بھارتی نیتائوں کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات نے پاکستان میں شدید ردعمل پیدا کر رکھا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ڈھاکہ پہنچ کر بنگلہ دیش کی تخلیق میں بھارتی کردار کا فخریہ انداز میں ذکر کرتے ہوئے، اپنے آپ کو بھی اس تحریک کا ایک ''مجاہد‘‘ قرار دے ڈالا۔ انہوں نے وزیراعظم حسینہ واجد سے ''تمغہ ٔ اعتراف‘‘ وصول کیا، لیکن پاکستان کیا‘ دُنیا کے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب بھی کر دیا۔ یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش کی پیدائش میں بھارت کا رول ''دایہ‘‘ سے بڑھ کر تھا۔(اسے اس کا ''باپو‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے) اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ بھارتی فوجی افسر بھی اس پر کتابیں لکھ چکے اور غیر جانبدارمحققین بھی تفصیلات کو منظر عام پر لا چکے ہیں۔ نریندر مودی نے جو کچھ کہا، اُس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، لیکن ان کے الفاظ نے انہیں ''اقراری مجرم‘‘ بنا کر ضرور پیش کر دیا ہے۔ اس اعترافِ جرم نے جہاں بھارت کے کالے چہرے سے ایک بار پھر نقاب سرکائی ہے، وہاں دُنیا کو یہ بھی یاد دِلا دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ''کراس بارڈر ٹیررازم‘‘ کی بنیاد رکھنے والا کون تھا۔
چند ہی روز بعد ایک بھارتی وزیر نے میانمار کے اندر گھس کر کارروائی کرنے کا فخریہ اعلان کیا، اور بتایا کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والے جنگجوئوں نے سرحد پار کر کے پناہ حاصل کی، تو ان کا تعاقب کیا گیا، اور انہیں ہمسایہ مُلک کے اندر گھس کر تہہ تیغ کر ڈالا گیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے لئے بھی اس میں پیغام موجود ہے۔ گویا، اگر ضرورت سمجھی گئی تو پاکستانی سرحد کے اندر گھس کر بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ میانمار کی حکومت اور فوجی حکام نے بھارتی دعوے کی تردید کر دی، اور واضح کیا کہ انہوں نے اپنی سرحد کے اندر آ کر کارروائی کرنے کی کسی کو اجازت دی ہے، نہ ہی کوئی ایسی کارروائی عمل میں آئی ہے۔بھارتی فوج نے جو کچھ بھی کیا، اپنے ہی علاقے میں کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس معاملے میں بھارتی اور میانماری موقف میں کتنا فاصلہ ہے، اور اس کے دونوںممالک کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کا ذکر سو فیصد بے موقع اور بے محل تھا۔ بھارتی علاقے میں گھس کر کسی کارروائی کا ارادہ یا اعلان پاکستان کے کسی گروہ یا عنصر کی طرف سے ہر گز نہیں کیا گیا، تو پھر اس طرح کے بیان اور اس طرح کی دھمکی کا مطلب اشتعال انگیزی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس کے جواب میں یہ کہہ کر پاکستانی قوم کے جذبات کی درست ترجمانی کی کہ مہاراج، پاکستان میانمار نہیں ہے۔ یہاں بھولے سے بھی اس طرح کی کوئی حرکت نہ کر بیٹھئے گا۔
بھارتی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں پوری پاکستانی قوم نے اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کیا، فوجی قیادت نے جارحیت کے خلاف اپنے پُرعزم الفاظ سے قوم میں ایک نئی روح دوڑائی تو سیاسی قائدین نے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں احتجاجی قراردادیں منظور کرتے ہوئے دُنیا کو بھارتی جارحیت کی طرف متوجہ کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں مقیم غیر ملکی سفیروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اضطراب اور تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی رہنمائوں کے عاقبت نااندیشانہ بیانات کے باوجود پاکستان امن کی تلاش میں سرگرداں رہے گا، اور مسائل کے حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
بھارتی قائدین کے بیانات جتنے بھی قابل ِ مذمت کیوں نہ ہوں، پاکستان کو توازن اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اور ایٹمی طاقتوں کے تصادم سے یہ خطہ پتھر اور دھات کے زمانے کی طرف تو لوٹ سکتا ہے، فتح کا سہرا سجا لینے والے سر کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اس کا کہیں وجود بھی ہو گا۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان داخلی محاذ پر الجھا ہوا ہے،دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنے کے لئے کوشاں ہے، اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے اندرونی عناصر کو بے نقاب کرنے اور پھر کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگی ہوئی ہے، سرحدوں پر کسی کھلی جنگ کی تمنا نہیں کی جا سکتی۔ اگر اسے مسلط کر دیا جائے تو پھر بات دوسری ہے، اسے ایک ''قدرتی آفت‘‘ سمجھ کر اس کا مقابلہ (یقینا) کیا جا سکتا ہے، اور کیا جائے گا، لیکن اس کی دعا یا آرزو کرنے سے بڑی حماقت کا تصور ممکن نہیں ہے۔یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کی اکثر کارروائیوں کے پیچھے ''را‘‘ کا ہاتھ ہے۔ ارباب ِ اختیار کی اس بات میں جتنا بھی وزن کیوں نہ ہو، اور اس کے جتنے بھی شواہد موجود کیوں نہ ہوں، اس کی تکرار سے ہم اپنے آپ کو آسودہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہرقیمت امن قائم کرنا ہو گا، دشمن خواہ چھپا ہو یا کھلا، اسے ناکام بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
کراچی میں رینجرز کے ایک ترجمان نے ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی تفصیل سے نشاندہی کی ہے، اور بتایا ہے کہ سیاست کا لبادہ اوڑھنے والے کالے چہرے کس طرح وسائل لوٹ کر دہشت گردی اور لاقانونیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ بھتہ خوری، سمگلنگ اور غیر قانونی کاروباروں کے ذریعے 230ارب روپے سالانہ اکٹھے ہو رہے ہیں، اور انہیں ریاست کو کھوکھلا کرنے کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رینجرز نے ان ''مجرموں‘‘کی ایک فہرست بھی صوبائی حکومت کو پیش کر دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خارجی سے زیادہ داخلی محاذ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بیرونی دشمن کے پھیلائے ہوئے جال میںپھنس کر منزل کھوٹی کرنے کی بجائے، توجہ داخلی صورتِ حال پر مرکوز رکھی جائے۔ سفارتی سطح پر سرگرم ہو کر سرحدوں کو سرد رکھا جائے، وہاں تیل نہیں پانی چھڑکا جائے، اور اپنے عالمی دوستوں کو بھی قائل کیا جائے کہ وہ چنگاریوں کو شعلہ نہ بننے دیں،... بعض اوقات جنگ جیتنے کے لیے اس سے بچ جانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے داخلی مسائل پر قابو پا لیا، یہاں سیاست کو کالے چہروں سے محفوظ بنانے میں کامیاب ہو گئے تو ترقی اور خوشحالی کا سفر تب ہی شروع ہو سکے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)