"MSC" (space) message & send to 7575

بانو آپا کا پاکستان

آپا بانو قدسیہ، اشفاق احمد خان صاحب کے بغیر کوئی بارہ برس اس دنیا میں رہیں، بالآخر صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ ان کی دنیا میں پہنچ گئیں۔ اس روز میری طبیعت قدرے بوجھل تھی۔ موبائل فون آف کرکے بستر پر دراز رہا۔ مغرب کے لگ بھگ اُٹھ کر ٹی وی آن کیا تو پٹی چل رہی تھی۔ بانو قدسیہ خدا حافظ کہہ گئی تھیں۔ اشفاق صاحب اور بانو آپا کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے نظروں کے سامنے آنے اور ان کے الفاظ کانوں میں سرسرانے لگے۔ اشفاق صاحب کے ساتھ لڑکپن ہی سے غائبانہ تعلق تھا۔ ان کا ریڈیو پروگرام ''تلقین شاہ‘‘ شوق اور توجہ سے سنا جاتا۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی تعلق گہرا ہوتا گیا۔ ڈرامے دیکھے، افسانوں پر نظر ڈالی، تقریریں سنیں۔ ان کو سنتے تو دل چاہتا کہ بس سنتے چلے جائیں۔ بات کبھی ختم نہ ہو۔ ان کی گفتگو کی اپنی لذت تھی۔ کسی اور کو یہ انداز نصیب نہ ہوا۔ ان کا اسلوب انہی سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہو گیا۔ وہ امید کو کبھی ڈوبنے نہیں دیتے تھے۔ ہر مشکل کو آسان بناتے اور ہر اندھیرے میں سے روشنی برآمد کرکے دکھا دیتے۔ پاکستان سے ان کو بے پناہ محبت تھی۔ یہ ان کے ایمان کا حصہ تھا۔ لڑکپن میں ''لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے پورے زور سے لگاتے رہے تھے، عمر بھر اس کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے سینہ سپر رہے۔ پاکستان اور اس کے نظریے کے خلاف ایک لفظ سن نہیں سکتے تھے۔ بانو قدسیہ بھی ایسی ہی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو اوڑھ رکھا تھا۔ قرآن کریم نے شوہروں اور بیویوں کو ایک دوسرے کے لباس قرار دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا پردہ رکھتے، گرمی سردی سے بچاتے اور ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے ہیں۔ اس آیت کی یہ میاں بیوی مکمل تصویر تھے۔ آپا بانو ''فنا فی الشوہر‘‘ صوفی تھیں اور اشفاق صاحب کی زبان پر بھی ان کا نام رہتا تھا۔ بانو آپا اپنی جگہ بہت بڑی ادیبہ اور ''دانشورہ‘‘ تھیں۔ مطالعہ بہت وسیع اور مشاہدہ بہت عمیق تھا۔ بات کی تہہ تک اترتیں اور اس کی پرت پرت کو گرفت میں لے لیتیں۔ ناول نگار کے طور پر تو ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، لیکن وہ آزادیء نسواں کی جدید تحریکوں سے متاثر تو کیا ہوتیں، ان کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ عورت کو تن کر مرد کے مقابل کھڑا ہونے کی کبھی تلقین نہ کی۔ مرد کو نیچا دکھانے اور اسے زچ کرنے کی خواہش کو وہ گناہ کبیرہ سمجھتی تھیں۔ ہمیشہ شوہر کے بازوئوں (بلکہ قدموں) کو جنت سمجھا اور سمجھایا۔ ان کو قبر کی مٹی بھی اپنے محبوب شوہر کی پائنتی ہی میں نصیب ہوئی ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
اشفاق صاحب کے آخری برسوں میں خوب فیضِ محبت اٹھایا۔ ان کے ہاں کے سبزی کے پکوڑے خاصے کی چیز تھے۔ جو ایک بار ان کو چکھ لیتا، دوبارہ کھانے کی خواہش پال لیتا۔ پنجاب کے مرحوم آئی جی پولیس چودھری سردار محمد بھی ان کے گرویدہ تھے۔ جب منصب سنبھالا تو پولیس افسروںکی اخلاقی اور ذہنی تربیت پر بھی توجہ دی۔ مذاکروں کا انعقاد کرتے اور اشفاق صاحب کو بطور خاص مدعو کرتے۔ مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملتا۔ ہفتے میں ایک، دو تین بار ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ بانو آپا کا باورچی خانہ باورچیوں کے سپرد نہیں تھا، وہ کھانا خود بناتیں یا اس کی کڑی نگرانی کرتیں۔ بیوی اور ماں کے فرائض کو انہوں نے کبھی ادب کی بارگاہ پر قربان نہیں ہونے دیا۔ ان کا لکھنے کا وقت مقرر تھا۔ انہوں نے بھی اشفاق صاحب کی طرح بہت لکھا، درجنوں کتابیں چھپیں، لیکن نسوانی فرائض کو طاقِ نسیاں پر نہیں سجایا۔ رزق حلال پر زور دیا اور یہ ان کی تحریروں کا مرکزی موضوع تھا۔ پاکستان سے محبت ان کی بھی نس نس میں تھی۔ دونوں میاں بیوی یکساں خواب دیکھتے اور پھر اپنے اپنے الفاظ ان کو عطا کر دیتے۔ ان کے ایک ناول کے دو کرداروں کی گفتگو کا ذائقہ چکھئے:
''اب بابا ہارا ہوا محسوس کرنے لگا۔ اسے لگا واقعی اس کا اس نئے گھر پر نہ کوئی حق ہے نہ دعویٰ۔ وہ ایسے ہی بدوبدی مان نہ مان میں تیرا مہمان بنا ہوا ہے۔ اس احساسِ شکست کے باوجود وہ بالشت بھر لڑکے سے ہار ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ''یار یہ ہمارا نیا وطن ہے ناں۔ پچھلے رشتے ناتے مک مکا ہوئے۔ یہاں آ کر نئے سنگی ساتھی بنے ہیں۔ نئے ماں پیو، نئے سنگی ساتھی۔ میرے پاس آ کر میری بات سن۔ بابا قائد اعظمؒ ہمیں کس لئے گھسیٹ کر یہاں لائے؟ یہاں کوئی ذات پات نہیں ہونی، سب برابر ہونے ہیں۔ سارے مسلمان، مدینے کے مالک نے کہہ دیا تھا، کالے گورے سب برابر۔ کوئی عجم کا ہو یا کوئی عرب کا‘ سب ایک جیسے۔ آج کے بعد تو نے بھی کسی کو یہ نہیں بتانا کہ کس ضلع سے آیا ہے۔ تیری کون سی ذات ہے۔ قائد اعظمؒ نے یہی تو ایک کام کیا ہے۔ ساری مخلوق رلا ملا دی ہے۔ سب کو ایک ساتھ ہل پھیر کر بتا دیا ہے کہ اس دیس میں اونچ نیچ نہیں ہونی۔ یہاں راجپوت مغل کچھ نہیں رہنا۔ ہم ہندو رسم و رواج پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہم نے ذات پات کے ہاتھوں بڑی مار کھائی ہے۔ ملیچھ، دلت، اچھوت کہلائے ہیں۔ اب اس پاک وطن میں سب نے برابر ہونا ہے، برابری دینی ہے اور لینی ہے...‘‘
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں