زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے دورئہ لاہور نے پورے پاکستان کو سرشار کررکھا ہے۔ پہلا ٹی ٹونٹی پاکستانی ٹیم نے جیت لیا،لیکن فضا ایسی تھی کہ اگر زمبابوے وہ میچ جیت جاتا تو زندہ دلانِ لاہور اس کا جشن بھی مناتے۔ کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کی تنہائی ختم ہوئی اور چھ سال پہلے اسی شہر میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردی کا جو حملہ ہواتھا، اس کے اثرات مندمل ہوتے نظر آئے۔ سری لنکا کی ٹیم کے لئے (آج کے مقابلے میں) دس گنا کم حفاظتی انتظامات بھی کر لئے جاتے تو دہشت گردوں کو اپنے مذموم عزائم میں کامیابی نہ ہو پاتی، لیکن اس وقت پنجاب گورنر راج سے نبردآزما ہو رہا تھا۔ کوئی ''باقاعدہ‘‘ حکومت موجود نہیں تھی۔ ان دنوں سپریم کورٹ کو ''ڈوگر کورٹ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا، اس کے ایک فیصلے نے پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کو پنجاب میں دو ماہ کے لئے گورنر راج نافذ کرنے پر مجبور(؟) کر دیاتھا۔ یہ واردات 21فروری 2009ء کو ہوئی اور 3مارچ کو وہ سانحہ پیش آ گیا، جس نے اہل پاکستان کو عالمی کرکٹ کے زمینی نظارے سے محروم کردیا۔ اگر 2009ء میں منتخب صوبائی حکومت موجود ہوتی تو اولاً تو اس نے حفاظتی اقدامات کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہوتا، اگر خدانخواستہ (پھر بھی) کچھ ہو جاتا تو میڈیا پرسنز کی ایک بڑی کھیپ آج 2009ء کے مناظر دکھا دکھا کر اس سے خون کا حساب طلب کر رہی ہوتی۔ بہرحال، مقامِ شکر ہے کہ زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان آنے کا حوصلہ کر لیا اور کراچی کے سانحہ صفورا چورنگی کے باوجود اس کی حکومت اور کرکٹ انتظامیہ نے کسی جذباتی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔
یاد رہنا چاہیے کہ سری لنکا کی ٹیم بھی پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے شدید جذبے کا اظہار کرنے کے لئے آئی تھی۔ ممبئی حملے کے بعد بھارتی کرکٹ ٹیم کا دورئہ پاکستان منسوخ کر دیا گیا تھا۔ سری لنکا کی حکومت نے اس مشکل گھڑی میں دوستی کا حق یوں ادا کیا کہ اپنی ٹیم کو(بھارتی ٹیم کی جگہ)پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے لئے روانہ کر دیاکہ زرداری + گیلانی حکومت کی طرف سے یقین دلایا گیا تھا کہ مہمان ٹیم کو ''پریذیڈنشل سکیورٹی‘‘ دی جائے گی یعنی اس طرح کا حفاظتی انتظام ہو گا جس طرح صدر پاکستان کے لئے کیا جاتا ہے۔2007ء میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کے دورے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستانی شائقین کو عالمی کرکٹ دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ قذافی سٹیڈیم کے قریب لبرٹی چوک کے قریب چھپے ہوئے 12بندوق برداروں نے کھلاڑیوں کی بس پر اس وقت گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی۔ پولیس نے جوابی فائر کھولا، لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بس پر ایک راکٹ بھی فائر کیا گیا ، لیکن خوش قسمتی سے وہ بجلی کے ایک کھمبے سے جا ٹکرایا۔ بس ڈرائیور نے بہادری اور چوکسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکسیلیٹر دبایا اور سٹیڈیم پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ سری لنکا ٹیم کو فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہوٹل پہنچایا گیا اور پروگرام منسوخ کرتے ہوئے اس کے ارکان وطن واپس روانہ ہو گئے۔سری لنکا کے وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ حملے کے پیچھے تامل ٹائیگرز کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ کئی تبصرہ نگاروں نے اسے ''را‘‘ کی کارستانی قرار دیا، لیکن وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن نے فوری طور پر بیان جاری کیا کہ ہمارے نقطہ نظر سے بھارت اس معاملے میں ملوث نہیں ہے۔ اس نے دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں ہمارا ہاتھ بٹایا ہے۔ کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ سری لنکا کی ٹیم کو بھارت نشانہ بنائے۔ امریکہ کے ایک ممتاز ترین اخبار نویس فرید زکریا نے یہ کہہ کر ''اظہار محبت‘‘ کر دیا: اس حملے سے پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔
زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان آکر یہ ''تہمت‘‘ ہمارے سر سے اتار دی ہے۔ لیکن پاکستان کو ایک پرامن اور محفوظ ملک بنانے کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ سانحہ صفورا چورنگی اور سماجی رہنما سبین محمود کی ہلاکت کے ذمہ داروں کی گرفتاری نے ایک بار پھر بتایا ہے کہ دہشت گردی کے عفریت کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ مذکورہ بالا وارداتوں کے ذمہ دار اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل نوجوان ہیں، جنہیں(بظاہر) کسی قسم کی معاشی محرومی بھی لاحق نہیں ہے۔ آج تک نزلہ مدرسوں ہی پر گرتا رہا ہے اور انہی کو دہشت گردی کی افزائش کا تمام تر ذمہ دار کہا جاتا رہا ہے۔ مدرسوں کو بری الذمہ قرار دینا مقصود ہے نہ یونیورسٹیوں کو گردن زدنی۔ معاملہ گہرا اور پیچیدہ ہے۔
چند روز پہلے صدر ممنون حسین نے ایوان صدر میں تحریک پاکستان کے (بچے کھچے)کارکنوں کے ایک گروپ کو مدعو کیا تھا۔ قیام پاکستان کو 68سال گزر چکے ہیں۔اس وقت سرگرم کردار ادا کرنے والا 24،25سال کا ہو تو بھی آج اسے نوے سے اوپر ہونا چاہیے۔ صدر مملکت کے مہمانوں میں چند ہی افرادایسے تھے۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نائیک نقیب اللہ ماشاء اللہ 108سال کی عمر میں بھی چاق و چوبند تھے۔ شرکاء کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی کہ ایوان صدر میں آج تک ایسی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔ کبھی تحریک پاکستان کے کارکنوں کو اجتماعی طور پر ملاقات کے لئے مدعو نہیں کیا گیا۔ کئی حضرات و خواتین نے مختصراً اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہر ایک کے الفاظ اپنے اپنے تھے، لیکن اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں تھا کہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف وہ توجہ نہیں دی جا سکی جو ایک نظریاتی مملکت میں دی جانی چاہیے۔ یہ کہنا تو درست نہیں ہوگا کہ ہمارا ہر نوجوان بھٹکا ہوا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیم و تربیت کو قومی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا جا سکا۔سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنمائی کے دعویدار اس طرف متوجہ ہوں کہ ان کی کم نگاہی ہی نے یہ ستم ڈھایا ہے۔رہنما اگر رول ماڈل بننے کی صلاحیت (اور امنگ) نہ رکھتا ہو تو پھر وہ قوم کو گڑھے میں دھکا تو دے سکتا ہے، بلندیوں میں پرواز کا ذوق نہیں بخش سکتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)