"MSC" (space) message & send to 7575

عبرت کا ایک اور مقام

بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملّا کے ''عدالتی قتل‘‘ کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی وزارت ِ خارجہ تو ابھی تک اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اس کے خلاف آواز بلند کرنے سے انکاری ہے، لیکن قومی اسمبلی نے اپنے اضطراب کا اظہار کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے قوم کی زبان بن کر اس پر گہرے رنج کا اظہار کیا اور برملا کہا کہ اس پھانسی نے پرانے زخم ہرے کر دیے ہیں۔ قرار داد تاسف قومی اسمبلی نے منظور تو کر لی، لیکن پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اس کی مخالفت کی۔ اے این پی کے ارکان نے ایوان میں اپنی غیر حاضری کو یقینی بنایا اور یوں اس امتحان میں اپنے آ پ کو کامیاب قرار دلوا لیا۔ پیپلزپارٹی کے کئی ارکان نے عبدالقادر ملّا کے حق میں بات کرنے کو بنگلہ دیش کے عدالتی امور میں مداخلت قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ وہ اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے کو ابھی تک پاکستان کا داخلی معاملہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے، وہاں بھی اس نے کسی ایسی قرارداد کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا، جس میں عبدالقادر ملّا کے خونِ ناحق پر دُکھ کا اظہار کیا گیا ہو۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ پیپلزپارٹی متحدہ پاکستان کی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو حکومت سازی کا حق دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ اس کے بانی چیئرمین نے لاہور میں کھڑے ہو کر ڈھاکہ میں طلب کئے جانے والے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ علی الاعلان دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے ڈھاکہ جانے کی کوشش کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ان کے اپنے مُنہ زور ایم این اے، احمد رضا قصوری اس پر خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے تھے اور ڈنکے کی چوٹ کہا تھا کہ وہ بائیکاٹ نہیں کریں گے۔
تاریخ کا یہ عجب موڑ تھا کہ اسی کی کوکھ سے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا وہ یحییٰ خانی اعلان برآمد ہوا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مارشل لا کی رٹ ختم ہو گئی۔ بپھرے ہوئے جذبات نے وہ نعرہ بغاوت بلند کیا، جس کو نیچا دکھانے کے لئے25 مارچ کو فوجی کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بآواز بلند کہا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ جبکہ اس ہی کے نتیجے میں16دسمبر کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوجوں کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا ڈالا گیا۔ 25مارچ کے بعد عبدالقادر ملّا اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو ایک ہی راستے پر چل رہے تھے، دونوں کے درمیان مرتبے اور مقام کا بہت فرق تھا، لیکن ایک گاڑی کے فرسٹ اور انٹر کلاس کے ڈبے ہم راہی تو بہرحال ہوتے ہیں۔ عوامی لیگ کے بعض ارکان کو نااہل قرار دے کر ان کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تو پیپلزپارٹی نے بھی جماعت اسلامی ہی کی طرح ان میں حصہ لیا یا یہ کہیے کہ حصہ وصول کیا۔ (مشرقی پاکستان میں) اپنے جثے کے مطابق۔ اقتدار کے ساتھ ناتہ دونوں نے جوڑ لیا تھا اور عوامی لیگ کے بغیر پاکستان میں بحالی ٔ جمہوریت کے سفر پر دونوں بگٹٹ گامزن تھے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ اس سب کچھ کے نتیجے میں بھٹو صاحب اور اُن کے رفقاء کو نیا پاکستان مل گیا، جبکہ جماعت اسلامی اور اس کے ہم نوا بنگلہ دیش میں منفی نتائج بھگت رہے ہیں۔ اگر عبدالقادر ملّا اور اُن کے ساتھیوں کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کسی واردات کا ملزم قرار دیا گیا ہوتا اور وہاں کی عدالتوں نے منصفانہ سماعت کے بعد اُن کو سزا سنائی ہوتی تو پھر پیپلزپارٹی کا موقف سو فیصد درست قرار پاتا۔ اگر کسی پرانے جرم میں بھی انصاف کے تقاضے پورے کر کے سزا سنائی جاتی تو بھی ردعمل مختلف ہوتا، لیکن یہاں تو ایک (اس وقت کی) بارہ ، تیرہ سالہ بچی کی واحد گواہی پر انحصار کرتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ وہ بچی جو اس سے پہلے یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے کسی قاتل کو نہیں پہچانتی۔ گواہ کو برقعہ پہنا کر عدالت میں لایا گیا، کسی کو اُس کا چہرہ دیکھنے اور اُس کی شناخت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور یہ ثابت ہی نہیں کیا جا سکا کہ 42سال پہلے کی جو لڑکی 65سال کی خاتون بن کر شہادت دے رہی ہے، وہ واقعتاً وہی ہے یا اُس کا کوئی فرضی وجود کھڑا کردیا گیا ہے۔
یہی نام نہاد عدالت تو ہے جس نے متحدہ پاکستان کی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کے بیٹے صلاح الدین قادر چودھری کو بھی پھانسی کی سزا سنا ڈالی ہے اور (آج کے) پاکستان میں رہنے والے ان کے دوستوں کی یہ چیخ و پکار نہیں سنی کہ وہ تو ان دِنوں لاہور (اور ملتان) میں مقیم تھے۔ بنگلہ دیش کی حکومت ہی تو ہے جس نے قادر چودھری کے دوست اسحاق خاکوانی کو ویزہ نہیں دیا، تاکہ وہ تصدیق شدہ دستاویزات لے کر ڈھاکہ پہنچ سکیں اور نام نہاد عدالت کو خون ِ ناحق سے روک سکیں۔ اگر یہ سب کچھ جو ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے، عدالتی کارروائی قراردے لیا جائے تو اس سے بڑا جھوٹ اور کیا بولا جا سکتا ہے؟ اگر اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے کو داخلی معاملے میں مداخلت قرار دیا جائے تو انسانیت کے خلاف اس سے قبیح جرم کیا ہو سکتا ہے؟ دیکھنے اور سننے والے اسے عوامی لیگ کے ''احسان‘‘ کا بدلہ اتارنے کا نام دیں تو اس کی داد البتہ دی جا سکتی ہے کہ عوامی لیگ اگر ایک صوبے کی حکومت پر مطمئن ہو کر اسے علیحدہ ملک بنانے میں کردار ادا نہ کرتی تو پیپلزپارٹی کو اس کا ''نیا پاکستان‘‘ بھی میسر نہ آتا۔ یہ اور بات کہ قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کے جس اعلان کے نتیجے میں خون کے دریا بہے، اِسی نے اس باغی کو بھی جنم دیا، جس کا نام احمد رضا قصوری تھا اور جس کے ذریعے اس کہانی نے آگے چل کر عبرت کے ایک اور مقام تک پہنچنا تھا۔
( یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روز نامہ '' پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں