پشاور میں قومی اسمبلی کی ایک خالی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کر لی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ وہ وہیں کھڑی پائی گئی جہاں کہ 2013ء میں تھی۔ اُس وقت اس نے ضلع پشاور سے قومی اسمبلی کی (تمام) چار نشستیں حاصل کر لی تھیں اور صوبائی اسمبلی کی 11 میں سے دس پر اپنا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ یہ اور بات کہ جب عمران خان نے (جو کہ راولپنڈی، پشاور اور میانوالی کے تین حلقوں سے کامیاب ہوئے تھے) راولپنڈی کی نشست برقرار رکھنے کا فیصلہ کر کے میانوالی اور پشاور کی نشستیں خالی کر دیں تو ان کے ووٹروں نے اس پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ضمنی انتخاب میں ان کے امیدواروں کو دھتا بنا دیا۔ اے این پی کے ممتاز رہنما غلام احمد بلور اس کا فائدہ اٹھا کر قومی اسمبلی میں جا پہنچے۔ تازہ ضمنی انتخاب نے ثابت کیا ہے کہ اہلِ پشاور کا وہ غصہ وقتی تھا۔ عمران خان کی شکل میں بہت عرصے کے بعد خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کو ایک ایسا شخص میسر آیا ہے جو ایک کرشماتی شخصیت کا مالک ہے۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے خان عبدالقیوم خان، خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود کو بھی یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ قومی سطح کے بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی دھمک تو اب بھی محسوس کی جا رہی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ خان عبدالقیوم خان جیسا جادو کسی کے بھی پاس نہیں تھا۔ ان کے بعد عمران خان ابھرے ہیں کہ ہجوم ان کی طرف کھنچے چلے آتے، اور ان کے طرز تخاطب کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میانوالی جغرافیائی طور پر خیبر پختونخوا کا حصہ نہیں ہے، لیکن اس کے رہنے والے نیازیوں کی ''پشتونیت‘‘ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کی رگوں میں وہی خون دوڑ رہا ہے اور ان کی شخصیت خیبر پختونخوا کی بلند و بالا پہاڑیوں کے درمیان ہی پروان چڑھی دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے خان صاحب کو خیبر پختونخوا کی سیاست سے بے دخل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف یہاں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ اس نے جوڑ توڑ کے ذریعے (صوبائی) اسمبلی میں اکثریت بنا لی تھی۔ لگتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں اس کی پوزیشن مستحکم ہو گی، اور اس کے مخالفین الگ الگ رہ کر اسے زچ نہیں کر پائیں گے۔ حالیہ انتخاب میں اس کے حاصل کردہ 45734 ووٹوں کے مقابلے میں اے این پی کے 24874 اور مسلم لیگ(ن) کے24790 اکٹھے ہو جاتے تو ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہو جاتی۔
بہرحال... نکتہ طرازیوں اور نکتہ آفرینیوں سے قطع نظر تحریک انصاف نے پشاور میں اپنا حلقہ جیت کر اپنے مخالفوں کے منہ اُسی طرح بند کئے ہیں، جس طرح مسلم لیگ (ن) نے لاہور کے حلقہ 120 میں کامیابی حاصل کرکے اسے نیچا دکھانے کی خواہش پالنے والوں کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگرچہ برادر عزیز عمار مسعود نے دونوں انتخابی حلقوں کے موازنے میں یہ پتے کی بات بھی کہی ہے کہ پشاور میں ووٹنگ کی رفتار بہت تیز تھی، جبکہ لاہور میں بے حد سست۔ یہ کیفیت فطری نہیں تھی، دونوں کے پیچھے کچھ ایسا موجود تھا جو بظاہر نظر نہیں آ رہا تھا۔ حلقہ 120 میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کر کے ووٹ ڈالنے والوں کی رفتار سست بنائی جا رہی تھی، تاکہ ووٹ کم سے کم پڑیں... جبکہ پشاور میںدوڑ لگی ہوئی تھی کہ ووٹ زیادہ پڑ جائیں۔ الیکشن کمیشن کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ اس کی گاڑی پشاور اور لاہور کی سڑکوں پر یکساں رفتار برقرار کیوں نہیں رکھ پائی؟ عجب اتفاق یہ بھی ہوا کہ ایک پولیس کانسٹیبل متعدد جعلی ووٹ ڈالتے ہوئے پکڑا گیا۔ مزید اتفاق یہ ہوا کہ لاہور کی طرح 41 امیدوار یہاں قسمت آزمانے نہیں نکلے۔
یہ تو نہیںکہا جا سکتا کہ پشاور کی جیت نے 2018ء میں خان صاحب کی جیت کی تمہید باندھ دی ہے، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بڑے فریق کے طور پر موجود ہیں، اور موجود رہیں گے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے اور مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ ان سے ہو گا۔ پیپلز پارٹی اس حلقے کے مرحوم رکن قومی اسمبلی کے بیٹے کو اپنی صفوں میں کھینچ لائی، اس کے باوجود اس کے ووٹ کم ہی ہوئے۔ اس نوجوان امیدوار کو وہ ہمدردی (Sympathy) کا ووٹ بھی نہیں مل پایا، جو ان کے مرحوم والد کی بدولت ان کا سیاسی استحقاق سمجھا جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ ان کے والد گلزار خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب تو ہوئے تھے، لیکن اپنی جماعت سے ان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے تھے۔
پوچھا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اسی امیدار نے تن تنہا 2013ء میں 20412 ووٹ حاصل کر لئے تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کو 12519 ووٹ ملے تھے، ان دونوں کے ووٹ آفتاب شیرپائو کے ساتھ ملا کر اس بار 24790 بنے، تو جمعیت کے ووٹ کہاں گئے؟ آفتاب شیرپائو کی حمایت کا صلہ کیا ملا؟ مسلم لیگ (ن) کے کئی حلقوں کو یقین ہے کہ جمعیت کے سارے ووٹروں نے ان کو ووٹ نہیں ڈالے۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ بعض اوقات نظریاتی جماعتوں کے تمام تر ووٹروں کو ایک طرف ہانکنا ممکن نہیں ہوتا۔ نظریے ہی کا سہارا لے کر وہ بغاوت کر سکتے ہیں... لیکن اِس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھی میدان میں تھے، انہوں نے علی الترتیب 4116 اور 9935 ووٹ حاصل کئے۔ یہ ووٹ عام حالات میں جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی کے بھی ہو سکتے تھے، اور مسلم لیگ (ن) کے بھی... گویا ان دو جماعتوں کی تشریف آوری مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ جمعیت اور جماعت کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ جماعت اسلامی نے خاص طور پر جن نعروں کی پرورش کی ہے، اور اس کے امیر سراج الحق اپنی دستار کی پروا کیے بغیر جن فرقہ وارانہ امور کے ساتھ بغل گیر پائے گئے ہیں، انتخاب کے میدان میں انہیں ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا، فرقہ وارانہ جذبات کی تجارت میں وہی آگے بڑھے ہیں جن کی پرانی اور پختہ دکانیں اس بازار میں موجود ہیں۔ ہمارے ریاستی اداروں کو اس صورت حال پر غور کرنا ہو گا، قوم کی تقسیم در تقسیم سے وقتی ''فوائد‘‘ تو جو بھی حاصل کر لیے جائیں دور رس اثرات کو سمیٹنا آسان نہیں ہو گا۔
دِل کے ٹکڑے کرنے سے جسدِ خاکی کو توانا تو کیا کھڑا بھی کیسے رکھا جا سکے گا؟
دارالحکومت میں ''ایم کیو ایم لندن‘‘
اسلام آباد میں دن دیہاڑے ممتاز اخبار نویس احمد نورانی پر جس طرح نامعلوم افراد نے حملہ کر کے انہیں شدید زخمی کیا، اس نے ہر اُس شخص کو دُکھی کر ڈالا ہے جس کا کوئی بھی تعلق صحافت یا سیاست سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کو کچھ نہ کچھ بینائی بھی عطا کر رکھی ہے... وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، لیکن یقین مانیے تو یقین کرنے کو جی نہیں چاہ رہا... دارالحکومت جسے کیمرے نصب کر کے محفوظ بنانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے، اُس میں یہ واردات کرنے کی جرأت کس کو اور کیسے ہو گئی؟ کیا یہاں بھی کوئی''ایم کیو ایم لندن‘‘ قائم ہو گئی ہے، جو قانون اور ضابطے کے بجائے، چاقو، پستول اور دھونس کے ہتھیاروں سے اختلاف کی آوازوں کو بند کرنا چاہتی ہے؟ اگر ذمہ دار پکڑے نہیں جاتے تو پھر معاف کیجیے، بلند مناصب پر موجود حضرات کو یہاں بیٹھے رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہے گا۔ اسے ٹیسٹ کیس بنائیے، اور ان کو ڈھونڈ نکالیے، خواہ وہ کہیں بھی چھپے ہوئے کیوں نہ ہوں؟ ہر اُس آستین کی تلاشی لینا ہو گی، جو سانپ پالنے کا شوق اپنا بیٹھی ہے... ہمت کیجیے، کمر باندھیے اور کر ڈالیے وہ کچھ جو مردان میدان کر گزرتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)