مولانا فضل الرحمن صاحب مدِظلہ کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد عین اس روز ہوا جس روز پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف نبرد آزما تھی۔ پاکستانیوں کے دو ہی شوق ہیں، کرکٹ اور سیاست۔ دونوں کھیل انہیں پسند ہیں۔ کرکٹ دیکھنے کے لیے ان کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں، اور ہزاروں میل دور ہونے والا میچ بھی قریب نظر آتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین کے ذریعے آپ کھیل کے میدان میں جا موجود ہوتے ہیں، اور بعض اوقات وہاں موجود تماشائیوں سے زیادہ بہتر طور پر کھلاڑیوںکی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے لڑکپن میں ریڈیو کی کمنٹری مناظر دکھاتی تھی، اور سننے والے (آج کل کے) دیکھنے والوں ہی کی طرح باغ باغ ہو جاتے تھے۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ کرکٹ کو بھی اسی عفیفہ نے پال پوس کر جوان کیا ہے۔ جہاں جہاں برطانیہ کی حکومت قائم رہی، وہاں وہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ ایسے بھی ہیں جو برطانوی راج سے لطف اندوز نہیں ہو پائے، لیکن کرکٹ کا چسکا ان کو بھی پڑ چکا ہے۔ گورے سیاست کو کرکٹ کی طرح اور کرکٹ کو سیاست کی طرح کھیلتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی اور اہتمام کے ساتھ۔ کوئی سیاست میں حدود پار کرنے کی کوشش کرے تو کہتے ہیں: یہ کرکٹ نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں سیاست بے لگام ہے، اس کا کوئی قاعدہ ہے نہ قرینہ، ضابطہ ہے نہ طریقہ لیکن جو کچھ سیاست میں کر کے 'ثوابِ دارین‘ حاصل کرنے کی توقع باندھی جاتی ہے، وہ کچھ کرکٹ میں یہاں بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ محض قومی کھیل نہیں رہا، بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اور اس کی ''اقوام متحدہ‘‘ یعنی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ٹیموںکو اپنے نظم و ضبط میں باندھ کر رکھتی ہے۔ یہاں نہ کوئی ویٹو پاور ہے، نہ اس کے بل پر قواعد کو روندنے والے اسرائیلی اور بھارتی لاڈلے... پاکستان میں جس روز مولانا فضل الرحمن نے انواع و اقسام کی جماعتوں کو ایک گھاٹ پر لا بٹھایا، اس دن پاکستانی قوم کی نگاہیں نیوزی لینڈ سے میچ پر مرکوز تھیں۔ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ اگر اے پی سی آج نہ ہوتی تو ٹی وی سکرین پر اس کا راج ہوتا، اُس کی خبر سب سے پہلے نشر ہوتی، چوتھے یا پانچویں نمبر کی مستحق نہ سمجھی جاتی، لیکن بہت سے اس سے متفق نہیں تھے۔ ان کی پختہ رائے تھی کہ میچ ہوتا یا نہ ہوتا، اے پی سی اسی سلوک کی مستحق قرار پاتی کہ ڈوریاں ہلانے والے تو اپنی جگہ موجود رہتے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب کی توجہ جب اس طرف دلائی گئی تو انہوں نے مسکرا کر کہا ہم کوئی ون ڈے میچ نہیں کھیل رہے، گویا ایک لمبی اننگ پیش نظر، کسی ایک دن کی سرخیوں پر کیا گھبرانا، اور کیا اترانا؟
سنا ہے اے پی سی میں مریم نواز نے شرکا کی خصوصی فرمائش پر خطاب کیا۔ اپنے چچا شہباز شریف کے بعد کچھ کہنا اُن کو اچھا نہیں لگ رہا تھا، لیکن مولانا فضل الرحمن کی بزرگانہ اور بلاول بھٹو زرداری کی برادرانہ خواہش کو ٹالنا ممکن نہ رہا۔ ان کی تقریر کے دوران سناٹا طاری رہا، یعنی ''پن ڈراپ سائلنس‘‘... کس کس کو پن چبھی یا چبھوئی گئی یہ ذاتی معاملہ ہے۔ ڈھیروں سیاسی پنڈت اس پر متفق ہیں کہ مستقبل کی سیاست مریم اور بلاول کے گرد گھومے گی... جس طرح بے نظیر بھٹو کا راستہ ان کے ''انکلز‘‘ اور نوجوان نواز شریف کا راستہ مسلم لیگ کے ''انکلز‘‘ روک نہیں پائے تھے، اسی طرح تایا چچا ان کا راستہ بھی روک نہیں سکیں گے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کا کردار اپنا اپنا تھا، لیکن ہم عصر بہرحال تھے۔ ایک دوسرے کے مقابل انہوں نے دادِ 'شجاعت‘ دی۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھیں، جبکہ نواز شریف ان کی شفقتوں کے مستحق ٹھہرے۔ ایک کو غیظ و غضب کا چیلنج درپیش رہا تو دوسرے کو نگاہِ پسروی نے آگے بڑھایا۔ اگر بے نظیر بھٹو نہ ہوتیں تو وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور نواز شریف کی ضرورت بھی محسوس نہ کی جاتی۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو آگے لانے کا سبب بن گیا۔ اب حالات مختلف ہو چکے، سیاست بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری اور نواز شریف دونوں کے ہاتھ سے پھسل چکی۔ اس کی وجوہات الگ الگ ہیں، ان کا جائزہ ہر شخص اپنی بساط اور اوقات کے مطابق لے سکتا ہے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے خون سے صدارت حاصل کرنے والے آصف علی زرداری، اور ان کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہونے والے نواز شریف دونوں جیل میں ہیں۔ دونوں پر وزیر اعظم عمران خان دن رات برستے ہیں، اور جو الزامات وہ ایک دوسرے پر لگا کر اپنے اپنے حلقوں میں تالیاں وصول کرتے رہے‘ اب حریفِ اوّل ان کو دُہرا کر تالیں وصول کر رہے ہیں۔ نواز شریف کا جو حلقہ بہت مضبوط سمجھا جاتا تھا، وہاں اب عمرانی جھنڈا گڑا ہوا ہے اور آصف علی زرداری کی (دائو پیج میں) پی ایچ ڈی کی بھی تصدیق نہیں ہو پا رہی۔ سیاست مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی بلائیں لینے کی تیاری کر رہی ہے، اور ان کے ذریعے بلائوں کو ٹالنے کی خواہش پالی جا رہی ہے۔ یہ کس طرح آگے بڑھتے (یا پیچھے ہٹتے) ہیں، آنے والے دن ہی بتائیں گے... مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی سے کئی دوستوں نے جو توقعات باندھی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ متحدہ اپوزیشن پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
بجٹ قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے، سینیٹ اس کے خلاف ووٹ دے سکتی ہے کہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت ہے، لیکن سینیٹ کے منفی ووٹ سے بجٹ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، وہ سینیٹ کی منظوری کا محتاج نہیں ہے۔ اپوزیشن رہنما بجٹ کو مسترد کر چکے ہیں، شہباز شریف نے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا، لیکن حکومت اپنی اکثریت کو قابو کرنے میں کامیاب رہی۔ ایم کیو ایم، اختر جان مینگل اور مسلم لیگ (ق) نے اے پی سی کے دبائو سے فائدہ اٹھا لیا، اور جو جو کچھ جیب میں ڈالا جا سکتا تھا، اس پر ہاتھ صاف کر دکھایا۔ اپوزیشن اب بجٹ کے اثرات کا جائزہ لے کر قدم بڑھائے گی۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف فوری تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ البتہ کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک ان کی جگہ لینے والے کا نام تجویز نہیں کیا گیا۔ غالب امکان ہے کہ وہ بلوچستان سے ہو گا، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر غصہ اتارنے والے بھی اس کی وجہ بتا نہیں پا رہے۔ یہ درست ہے کہ انہیں آصف علی زرداری اپنے الہام کے زیر اثر لائے تھے، لیکن چیئرمین بننے کے بعد وہ خاصے 'بے ضرر‘ ثابت ہوئے ہیں۔ خان عبدالولی خان مرحوم کے جانشین، ان کے استعمال کردہ محاورے کے مطابق ہاتھیوں کی لڑائی میں مینڈکوں کا نقصان کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تو شوق پورا کر لیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے ایک سینئر ترین رہنما محمود الرشید سے پوچھا گیا کہ اب کیا ہو گا، تو انہوں نے پورے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ سوار اور سواری خود اپنے سامان کی حفاظت کریں گے۔
اپوزیشن بجٹ کی پیدا کردہ مشکلات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، لیکن قومی اقتصادی کونسل میں چیف آف آرمی سٹاف کی شمولیت اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ماہرین معاشیات کے اکٹھ سے ان کے خطاب نے واضح کر دیا ہے کہ معیشت پر سیاست کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ مشکل حکومتی فیصلوں کو کامیاب بنانا سب کی ذمہ داری ہے، گویا مذاقِ معیشت کو میثاقِ معیشت بنانے کی کوشش جاری رکھنا ہو گی۔ درپیش معاشی بحران حکومتی سے زیادہ ریاستی بنتا جا رہا ہے، اڑایا جا سکتا ہے تو چڑیوں کو کھیت چُگنے سے پہلے اڑا دیجیے!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)