"MSC" (space) message & send to 7575

گورنر سرور کا استعفیٰ!

چودھری محمد سرور گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفیٰ دے کر گورنر ہائوس خالی کر گئے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے لاہور ڈیفنس میں ایک بڑا مکان حاصل کر لیا تھا، جو اِس بات کا اعلان تھا کہ حضرت کسی بھی وقت پتہ تبدیل کر سکتے ہیں اور یہ کہ منصب چھوڑنے کے بعد بھی اُن کا ارادہ مُلک (اور شہر) چھوڑنے کا نہیں ہے۔ وہ شوکت عزیز اور معین قریشی صاحبان کی طرح بریف کیس عہدیدار نہیں ہیں کہ عہدہ نہ رہا تو بریف کیس اُٹھا کر چلتے بنے۔ انہوں نے کلہّ یہیں گاڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گورنر بننے کے لئے اُنہیں برطانیہ کی شہریت سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی تھی کہ پاکستانی دستور کے مطابق کسی (اعلیٰ) منتخب ادارے کا رکن بننے کے لئے دوہری شہریت نہیں رکھی جا سکتی۔ گورنر بننے کے لئے رکن قومی اسمبلی بننے کی اہلیت ضروری ہے، سو انہوں نے اپنی برسوں کی کمائی (برطانوی شہریت) اپنے ہاتھوں لٹائی اور ایک بارپھر پاکستان کے ہو رہے۔
سرور صاحب برطانیہ عظمیٰ میں تین بار دارالعوام کے رکن منتخب ہو چکے۔ پہلی بار انہوں نے 1997ء میں کامیابی حاصل کی تھی اور چار دانگ ِ عالم میں ان کی دھوم مچ گئی تھی۔ وہ برطانوی دارالعوام کے پہلے مسلمان (اور پاکستانی) رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد تو یہ اعزاز کئی ایک کو حاصل ہو گیا، لیکن اول نمبر انہی کا تھا۔ سکاٹ لینڈ میں ان کی گدی پر ان کے صاحبزادے اَنس براجمان ہو چکے ہیں، گویا سکاٹش سیاست میں پاکستانی موروثیت کو انہوں نے متعارف کرا دیا ہے...یوں انگلستان کا پاکستان بنانے کے بعد وہ پاکستان کو انگلستان بنانے کے ارادے سے یہاں وارد ہو گئے، لیکن پاکستانی سیاست کے لئے وہ نووارد ہی تھے۔ عمران خان کی طرح چودھری سرور بھی1952ء میں اِس دُنیا میں تشریف لائے تھے۔ نواز شریف ان سے تین سال بڑے ہیں۔ گویا یہ تینوں حضرات ساٹھ (کی دہائی) کے پیٹے میں ہیں۔ اس لئے تینوں کے دل میں اگر ایک جیسی خواہشات موجزن ہوں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔نوازشریف اور عمران خان اگر اپنے آپ کو ہنوز کارآمد سمجھتے ہیں تو ہمارے 62سالہ چودھری صاحب نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کو چلا ہوا کارتوس قرار دے دیا جائے۔ اسی لئے ان کے کئی جاننے والے وثوق سے کہتے ہیں کہ وہ نچلے نہیں بیٹھیں گے۔ جلد یا بدیر پاکستان تحریک انصاف کی نذر ہو جائیں گے یا تحریک انصاف ان کی نذر ہو جائے گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ پیپلزپارٹی میں تو وہ جانے سے رہے کہ اس گھاٹ کا پانی وہ برسوں پہلے غٹاغٹ پی کر بدمزہ ہو چکے۔ پنجاب کی گورنری کے ذریعے انہوں نے مسلم لیگ(ن) کا ذائقہ بھی چکھ لیا ہے۔ اپنی پارٹی بنانے کا نتیجہ بھی ڈھاک کے تین پات ہی ہو گا، اس لئے تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور جماعت ایسی نہیں ہے، جہاں وہ جا کر چوکڑیاں بھر سکیں یا یہ کہیے کہ چوکے چھکے لگا سکیں۔ عمران انہیں اسی طرح برداشت کر لیں گے، جس طرح جاوید میاں داد کو کر لیا کرتے تھے۔ چودھری صاحب کے کئی قریبی دوستوں کا خیال ہے کہ انہیں آزادانہ خدمت خلق کرنی چاہئے، لیکن اہل ِ نظر یہ بات اچھی طرح دیکھ چکے ہیں کہ ''تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا‘‘۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ چودھری سرور صاحب نے گورنر بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد سابق ہونے کے ارادے باندھنا شروع کر دیئے تھے (رانا ثناء اللہ نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے) وہ ایک متحرک شخص ہیں، گورنر بننے سے پہلے انہوں نے یا تو پاکستان کا دستور نہیں پڑھا یا یہ سمجھا کہ گورنر سے متعلق آئینی دفعات پر اُسی طرح عمل ہو گا، جس طرح دوسری کئی دفعات پر ہو رہا ہے۔ یوں ساجھے کی ہنڈیا خوب پکے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا، وہی ہوا جو اقتدار کے خوگر ایک دوسرے کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔
استعفے کے بعد پریس کانفرنس میں انہوں نے ببانگ ِ دہل کہا کہ وہ عوام کی خدمت کا حق ادا نہیں کر سکے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں کو قبضہ گروپوں سے نہیں چھڑا سکے۔ امن و امان کی حالت بہتر نہیں بنا سکے۔ مجرموں اور قانون شکنوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے۔ مُلک کو امن اور سکون کا گہوارہ نہیں بنا سکے، وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ... حالانکہ ان میں سے کوئی کام بھی گورنر کے کرنے کا نہیں تھا، اُسے تو وہاں دستخط کر دینا ہوتے ہیں، جہاں وزیراعلیٰ کی طرف سے مشورہ دیا جائے اور یہ کام سرور چودھری صاحب بھی اسی طرح کرتے رہے ، جس طرح کوئی اور بیبا گورنر کر سکتا ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے گورنر ہائوس میں رہ کر عزت کمائی ہے، سرکاری گھر کے دروازے دل ہی کی طرح کھلے رکھے ہیں۔ اپنے حلقہ تعارف کی شادی، غمی میں بالالتزام شرکت کرتے رہے ہیں۔ اہل ِ دانش، اہل ِعلم اور اہل ِ صحافت سے تعلقات کو وسعت دی ہے۔ دِلوں پر ہاتھ رکھا ہے اور زخموں پر (اپنے الفاظ ہی کا سہی)مرہم لگاتے رہے ہیں۔ بے دھڑک اپنے دِل کو زبان دی ہے اور جو بات منہ میں آئی، سرکاری حدود و قیود کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہہ گزرتے رہے ہیں۔ اللہ کرے وہ آنے والے دنوں میں اپنی عزت کی حفاظت کر سکیں، جس بھی جماعت میں جائیں، اس کی طاقت کا باعث بنیں، لیکن ان سے یہ گزارش ضرور ہو گی کہ کوئی نیا خطِ تقرر وصول کرنے سے پہلے ''شرائط کار‘‘ پر اچھی طرح نظر ڈال لیں۔ یہ نہ ہو کہ پھر ہاتھ ملنا پڑیں اور یہ گنگنانا پڑے، ''ہم پیار میں دھوکہ کھا بیٹھے‘‘۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں