71 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر کے طور پر حلف اٹھا کر اپنی تیسری اہلیہ کے ہمراہ وائٹ ہائوس میں براجمان ہو چکے ہیں۔ بارک حسین اوباما اب سابق ہیں‘ اگرچہ کہلائیں گے وہ صدر ہی۔ امریکی روایت میں عہدے پر فائز نہ رہنے والے صدر کو بھی سابق نہیں کہا جاتا، صدر کہہ کر ہی پکارا جاتا ہے۔ صدر اوباما اور صدر ٹرمپ میں پس منظر، مزاج اور اہداف کے حوالے سے بُعدالمشرقین ہے۔ اوباما شکاگو یونیورسٹی میں دستوری قانون (کانسٹی ٹیوشنل لا) کے پروفیسر رہے۔ پریکٹس بھی کی، بہت کچھ لکھا بھی۔ گریجوایشن کولمبیا یونیورسٹی سے کی تھی، جبکہ قانون کی ڈگری ہارورڈ لا سکول سے حاصل کی۔ صدر منتخب ہونے سے پہلے سیاست کے میدان میں ان کا وسیع تجربہ تھا۔ تین سال (2005-08ئ) سینیٹ کے رکن رہے۔ 2004ء میں اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں کلیدی خطاب کیا۔ اس سے پہلے سات سال تک الی نوائس (Illinois) کی سٹیٹ سینیٹ کے رکن رہے۔ ایک ہی شادی (مشعل اوباما سے) کی اور ان کی دو بیٹیاں ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ ٹرمپ ہوٹلز اینڈ کسینو ریزارٹس کے چیئرمین، ٹرمپ آرگنائزیشن کے بانی، چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو، کاروبار کئی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ وہ کبھی کسی ایوان کے رکن منتخب نہیں ہوئے۔ نہ ہی کسی منصب پر فائز رہے۔ وارٹن سکول آف فنانس سے اکنامکس اور ریئل اسٹیٹ میں گریجوایشن کی اور انہی شعبوں میں کمال دکھایا۔ 2000ء میں ریفارم پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی، لیکن پھر ارادہ بدل لیا۔ 2012ء میں صدارت کے لئے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کا خیال آیا، لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنا پائے اور اکھاڑے سے باہر ہی رہے۔ تین بار شادی کر چکے ہیں، پہلی دو بیویوں کے ساتھ طلاق کی نوبت آئی۔ تیسری اہلیہ کو وائٹ ہائوس میں قدم رکھنا نصیب ہوا ہے۔ پانچ بچوں کے والد ہیں۔ 1998ء میں ان کا تعارف موجودہ بیگم میلانیا، جو کہ ایک ماڈل تھیں، سے ہوا، جنوری 2005ء میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ٹیلی ویژن کی سکرین پر البتہ جوہر دکھاتے رہے اور ان کی فنکارانہ صلاحیتوں نے خود کو منوا رکھا ہے۔
ٹرمپ جب ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لئے میدان میں اترے تو اسے ایک مذاق سمجھا گیا۔ میڈیا ان کی حمایت کر رہا تھا، نہ کسی پول میں وہ نمایاں تھے، لیکن انہوں نے میدان مار کر ایک عالم کو حیران کر دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہلری کلنٹن مقابل تھیں اور سمجھا یہ جا رہا تھا کہ وہ امریکی تاریخ میں پہلی خاتون صدر کے طور پر اپنا نام لکھوا چکی ہیں۔ ایک بڑے امریکی نیوز میگزین نے تو نتائج کے اعلان سے پہلے ہی سرورق پر ان کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ چھاپ ڈالی تھی۔ صدارتی امیدواروں کے درمیان تین روایتی مباحثوں کے بعد بھی ہلری کا پلا بھاری بتایا جا رہا تھا۔ رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اداروں کے پولز کے مطابق ہر مباحثہ ہلری نے جیتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کسی ایک موقع پر بھی اپنی حریف پر بھاری ثابت نہ ہو پائے تھے، لیکن جب نتیجہ نکلا تو ہلری کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ٹرمپ کے حامی خوشی سے چلاّ رہے تھے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے مہم چلائی اور امریکی میڈیا کو چاروں شانے چت گرا دیا۔
ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے لے کر وائٹ ہائوس میں داخلے تک میڈیا سے ان کی بن نہیں پا رہی۔ سی آئی اے کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر تو انہیں کھلم کھلا زبان قابو میں رکھنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ سی آئی اے اور دوسری خفیہ ایجنسیوں پر ٹرمپ بھی علی الاعلان تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے لئے تو بہت کچھ کیا ہے، لیکن عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی اولین ترجیح امریکہ ہے۔ اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے اور اقتدار عوام تک منتقل کریں گے۔ جب وہ حلف اٹھا رہے تھے تو امریکی تاریخ میں پہلی بار واشنگٹن کی سڑکوں پر احتجاجی نعرے لگ رہے تھے۔ بڑی تعداد میں مظاہرین توڑ پھوڑ میں مصروف تھے۔ 2 سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ واشنگٹن سے باہر کئی شہروں، بلکہ کئی ملکوں میں یہی منظر تھا۔ یورپ میں کئی مقامات پر آہ و فغاں جاری تھی اور فلسطین میں بھی ماتم برپا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف روس اور اسرائیل میں مسرت اور اطمینان کا اظہار ہو رہا تھا کہ روس کے ساتھ ٹرمپ کے تعلقات امریکی ایجنسیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ایک دورے کے دوران مبینہ طور پر ان کی حرکات و سکنات کی فلمیں تیار کرکے پیوٹن ان کو مٹھی میں بند کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں۔ اس الزام کی ایک خصوصی کمیٹی باقاعدہ تحقیقات بھی کر رہی ہے کہ روس نے ہلری کلنٹن کو نقصان پہنچانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی اور ایسی معلومات افشا کیں، جن سے بالواسطہ ٹرمپ کو فائدہ پہنچا۔ اگرچہ روس اور ٹرمپ کے درمیان کسی ساز باز کی بات تو سامنے نہیں آتی، لیکن روسی مہم جوئی سے ان کو فائدہ پہنچنے کی بات پورے شد و مد سے بیان کی جا رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے اندر بہت سے حلقوں، خواتین، اقلیتوں اور تارکین وطن کو خوف میں مبتلا کیا ہے اور امریکہ سے باہر بھی روایتی حلیفوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو دنیا سے توجہ ہٹا کر اپنے داخل پر مرکوز کرنی چاہیے۔ نیٹو کے حلیفوں کو وہ دھمکاتے اور یورپی یونین کو بھی آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں۔ انہیں ''اکانومک نیشنلزم‘‘ کا علمبردار قرار دیا جا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں امریکی درآمدات اور ''آئوٹ سورسنگ‘‘ نے امریکہ کے اندر بے روزگاری میں جو اضافہ کیا ہے، وہ اس کو سرمایہ بنائے ہوئے ہیں۔ تارکین وطن ان کو کھٹک رہے ہیں اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے اعلان نے بھی بہت سوں کو ڈرا رکھا ہے۔ نیٹو کو وہ امریکہ پر بوجھ قرار دے رہے ہیں کہ وہ اس کے اخراجات میں شیر کا سا حصہ ڈال رہا ہے۔ نیٹو حکام اس کی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نیٹو میں شامل 28 ممالک اپنی آمدنی (گراس نیشنل انکم) کے مطابق اس کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ اس میں امریکہ کا حصہ 22 فیصد جبکہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا علی الترتیب 14.5 فیصد،11 فیصد اور 10.5 فیصد ہے۔ یروشلم میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کے اعلان نے اسلامی دنیا تو کیا یورپ کو بھی مضطرب کر رکھا ہے کہ اس کے بعد فلسطین کے مسئلے کے ''دو ریاستی حل‘‘ کے راستے میں رکاوٹ شدید ہو جائے گی۔ یہ متنازعہ علاقے پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا اور سینوں میں نئی آگ دہکا دے گا۔
پاکستان کو زیادہ پریشانی کی ضرورت یوں نہیں کہ ہمارا انحصار امریکی امداد پر نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کو دشمن بنانا (یا سمجھنا) ہمارے مفاد میں نہیں، اس سے تعلقات کار بہرصورت برقرار ہی نہیں ہموار بھی رہنے چاہئیں، لیکن اب ہماری گردن پر وہ انگوٹھا نہیں رکھ سکتا۔ چین کی ویٹو پاور کی موجودگی میں پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کو عالمی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر اپنی روش برقرار رکھیں گے تو ان سے بڑا خطرہ خود امریکہ کو ہو گا کہ اس کے اندر محاذ آرائی بڑھے گی۔ مختلف عناصر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور یوں سماج تہہ و بالا ہونے کا خطرہ سنگین ہو گا۔ کینسر جسم کے اندر ہی پیدا ہوتا اور اسے لقمہ بنا لیتا ہے۔ امریکہ اگر اپنی عالمی ''ذمہ داریوں‘‘ کو بوجھ سمجھ کر اٹھانے سے انکار کرے گا تو اس کا اثر و رسوخ بھی محدود ہو گا۔ یہ کئی ترقی پذیر ممالک کے لئے خوشی کی خبر ہو سکتی ہے، لیکن امریکہ کا آفتاب غروب کا سفر تیز کر دے گا۔ آٹھ سال پہلے بارک حسین اوباما پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے تو پوری دنیا میں امریکہ کا سر اونچا ہوا تھا۔ ہر امریکی اپنا سر فخر سے بلند کر سکتا تھا کہ گوروں کی اکثریت کے ملک میں ایک کالے امریکی اور مسلمان باپ کے ایسے بیٹے کو صدر چن لیا گیا ہے جس کے نام میں حسین کا لاحقہ اب تک لگا ہوا ہے۔ امریکی معاشرے کے انسانی چہرے کی اس سے اچھی تصویر اور کیا ہو سکتی تھی۔ دنیا بھر میں اوباما کے زیر قیادت ایک نئے امریکہ کو طلوع ہوتے دیکھا جا رہا تھا اور اس سے امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں۔ اس سے قطع نظر کہ یہ کہاں تک پوری ہوئیں اور کہاں تک نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچے ہیں تو منظر یکسر بدل گیا ہے۔ خود امریکہ کے اندر انصاف اور انسانیت کا قحط پڑنے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے۔ امریکہ کے اندر رہنے والے مختلف طبقات گھبرا رہے ہیں اور اپنے ہی ملک میں اپنے آپ کو غیر محفوظ پا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی ملک کو تقسیم کرکے اسے عظیم بنانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]