"MSC" (space) message & send to 7575

نیلسن منڈیلا کو سلام

نیلسن منڈیلا طویل علالت کے بعد اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے95 سال یہاں گزارے اور بلا خوف ِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اُن کو یہ دنیا جس طرح ملی تھی، انہوں نے اسے ویسا نہیں چھوڑا۔ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کیا اور ایک عالمی مدبر کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ اُن کی شخصیت بنی نوع انسان کی مشترکہ متاع سمجھتی جاتی تھی اور اُن کا احترام ہر ملک میں کیا جاتا تھا۔ شاید اُن جیسا کوئی ایک بھی شخص اِس وقت موجود نہ ہو، جسے ہر قوم، ہر رنگ، ہر نسل، ہر مذہب اور ہر مکتب فکر اپنا سمجھتا ہو۔ وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، وہاں کی سیاست میں حصہ لیا، وہیں قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں، وہیں ایوانِ صدر تک پہنچے، لیکن اُن کے اثرات اپنے ملک تک محدود نہیں رہے، اُن کی فکر اور عمل نے دنیا بھر کو متاثر کیا اور اپنا گرویدہ بنا لیا۔
جنوبی افریقہ کی کہانی،دُنیا کے کئی دوسرے ملکوں سے مختلف نہیں ہے۔ سولہویں صدی میں یورپی تاجر یہاں پہنچے اور اپنے پائوں جماتے چلے گئے۔ اِس خطے کو اپنی کالونی بنا لیا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی گورے صاحب اِسی طرح پہنچے تھے اور تاجروں کے بھیس میں آ کر ہی یہاں اپنا جھنڈا لہرایا تھا۔ جنوبی افریقہ بہت سوں کے من کو ایسا بھایا کہ وہ یہیں کے ہو رہے۔ پاک و ہند میں تو ان لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، جنہوں نے اِس خطے کو اپنا بنایا۔ وہ ''مہمان‘‘ کے طور پر آئے اور ''استفادہ‘‘ کر کے چلتے بنے۔ یہاں کا موسم راستے کی دیوار بنا، یا کروڑوں کی آبادی نے ڈرا دیا، اِس بارے میں اپنے اپنے خیال کا گھوڑا دوڑایا جا سکتا ہے، لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ کی طرح ہمارے خطے کو یورپینز نے اپنا مسکن نہیں بنایا۔
نو آبادیاتی دور ختم ہوا، (یا ختم کرنا پڑا) تو جنوبی افریقہ میں موجود گوروں کی تعداد کالوں کے مقابلے میں کم تھی۔ اس کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ دستور میں نسل پرستی داخل کر دی گئی۔1948ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد قانونی طور پر گوری اقلیت کو سیاسی اور معاشی طور پر غالب کر دیا گیا۔ ہزاروں سال سے آباد مقامی باشندے دوسرے درجے کے شہری قرار پائے۔ ''آزادی‘‘ کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے گوروں اور کالوں کے درمیان شادیوں پر پابندی لگا دی۔ گوروں کی بستیوں میں کالے پرمٹ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے تھے اور اعلیٰ درجے کی ملازمتوں کا حصول بھی اُن کے لئے محال تھا۔ معاشی اور تعلیمی مواقع یکساں نہیں تھے، ان پر سفید فام اقلیت کا حق فائق تھا۔
منڈیلا ایک قانون دان تھے اور مقامی آبادی کے لئے مساوی حقوق حاصل کرنے کے علمبردار۔ انہوں نے عدم مساوات کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی۔ افریقن نیشنل کانگرس کے پرچم تلے اُن کی جدوجہد پُرامن تھی، لیکن پھر اس میں تشدد کا عنصر بھی داخل ہوتا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سے اُن کے اتحاد کے بعد دھماکے ہونے لگے اور مقتدر حلقوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ نیلسن منڈیلا کو ''دہشت گرد‘‘ اور ''غدار‘‘ قرار دیا جانے لگا، انہیں کئی بار حوالہ ٔ زنداں کیا گیا، مقدمے قائم کئے گئے، لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔1962ء میں انہیں غداری اور حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کے الزام میں پکڑا گیا اور ایک نام نہاد مقدمے کے ذریعے عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
نیلسن منڈیلا نے 27سال جیل میں گزارے، لیکن اُن کی آواز دنیا بھر میں گونجنے لگی۔جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور کئی ملکوں نے رائے عامہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے ساتھ تعلقات کو محدود کردیا۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھی نسل پرستی ناقابل قبول قرار پائی، لیکن امریکی حکومت ''کمیونسٹوں‘‘ کی مخالفت کے زعم میں نسل پرست افریقی حکومت کی پشت پناہی کرتی رہی۔اس کے نزدیک منڈیلا ''دہشت گرد‘‘ تھے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ان کی 90ویں سالگرہ کے موقع پر، یعنی 2008ء میں اُن کا نام دہشت گردوں کی امریکی فہرست سے خارج کیا گیا۔جب امریکہ بہادر نے یہ ''عنایت خسروانہ‘‘ کی تو اس وقت منڈیلا کو جیل سے رہا ہوئے برسوں گزر چکے تھے۔ وہ جنوبی افریقہ کی صدارت کے منصب پر فائز ہو کر سابق بھی ہوگئے تھے۔انہیں امن کا نوبل انعام بھی دیا جا چکا تھا اور وہ عملی سیاسیات سے ریٹائر ہو کر عملاً اپنے گھر تک محدود ہو گئے تھے۔
مزید دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینیٹر کینیڈی نے ایک اور ہم منصب کے ساتھ مل کر جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف معاشی پابندیوں کا بل منظور کرالیا، تو صدر ریگن نے اسے ویٹو کردیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اِس طرح کی پابندیوں سے جنوبی افریقہ کے حالات مزید خراب ہوں گے اور کالوں پر تشدد میں اضافہ ہو جائے گا، اِس لئے پابندیوں کا ہتھیار آزمانے کے بجائے ''دیگر ذرائع‘‘ سے راستہ نکالا جائے،لیکن امریکہ کی تاریخ میں پہلی اور (اب تک) آخری بار کانگریس نے اس ویٹو کو ویٹو کردیا اور جنوبی افریقہ پر پابندیاں لگا دی گئیں، اس سے براہ راست فضائی رابطہ منقطع ہوگیا اور معاشی امداد میں شدید کٹوتی کردی گئی۔
عالمی ردعمل نے سفید فام حکومت کو نیلسن منڈیلا کی رہائی پر مجبور کردیا۔اس مقام پر وہ منڈیلا اُبھر کر سامنے آئے، جنہوں نے نہ صرف اپنے ملک کو استحکام دیا، بلکہ دنیا بھر کے لئے بھی ایک مثال قائم کر دی۔ سفید فام اقلیت کو جوابی تشدد یا انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے انہوں نے آگے بڑھ کر گلے لگا لیا، اس کے حقوق بھی تسلیم کئے، صداقت اور معذرت کا کمشن قائم کیا کہ جس کے سامنے حقائق کا اعتراف کرنا ہی معافی کا استحقاق بن جاتا تھا۔
نیلسن منڈیلا اپنے ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے، لیکن ایک ٹرم کے بعد اپنے آپ کو اقتدار سے الگ کرلیا، یوں انہوں نے ایک اور مثال قائم کردی۔وہ ایک عالمی مدبر کے طور پر نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ ان کی آواز انسانی حقوق کے لئے اٹھتی اور پوری دنیا کے انسانوں کو توانائی بخشتی رہی۔ان کی تعزیت کے لئے سب سے پہلے صدر باراک اوباما کے الفاظ فضا میں گونجے، رخصت ہونے والے کو ''صدیوں کا آدمی‘‘ قرار دیا گیا۔امریکی جھنڈا سرنگوں کرنے کا اعلان بھی ہوا کہ یہ وہ اعزاز ہے جو کسی غیر امریکی کو آج تک نصیب نہیں ہوا۔سائوتھ کیرولینا کے شیرف نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے دفتر کا جھنڈا سرنگوں کرنے سے انکار کردیا کہ یہ صرف امریکی جانبازوں کے لئے خاص رہنا چاہئے، لیکن یہ ایک کمزور آواز تھی، پورا امریکہ تو اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ 
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں