''جیو نیوز‘‘ کے خلاف وزارت دفاع کی شکایت پر بالآخر پیمرا نے فیصلہ سنا دیا۔ پندرہ دن کے لئے چینل پر پابندی عائد کر دی گئی اور ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں نشریات پر پابندی برقرار رہے گی۔ یہ شکایت ڈیڑھ ماہ پہلے دائر کی گئی تھی، لیکن فیصلے کی نوبت6جون کو آئی۔ ایک دن پہلے حکومت نے پیمرا کے رکن پرویز راٹھور کو اس کا قائم مقام چیئرمین مقرر کیا، انہوں نے فوری طور پر اجلاس طلب کر کے فیصلہ سنا دیا۔ اتھارٹی کے غیر سرکاری ارکان کو اجلاس کے انعقاد کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ وہ ''جیو‘‘ نیوز کی نشریات کو غیر معینہ عرصے تک معطل کرنے کا حکم کئی روز پہلے جاری کر چکے تھے، لیکن اُن کے اس اقدام کو اِس لیے غیر قانونی قرار دیا گیا کہ اُن کو اپنے طور پر اجلاس طلب کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ پیمرا نے ایک ادارے کے طور پر اُن کی طرف سے کی گئی کارروائی کو سند ِ جواز دینے سے انکار کر دیا۔
''جیو‘‘ نیوز نے اپنی نشریات بند کر دی ہیں۔ امکانِ غالب یہی ہے کہ اس کی انتظامیہ کو عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا جو حق حاصل ہے، وہ اسے استعمال کرے گی اور اس کی طرف سے حکم امتناعی جاری کرنے کی بھی درخواست کی جائے گی۔ پیمرا کی طرف سے کیے جانے والے متعدد فیصلوں کے خلاف اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان کی طرف سے جاری کئے جانے والے احکامِ امتناعی متاثرہ فریقین کو ریلیف فراہم کر چکے ہیں۔ کئی قانونی ماہرین کی طرف سے پیمرا کی تشکیل پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقل چیئرمین کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ قانونی طور پر فعال ادارہ نہیں رہا۔ یہ نکتہ بھی اُٹھایا گیا ہے کہ قائم مقام چیئرمین نام کا کوئی منصب پیمرا آرڈیننس میں موجود نہیں ہے، اس لیے اس پر کسی کو مقرر کر کے چیئرمین کے اختیارات اس کو سونپ دینا قانونی جواز نہیں رکھتا۔ اس شک کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ عجلت میں کیے گئے فیصلے نے''جیو‘‘ کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور وہ مضبوط دلائل کے ساتھ اپیل میں جا سکے گا۔
پیمرا اور اس کے حکم نامے کے بارے میں جو بھی کہا جائے یہ ایک حقیقت ہے کہ معاملے کو لٹکانے سے الجھائو بڑھا ہے، کم نہیں ہوا۔ اگر پیمرا کی تکمیل فوری طور پر کر دی جاتی اور یہ شکایت کی سماعت کر کے اپنا فیصلہ صادر کر دیتی، تو معاملہ آگے بڑھ جاتا۔ وہ صورت حال پیدا نہ ہو پاتی جو گزشتہ کئی ہفتوں سے دیکھنے میں آ رہی تھی۔ کیبل آپریٹرز کے خلاف ''جیو‘‘ کی شکایت کی شنوائی کا کوئی اہتمام ممکن نہیں ہو پا رہا تھا... پیمرا کے فیصلے پر جہاں میڈیا تنظیموں اور اداروں کی طرف سے بے اطمینانی اور اضطراب کا اظہار کیا گیا ہے اور اسے آزادی ٔ اظہار کے لئے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے، وہیں بعض سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کی طرف سے سزا کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت دیر کے بعد بہت تھوڑی سزا دی گئی ہے اور اس سے دفاعی اداروں کے جذبات کی تسکین نہیں ہو سکے گی۔وزارت دفاع نے اس کے خلاف اپیل دائر کر نے کا اعلان کر دیا ہے،وہ بھی سزامیں اضافہ چاہتی ہے۔ ''جیو‘‘ انتظامیہ کی طرف سے ایک دن پہلے، اپنے خلاف دائر کی جانے والی شکایت کے حوالے سے شکایت کنندگان کو ازالہ حیثیت عرفی کے نوٹس بھجوائے گئے تھے اور اس کی شہرت کو داغدار کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اُن سے 50ارب کے ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی رگِ فقاہت اس پر یوں پھڑکی ہے کہ دفاعی اداروں کی عزت کی قیمت ایک کروڑ لگائی گئی ہے، جبکہ ''جیو‘‘ اپنی عزت کو50ارب میں تول رہا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ''جیو‘‘ نیوز اور آئی ایس آئی کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے نے جو تلخی پیدا کی ہے وہ کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ ''جیو‘‘ انتظامیہ نے باقاعدہ معذرت نامہ چھپوایا اور نشر کیا، لیکن کہا جا رہا ہے کہ متاثرہ فریق نے اسے منظور نہیں کیا، اس کے نزدیک اس کے الفاظ مناسب نہیں تھے یا وہ معافی کو سرے سے قبول کرنے کے لئے ہی تیار نہیں، اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بہرحال سامنے رہنی چاہیے کہ ''معذرت‘‘ کا اظہار ایسی بات نہیں ہے کہ جسے یکسر جھٹک دیا جائے یا بالکل درخوراعتنا نہ سمجھا جائے۔ اسلامی معاشرے میں تو عفوو درگزر سے کام لینے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اکرم و معظمؐ معاف کرنے پر زور دیتے ہیں۔ گناہ کبیرہ کو بھی توبہ کے آنسو دھو دیتے ہیں۔ قتل جیسے جرم تک میں ورثا کو اگرچہ قصاص کا حق دیا گیا ہے، لیکن معافی کی ترغیب دینے سے گریز نہیں کیا گیا۔ آدم کی تو ابتدا ہی ایک غلطی (نافرمانی ) سے ہوئی، اظہار ندامت نے جس کی تلافی کر دی ۔ جو لوگ ہر وقت غیظ و غضب میں مبتلا رہتے ہیں اور ہر شخص کو اس کے کردہ یا نا کردہ گناہوں کی سزا دینے کے لئے بضد رہتے ہیں، انہیں قرآن کریم، سیرت پاک اور تاریخ ِ اسلام کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
میڈیا کے اداروں کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ غلطی کا امکان ہر وقت رہتا ہے اور اکثر اوقات اس کو چھپایا بھی نہیں جا سکتا۔ اہل ِ سیاست اور اہل دین ودانش بہت کچھ چھپ کر بھی کر سکتے اور زہد و تقویٰ کا دعویٰ برقرار رکھ سکتے ہیں، لیکن میڈیا جو کچھ کرتا ہے، وہ ڈنکے کی چوٹ کرتا ہے یہ چھُپتا نہیں چھپتا ہے، خاموش نہیں رہتا، بولتا ہے۔ اس لیے اس کی کوتاہیاں یا لغزشیں بھی کھل جاتی ہیں۔ بعض کوتاہیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا مداوا قید یا جرمانے کی سزا سے بھی نہیں ہو سکتا، انہیں صرف معذرت کے پانی ہی سے دھویا جا سکتا ہے۔ دفاعی اداروں کو اگر غصہ دلایا جائے، کہ ان کی دِل آزاری، ناقابل معافی جرم ہے، تو اس سے ان کی حیثیت کو متنازعہ بنانے والوں کی چاندی ہو جائے گی۔ ایک قوم کے فرد کے طور پر ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا اور ایک دوسرے کے لیے دل بڑا کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو گنوانے،دہرانے، یا ان کے طعنے دینے سے نہیں، ان کو معاف کرنے اور ان سے سبق سیکھنے سے معاشرے آگے بڑھتے ہیں اور ان میں یکجہتی فروغ پا سکتی ہے۔بعض اوقات معافی کو رد کر دینا بذاتِ خود ناقابل ِ معافی بن جاتا ہے۔
پاکستان کا کیا دنیا کا کوئی انسان یا ادارہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ غلطیوںسے مبرا ہے‘ اس سے کوئی فروگذاشت سرزد نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کے محاورے تو دنیا کی ہر زبان میں موجود ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس لیے کسی چینل کی بندش پر بغلیں بجانے اور ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرنے والے اپنے وطن اور اس کے محترم اداروں کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ وہ آتش ِ انتقام کو بھڑکا کر بہت کچھ بھسم تو کر سکتے ہیں، بہت کچھ بچا نہیں سکتے۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دینے والے ہی اپنی غلطیوں کی معافی کا استحقاق قائم کر پاتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)