سید منور حسن نے لاہور کو اپنا مسکن بنایا تھا تو ان کی عمر47سال تھی، اب یہاں سے واپس ہوئے ہیں تو 70 سال کے ہو چکے ہیں۔ پورے 23 سال انہوں نے اس شہر میں گزارے جو علامہ اقبال ؒ اور سید مودودیؒ کا مدفن ہے۔اول الذکر کا تعلق سیالکوٹ سے تھا، تو ثانی الذکر دہلی میں پیدا ہوئے تھے، لیکن لاہور پہنچے تو یہیں کے ہو رہے۔ علامہ کو ایران میں اقبال لاہوری کہا جاتا ہے اور سید مودودی ؒ کا خاندان اپنے آپ کو لاہوری قرار دیتا ہے۔صدیوں پہلے ہجویر سے سید علی یہاں آئے تھے، تو یہیں کے ہو رہے تھے۔انہوں نے اس شہر کو اس طرح اپنایا کہ لاہور کو داتا کی نگری کہا جانے لگا۔ جگ جگ جی، نگری داتا کی... شہنشاہ ہند نور الدین جہانگیر اور ان کی محبوب ملکہ نورجہاں نے بھی یہیں کی مٹی اوڑھی، قیامت تک اُنہیں اب یہیں رہنا ہے۔ صدیوں پہلے ہندوستان کے پہلے مسلمان حکمران قطب الدین ایبک نے بھی اِسی شہر کو اپنا آخری مسکن بنایا تھا اور اس شہر کی ساری بے اعتنائیوں کے باوجود ہنوز اس ہی کی مٹی کی خوشبو بنے ہوئے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ لاہور میں جو آتا ہے ، لاہوری بن جاتا ہے۔کسی سے ڈومیسائل مانگا جاتا ہے، نہ کسی کا شجرۂ نسب کھنگالا جاتا ہے۔ جس نے اس شہر کو اپنایا، لاہور نے اس کو اپنا لیا۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بنے، امیر منتخب ہوئے، کئی عشرے یہاں گزار دیئے، اب ان کے خاندان کا ایک حصہ ''لاہوری‘‘ ہے، سمیعہ راحیل قاضی کو کسی دوسرے شہر کے حوالے سے پہچانا نہیں جا سکتا۔
قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی بنے تو ان کی نگاہِ انتخاب سید منور حسن کو لاہور لے آئی۔وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے، تو منور ناظم اعلیٰ، لیکن جماعت کے ارکان نے امارت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا تھا۔منور صاحب کا سکہ برسوں کراچی میں چلتا رہا، پہلے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں رہی، پھر وہ ہوا، جو بہت کم ہوا کرتا ہے۔ ان کی مخالف اسلامی جمعیت طلباء نے انہیں اپنی طرف کھینچ لیا، اس کی سربراہی ان کے حصے میں آئی اور متواتر تین بار ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ان سے میری پہلی ملاقات (غالباً) 1967ء میں ہوئی تھی۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی دفتر میں براجمان تھے جو ''جنگ‘‘ کے دفتر سے (کراچی کی زبان میں) چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا۔وہ دھان پان تھے، لیکن رگ و پے میں بجلی دوڑتی محسوس ہوتی تھی۔بات کرتے تو جیسے پھول جھڑتے، جس سے ملتے اسے اپنا بنا لیتے، سو اپنے رفقاء کی آنکھ کا تارا اور دل کی ٹھنڈک تھے۔ان کے مقابل کوئی نگاہ میں جچتا نہیں تھا۔دو ایم اے انہوں نے کئے یا یہ کہیے کہ طالب علم رہنے کے لئے کرنا پڑے، ساتھی نوجوان انہیں تحریک اسلامی کا مستقبل سمجھتے تھے۔
کراچی جماعت اسلامی کی قیادت چودھری غلام محمد کے ہاتھ میں تھی۔ برسوں اس بے مثال شخص نے یہ ذمہ داری نبھائی اور جماعت اسلامی کو یہاں کی بہت بڑی حقیقت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ زمانہ طالب علمی کے بعد منور صاحب حسب توقع جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شان بن گئے۔ 1977ء کی انتخابی مہم میں تو کراچی میں ان کے نعرے گونجتے تھے۔صبح منور، شام منور، روشن تیرا نام منور... پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن اس کی رکنیت کا حلف اٹھانا نصیب نہ ہو سکا۔ دھاندلی کے الزامات لگے، پاکستان قومی اتحاد بنا، مُنہ زور تحریک اٹھی، نتیجتاً مارشل لاء نصیب ہو گیا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور کراچی میں سید منور حسن کے اقتدار کا سورج روپوش ہو گیا۔ ہر دو کے معاملات کی تفصیلات خاصی مختلف ہیں، لیکن نتیجہ مختلف نہیں تھا۔ بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے، لیکن مر نہیں سکے، جبکہ منور حسن ماشاء اللہ اب بھی ہمارے درمیان رونق افروز ہیں، لیکن ان کا دور غروب ہو چکا۔ 77ء کے مارشل لاء نے انہیں کچھ نہیں کہا، لیکن (بالآخر) ان کی سلطنت ختم کر ڈالی۔منور حسن اور مولانا نورانی ہاتھ ملتے رہ گئے، 11سال بعد یہاں دوسروں کے پرچم لہرانے لگے، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کے ساتھ جو ہوا، سو ہوا، کراچی شہر بھی وہ نہیں ہو پایا جو کہ تھا۔ منور حسن کراچی سے لاہور پہنچے، جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین میں شمار ہونے لگے۔اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، سیکرٹری جنرل اور پھر امیر مقرر ہوئے۔ ان کی اہلیہ اور بیٹے کراچی میں تھے اور وہ منصورہ کے دارالضیافہ کے ایک کمرے کو اپنی دنیا بنائے بیٹھے رہے۔ لاہور اور ان کے درمیان رشتہ پکا کرنے میں نہ ان کو دلچسپی تھی اور نہ لاہور کو ہو سکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بیک جنبش قدم یہاں سے قدم اٹھا چکے ہیں۔ ان کا شمار ان زعما میں ہو گا، جو لاہور میں رہے، لیکن لاہوری نہیں بنے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو کرا چوی کہا جا سکتا ہے، جس تحریک کی امارات سے وہ سبکدوش ہوئے ہیں، وہ ان نسبتوں پر نہیں اترتی، اس کے لئے پورا پاکستان ایک شہر ہے۔ کراچی میں رہ کر لاہوری، اور لاہور میں رہ کر کراچوی کہلایا جا سکتا ہے، سو منور صاحب کو اہل لاہور میں سے جو چاہے، اپنا قرار دے لے۔
منور حسن کی امارت کا دور بڑا اہم تھا، امریکہ اور نیٹو فورسز کی افغانستان آمد نے حالات کو جس طرح متاثر کیا اور خود پاکستان سے جس طرح اس کا امن و سکون چھن گیا، یہاں جس طرح بندوق برداروں کی افزائش ہوئی، اس میں اُلجھ جانا یا کسی ایک پہلو میں گم ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے مفادات کا تعین کرنے میں مغالطہ ہو سکتا ہے، ریاستی اداروں کے نقطہ نظر کو اپنانے کیا، سمجھنے میں مشکل ہو سکتی ہے اور اس کو ٹھکرانا مشکل ترین ہو سکتا ہے، ایسے میں سید منور حسن وہ نہیں کر پائے، جس کی ان سے توقع تھی، تو بے دلی کے باوجود فراخدلی سے کام لیا جا سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گزشتہ پانچ سال کے امیر کو ارکان جماعت نے آئندہ پانچ سال کا امیر بنانے پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور ان کے ایک جونیئر کارکن سراج الحق کو اعتماد کا ووٹ دے دیا۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی میں کسی عہدے کے لئے کوئی امیدوار کھڑا ہوتا ہے، نہ کنویسنگ ہوتی ہے، اس لئے منور صاحب معروف معنوں میں امیدوار نہیں تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مجلس شوریٰ کے تجویز کردہ تین ناموں میں ان کا اسم گرامی موجود تھا، لیکن اس پر مہر نہیں لگی۔ سراج الحق نے ان کی جگہ لینے کے لئے ایک بڑی تقریب میں حلف اٹھایا، لیکن ان کا چہرہ ذمہ داری کے بوجھ سے زرد پڑ رہا تھا، خوشی سے کھلا ہوا نہیں تھا۔
سید منور حسن کا عہد جماعت اسلامی کو کیا دے گیا اور اس سے کیا لے گیا، اس پر بحث جاری رہے گی، وہ قاضی حسین احمد کے بعد اس منصب پر فروکش ہوئے تھے، لیکن اپنے پیشرو کی مسکراہٹ اور ملنساری کا مقابلہ ان سے نہیں ہو سکا۔ حلقہ ٔ مشاورت بھی محدود ہوتا گیا اور دائرہ رسوخ کو بھی پھیلایا نہ جا سکا۔ ان کا تقویٰ، دیانت اور جماعت سے کمٹ منٹ شک و شبہ سے بالا تھی، لیکن ان کے الفاظ مرہم نہ بن پا ئے۔ قاضی صاحب کی سیاست کو ان کی خوشگوار شخصیت نے ڈھانپ رکھا تھا، اس لئے اس کا معروضی جائزہ لینے کی ضرورت بہت کم محسوس کی گئی، وہ جماعت کے اندرونی اور بیرونی حلقے کو قبول رہے۔ منور صاحب کے لہجے کا غیر متوقع کھردرا پن ان کو یہ رعایت نہ دلوا سکا۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جب کوئی جماعت انتخابی سیاست کو اختیار کرتی، اپنے وسائل اور افرادی قوت کو اس محاذ پر جھونکتی ہے تو پھر اس کی طاقت کا اندازہ انتخابی کامیابی ہی سے لگایا جاتا ہے۔ نشستوں کی تعداد تو رہی ایک طرف، جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں بتدریج کمی ہوتی گئی ہے۔1970ء کے مقابلے میں2013ء کے انتخابات میں اس کو ملنے والے ووٹ بہت کم ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کے معروضی تجزیے کے بعد ہی جماعت اسلامی کی آئندہ حکمت عملی کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ سید منور حسن، امارت کے بوجھ سے آزاد ہو کر اس طرف دھیان دیں گے اور جماعت کے اندرونی اور بیرونی حلقوں کو اپنی ذہانت کی طرف متوجہ کر سکیں گے۔ گویا، اب تک دِل بے تاب کو تجھ سے ہیں امیدیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)