ملتان میں ضمنی انتخاب کا معرکہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔مخدوم جاوید ہاشمی کی جگہ اب عامر ڈوگر قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر149 کی نمائندگی کریں گے۔1985ء کے بعد یہ دوسری بار ہوگا کہ جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں موجود نہیں ہوں گے۔وہ 1988ء میں منتخب نہیں ہو پائے تھے، لیکن ان انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی اسمبلی 1990ء میں تحلیل کر دی گئی۔اس کے علاوہ چودہ سال وہ قومی اسمبلی میں اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے۔ ہر انتخاب میں حصہ لیا اور اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو بھی مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخاب میں حلقہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔1997ء کے انتخابات میں ملتان ہی سے ان کا مقابلہ عامر ڈوگر کے مرحوم والد صلاح الدین ڈوگر سے ہوا تھا جو پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے۔ ان کو تیس ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ باپ کی پارٹی پر تین حرف بھیجنے والے بیٹے نے اپنے باپ کا بدلہ لے لیا ہے۔
جاوید ہاشمی1988ء میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پرچم تلے انتخابات میں حصہ لیا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی ، غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی اور مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی کے مقابل یک جان بنے ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے تھے، لیکن اس سے پہلے وہ محمد خان جونیجو کے اقتدار کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔اگر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے تحلیل نہ کیا جاتا تو انتخابات 1990ء میں ہوتے اور ممکن تھا کہ محمد خان جونیجو کے زیر قیادت مسلم لیگ اس میں خم ٹھونک کر میدان میں نکل آتی۔ جونیجو سے جنرل ضیاء الحق کے اختلافات نے حالات کا رخ بدل دیا۔ جونیجو اقتدار کے انتقال پرملال کے بعدمسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی، ایک طرف صوبہ سرحد (اب خیبر پی کے) کے ممتاز مسلم لیگ رہنما فدا محمد خان کے زیر قیادت، جونیجو مخالف اکٹھے ہوئے تو دوسری طرف محمد خان جونیجو اپنی ''بھیڑوں‘‘ کو اکٹھا کرنے لگ گئے ۔چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ فدا محمد خان کے ساتھ تھے۔پنجاب میاں نوازشریف کی جیب میں تھا، اس لئے (جنرل ضیاء الحق کے بعد) ان کا کردار اہمیت اختیار کر گیا۔اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد رکھی گئی تو غلام مصطفی جتوئی اور نوازشریف ہم قدم تھے، لیکن آہستہ آہستہ مسلم لیگ اور اسلامی جمہوری اتحاد نوازشریف کی اور نوازشریف ان کی طاقت بن گئے۔محمد خان جونیجو نے اس حقیقت کو ابتدا ہی میں تسلیم کرلیا اور اپنے سرپرستانہ کردار پر اکتفا کر گئے۔
1988ء کے انتخابات میں جاوید ہاشمی اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار تھے۔مسلم لیگی رہنمائوں نے تقاضا کیا کہ وہ ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں، لیکن جاوید ہاشمی نے ٹکٹ کی خاطر جماعت میں شمولیت اختیار کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور مطالبہ کیا کہ انہیں اسلامی جمہوری اتحاد کے رکن کے طور پر ٹکٹ دیا جائے۔یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا تو انہوں نے مسلم لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیا۔اس عجیب رویے کا سبب پوچھا گیا تو ان کا واضح جواب تھا، مَیں ٹکٹ لینے کے لئے کسی جماعت میں شامل ہونے کا تصور نہیں کر سکتا، چونکہ ٹکٹ اس شرط کے بغیر دے دیا گیا ہے، اس لئے اب اس فیصلے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مخدوم رشید کے ہاشمی خاندان کے لئے مسلم لیگ یوں بھی اجنبی نہیں تھی کہ تحریک پاکستان کے دوران، مخدوم محمد شاہ ہاشمی ملتان کے گیلانیوں کے اتحادی تھے اور قیام پاکستان کے لئے جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔اپنے والد کی روایت کو جاوید ہاشمی نے پھر زندہ کر دیا تھا۔ کس کو خبر تھی کہ آئندہ 23سال وہ اس جماعت کے لئے خود کو وقف رکھیں گے اور اس کی قیادت کا تاج بھی ان کے سر سجے گا۔
نوازشریف کو جنرل پرویز مشرف کے غاصبانہ قبضے کے بعد جلاوطن ہونا پڑا تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے ان کی نگاہ انتخاب جاوید ہاشمی پر ٹھہری۔پرویز مشرف کے بالاتر از دستور اقدام کے بعد جب نوازشریف کو کال کوٹھڑی میں پہنچا یا گیا تومحترمہ کلثوم نواز میدان میں نکلیں، اس وقت مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں میں سب سے آگے جاوید ہاشمی تھے۔ انہوں نے محترمہ کا ساتھ دینے کا حق ادا کیا اور نوازشریف کے دل میں سما گئے۔ان کی غیر حاضری میں جاوید ہاشمی کو بھی بغاوت کے ایک نام نہاد مقدمے میں حوالہ ء زنداں کر دیا گیا، ان کے پانچ سال وہیں گزرے، لیکن پرویز مشرف سے کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ ہوئے۔مسلم لیگ(ن) اپنا تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
2008ء کے انتخابات کے بعد جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے شکایتیں بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ 2011ء میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان کے اندر کے باغی نے ایک اور بغاوت کرکے دکھا دی۔عمران خان نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔کراچی کے جلسے میں خطاب کے لئے پہنچے تو ایئرپورٹ پر استقبال کے لئے عمران خود موجود تھے۔ جلسہ گاہ ''باغی‘‘ ،''باغی‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔جلد ہی انہیں تحریک انصاف کا صدر بنا دیا گیا۔عمران خان چیئرمین تھے، مخدوم شاہ محمود قریشی وائس چیئرمین تو جاوید ہاشمی صدر قرار پائے تھے۔ان کی سنیارٹی اپنے آپ کو منوا چکی تھی۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کا جنون جاوید ہاشمی کے سامنے بے قابو ہو جاتا، وہ دیوانہ وار''باغی‘‘ ،''باغی‘‘ کے نعرے لگاتے اور جوانی سے کوسوں دور نکل جانے کے باوجود جوان ہو جاتے۔وہ جوانوں کی زبان تھے اور جوان انہیں اپنا سائبان قرار دیتے تھے۔ تحریک انصاف جاوید ہاشمی کو خوب راس آئی، انہیں مسلم لیگ (ن) کے متوالے بھول گئے، لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ عمران کے آزادی مارچ نے انہیں وسوسوں میں مبتلا کر دیا۔دھرنا انتخابی اصلاحات کو بھول کر وزیراعظم کے استعفے پر بضد ہو گیا اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا گیا تو جاوید ہاشمی کو گزرے ہوئے مناظر یاد آ گئے۔ عمران خان کے اردگرد منڈلانے والے کئی دوستوں کی حرکات و سکنات پریشان کرنے لگیں، انہیں خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں عمران خان کے ساتھ بھی وہ نہ ہو جائے جو ایئر مارشل اصغر خان کے ساتھ ہو چکا تھا۔ وہ عمران خان کا اصغر خان بنانے پر آمادہ نہ ہو پائے اور چیخ اٹھے، خبردار، جمہوریت کا گلا گھٹنے نہ پائے۔ان کا ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ تحریک انصاف سے اپنا راستہ الگ کرلیا۔وہ کچھ کہہ ڈالا جو محسوس کرنے والے تو بہت تھے، لیکن برملا کہنے والا کوئی نہیں تھا۔تحریک انصاف سے استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور میدان انتخاب میں نکل آئے۔
2011ء میں ہاشمی صاحب نے جب مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی وہ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔انہوں نے ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر استعفیٰ دے دیاتھا۔ تحریک انصاف ان دنوں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے خلاف تھی، اس لئے ان کی نشست پر بآسانی مسلم لیگی امیدوار کو کامیابی مل گئی۔اب تحریک انصاف چھوڑی تو اس کی ٹکٹ پر جیتی ہوئی نشست بھی چھوڑ دی، اور یوں سیاست کی لاج رکھی۔اسی نشست پر انتخاب ہوا ہے تو پورے ملک کی توجہ اس پر مرکوز رہی ہے۔تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی استعفے سپیکر کو بھجوا چکے ہیں، موجودہ انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن پر تحریک کے اعتراضات بھی بہت شدید ہیں، اس کے باوجود مخدوم شاہ محمود قریشی نے عامر ڈوگر کو میدان میں لا اتارا۔وہ آزاد امیدوار تھے، لیکن ان کی حمایت کا اعلان کیا گیا، ان کا نشان خرگوش بلے کا متبادل قرار پایا۔ملتان کے جلسے میں سٹیج پر یہ صاحب تشریف فرما ہوئے جاوید ہاشمی بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑرہے تھے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کیا، حسبِ توفیق ان کی حمایت بھی کی... نتیجہ آیا تو جاوید ہاشمی کے مقابلے میں عامر ڈوگر کے ووٹ زیادہ تھے۔تحریک انصاف کی نشست، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کے پاس ہی رہی تھی۔جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ (ن) مل کر بھی کامیابی حاصل نہ کر پائے تھے۔ گزشتہ انتیس سال میں دوسری بار قومی اسمبلی میں جاوید ہاشمی کی آواز سنائی نہیں دے گی۔ تحریک انصاف اس فتح پر جشن منا رہی ہے، لیکن جاوید ہاشمی اپنی شکست سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، انہیں اطمینان ہے کہ گھاٹے کا سودا انہوںنے بھی نہیں کیا، تبدیلی کو بیلٹ بکس سے الگ کرنے کی کوشش ناکام جو بنا ڈالی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)