۔ کراچی کلب میں برپا ہونے والی چھوٹی سی نشست بڑے بڑے اجتماعات پر بھاری تھی۔ مفتی منیب الرحمن، مولانا اسعد تھانوی، ڈاکٹر محسن نقوی، مفتی نذیر، مفتی ارشاد اور مفتی زبیر حق نواز کی تشریف آوری نے روشنی کو دو نہیں سہ چند کر دیا۔ شکیل عادل زادہ اور حافظ نعیم الرحمن بھی تشریف لے آئے، انیق صاحب کے پروگرام ’’پیامِ صبح‘‘ کو ’’فاصلاتی یونیورسٹی‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، وہ اس کے وائس چانسلر ہیں اور قرآن کریم، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم کے مایہ ناز ماہرین، ہمارے جیسے عامیوں کو اپنی شاگردی کی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ ہماری مجلس میں قومی اور بین الاقوامی امور ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے اور عالمانہ شان کے ساتھ ان سے معاملہ کیا جا رہا تھا۔ میڈیا اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے بھرپور گفتگو رہی۔ بداخلاقوں اور بداخلاقیوں کے راستے میں سماج کی گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے کے طریقے زیر بحث آتے رہے۔ کراچی کے حالات بھی اپنی طرف متوجہ کئے رہے۔ ہر جگہ جہاں جانا اور بیٹھنا ہوا، کراچی کا تذکرہ رہا… گویا پورا دن کراچی کے ساتھ گزرا … اندیشوں، وسوسوں، بدگمانیوں اور بدمزگیوں کے درمیان امید کی کرن بھی مسلسل اپنا احساس د لاتی رہی۔ رینجرز اور پولیس کے تحرک کا اعتراف عام تھا۔ اطمینان کے کئی سانس آتے صاف دیکھے جا رہے تھے۔ ’’دنیا‘‘ نیوز کے بیورو چیف ریحان ہاشمی کا کہنا تو یہ تھا کہ چُن چُن کر اچھی شہرت کے پولیس افسر آگے لائے جا رہے ہیں۔ بالکل اِسی طرح جیسے (ایک اور دوست کے بقول) کچھ عرصہ پہلے تک چُن چُن کہ بدعنوان افراد کو آگے لایا جا رہا تھا، اُن کی پیٹھ ٹھونکی جا رہی تھی۔ یہ سوال البتہ ہر چہرے پر اور ہر زبان پر تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کہیں رُک تو نہیں جائے گا؟ کیا ہمارے ادارے اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ بلا روک ٹوک اپنا کام جاری رکھ سکیں؟… کراچی کا امن بحال کر تو لیا جائے گا،کیا بحال رکھا بھی جا سکے گا؟ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)