پاکستانی سیاست اپنے سیاست دانوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ بہت کچھ دیکھنے کے باوجود وہ کچھ بھی دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی نئی نسلیں بھی اپنا اور دوسروں کا بویا کاٹ رہی ہیں۔ میدانِ سیاست میں وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں، جن کا بڑا اثاثہ ان کا خاندان ہے۔ سیاست ان کو ورثے میں ملی ہے، اور وہ اس پر نازاں ہیں۔ ورثے میں کسی شے کا ملنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس پر خدا کا شکر ادا کیا جانا چاہئے۔ مریم نواز شریف ہوں یا بلاول بھٹو زرداری ان کو وہ کچھ مل چکا ہے، جو سینکڑوں، ہزاروں تو کیا لاکھوں کو شدید محنت سے بھی ہاتھ نہیں آ پاتا۔ پاکستان میں کتنے ایسے سیاسی کارکن ہیں، جو برسوں ایڑیاں رگڑتے رہے، اور اب بھی رگڑ رہے ہیں، لیکن چند سو افراد کا اعتماد بھی حاصل نہیں کر پائے۔ مریم اور بلاول کو لاکھوں لوگ سننے آتے ہیں، ان کے نعرے لگاتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، ان کے ترانے گاتے ہیں اور ان کے لیے لڑنے مرنے پر بھی تیار نظر آتے ہیں۔ دونوں کا حلقہ اثر الگ الگ ہے، حلقہ انتخاب الگ الگ ہے، سیاسی جماعتیں اور ان کے شجرہ ہائے نسب الگ الگ ہیں، دونوں کو ایک ہی ترازو میں تولا نہیں جا سکتا، لیکن دونوں عمر کے اس مرحلے میں ہیں، جہاں خواب دیکھے جاتے اور ان کی تعبیر ڈھونڈنے کے ارادے باندھے جاتے ہیں۔ مستقبل کو گرفت میں لانے کی تمنا بیدار ہوتی ہے۔ اس لیے مریم اور بلاول‘ دونوں کو امید بھری نظروں سے دیکھا جا سکتا ہے، اور دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں اپنی اپنی سیاست کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
مریم کی بنیادی طاقت پنجاب میں ہے، لیکن گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ان کی پذیرائی دیدنی ہے۔ آزاد کشمیر کی حالیہ انتخابی مہم میں انہوں نے بھرپور جلسوں سے خطاب کیا، ٹھٹھ کے ٹھٹھ انہیں دیکھنے کے لیے جمع ہوئے، اور ان کی عوامی اپیل نے لوہا منوایا۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی وہ پُر ہجوم اجتماعات سے خطاب کرتی ہیں کہ وہاں بھی ان کی بات سننے کی خواہش شدت سے بڑھتی نظر آتی ہے۔ مریم، نواز شریف کی سیاست کی امین یا محافظ ہیں، ان کا مقدمہ بھی لڑ رہی ہیں، اور ان کے کئے دھرے کے اثرات بھی سمیٹ رہی ہیں۔ نواز شریف کو سیاست ورثے میں نہیں ملی تھی، انہوں نے اپنا نقش آپ جمایا اور مسلم لیگ میں اپنا رنگ بھرا۔ اس کی تاریخی حیثیت سے فائدہ اٹھائے ہوئے اسے نیا آہنگ اور نیا چہرہ دیا۔ انہیں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور گزرنا پڑ رہا ہے، ان کی تفصیل سے قطع نظر ان کی جماعت آج بھی ان کے ہاتھ میں ہے، اور اس کے ووٹر ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے آئینی صدر شہباز شریف ہیں، اور ہر آن وراثت اور سیاست کو نتیجہ خیز بنانے میں اپنے آئینی کردار کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مریم کے طوفانی جلسوں سے انتخابی طاقت کیسے کشید کی جائے‘ ان کی توجہ اس پر لگی ہوئی ہے۔ اس دو دھاری تلوار کی کون سی دھار کس طرح ان کے کام آئے گی، یہ ان کے غور و فکر کا موضوع ہے۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف کی سیاست جنرل ضیاء الحق کے سایے میں آگے بڑھی، انہوں نے ان کا کلّہ مضبوط کیا، اور اپنی عمر انہیں لگ جانے کی دعا کی۔ اُس وقت اعجازالحق عرب امارات میں ایک بڑے بینک سے وابستہ تھے۔ والد کی شہادت کے بعد واپس آئے تو ان پر بھی نگاہیں جمیں لیکن انہوں نے نواز شریف کی بیعت کر لی، اور ان کی مسلم لیگ کی صف اول میں جگہ پا کر خوش ہو گئے۔ اب ان کی مسلم لیگ اپنی ہے‘ لیکن نواز شریف کی مسلم لیگ کو وہ چھو نہیں پا رہے۔ اگر یکسوئی اور احتیاط سے کام کرتے رہے تو اپنے والد کی وراثت کا کچھ نہ کچھ حصہ بازیاب کرا سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری سندھ کے دیہی حلقے کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں، لیکن ان کا ماضی ملک گیر سیاست کا متقاضی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست ملک بھر میں تھی، اور ملک بھر کے لیے تھی، وہ وفاق کی علامت تھے، اور بلاول بھٹو کو بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے وفاق کی طاقت بننا ہے۔ وہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں، اور ان کے حامی سرشار ہیں۔ جوشیلے جیالے ''وزیر اعظم بلاول بھٹو‘‘ کے نعرے زور سے لگاتے، اور آپ ہی آپ متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ان دونوں نئے سیاست دانوں، اور ان دونوں پرانی جماعتوں کے مقابل وزیراعظم عمران خان تن کر کھڑے ہیں، ان کو پیچھے دھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کے مداحوں کو یقین ہے کہ مستقبل انہی کے ہاتھ میں رہے گا، آئندہ پانچ سال بھی ان کے ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی نے انہیں نئی توانائی اور نیا اعتماد فراہم کر دیا ہے۔
پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے لیے یہ تینوں جماعتیں اور ان کے نئے، پرانے رہنما دلچسپی کا سامان ہیں۔ وہ کسی سے مایوس ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں ہی کی بدولت سیاسی عمل آگے بڑھتا اور قوم کو جوڑتا ہے۔ ایک ہونے کا احساس دلاتا، اور ایک منزل پر یقین کو محکم بناتا ہے۔ ان تینوں کو یاد رکھنا ہو گا کہ دستور اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر وہ ایک دوسرے سے مختلف ہو کر بھی ایک دوسرے کی طاقت ہیں، سب مل کر سب کی طاقت ہیں۔ سیاست کا کھیل بھی کرکٹ کا کھیل ہے۔ اسے قواعد و ضوابط اور غیر جانبدار امپائروں کی موجودگی میں کھیلا جائے گا تو فضا خوشگوار رہے گی۔ بیٹنگ اور بائولنگ کے مقررہ ضوابط ہیں۔ ان کی پابندی کرکے ہی ٹیمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھاتی اور اپنے آپ کو ورلڈ کپ کا مستحق بناتی ہیں۔ اگر آپ نے اودھم مچائے رکھا، کبھی پچ کو گیلا کر دیا، کبھی گرائونڈ کو کھود دیا، تو پھر جیتنے والا بھی ہار جائے گا، کرکٹ کو سیاست کی طرح نہیں سیاست کو کرکٹ کی طرح کھیلئے اور خوب کھیلئے۔ آپ کو داد دینے والے ہر طرف نظر آئیں گے۔
اجمل جامی کو صدمہ
برادرِ عزیز اجمل جامی گزشتہ ہفتے اپنے والد کیپٹن(ر) محمد ارشاد سے محروم ہو گئے۔ 60سالہ کیپٹن صاحب کے دِل میں تکلیف ہوئی، اپنے پائوں پر چل کر ہسپتال پہنچے، لیکن وہاں پہنچتے ہی ڈھیر ہوگئے۔ ڈاکٹروں کی تمام تر کاوش کے باوجود آنکھیں نہ کھول پائے۔ مرحوم ایک دیانتدار، بااصول، نظم و ضبط کے پابند انسان تھے، اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی، اور پاکستانی صحافت کو اجمل جامی جیسا نوجوان اور ذہین اینکر نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور ان کے خاندان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ ایک سپاہی کے طور پر سفر کا آغازکرنے والے اس کپتان کو ہمارا سلام پہنچے، اور پہنچتا رہے۔
کامران شاہد اور فلم سٹار شاہد
عیدِ قربان کے موقع پر پاکستانی میڈیا کے ہیرو کامران شاہد نے اپنے والد، سپر سٹار فلمی ہیرو، شاہد کا جو انٹرویو کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک انتہائی اہم حصہ بن گیا ہے۔ ''دُنیا‘‘ نیوز پر دو قسطوں میں نشر ہونے والے اس انٹرویو نے پاکستان کے سیاسی اور عدالتی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ ایک ہیرو سے دوسرے ہیرو کا یہ مکالمہ پاکستانی سماج کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس پر تفصیلی اظہارِ خیال پھر کسی وقت ہو گا، اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت اسے دیکھیں، اس پر غور کریں اور پھر کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، ایک نہیں دونوں ہیرو صاحبان کے لیے۔ اداکار شاہد کے الفاظ کا انتخاب، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا انداز، کامران شاہد کے سوالات، دِل اور زبان واہ، واہ سے بھر گئے ہیں۔ سبحان اللہ۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)