"MSC" (space) message & send to 7575

مودی صاحب کے چہرے پر

اس بار اگست عجب رنگ سے گزرا۔ اس مہینے کے دوران ایسے واقعات (یا حادثات) پیش آئے جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور ریاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ کوئٹہ میں خودکش دھماکے میں بلوچستان اپنے انتہائی سینئر اور ممتاز قانون دانوں کی بہت بڑی تعداد سے محروم ہو گیا۔ اس کے بعد ''را‘‘ کی طرف انگلیاں اٹھیں۔ بلوچستانی وزیر اعلیٰ اور دوسرے رہنمائوں نے واضح الفاظ میں الزام لگایا کہ بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے ہندوستان مصروف عمل ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی کے کارندے یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس الزام پر محمود خان اچکزئی نے جو کہ فخریہ طور پر بلوچستانی گاندھی کہلانے والے خان عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے ہیں اور جن کی جماعت بلوچستان کی مخلوط حکومت کی سرگرم شراکت کار ہے، اپنے ہی ملک کے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی، لیکن 15 اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کا ذکر اس انداز میں کیا کہ پاکستان میں اسے ''اعترافِ جرم‘‘ کا نام دیا گیا اور پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونج اٹھا۔
یوم آزادی کو ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم بانی الطاف حسین نے کراچی میں اپنے کارکنوں کے ایک بھوک ہڑتالی کیمپ سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے خلاف اُکسایا۔ ایسی زبان استعمال کی جس کے یوں برملا استعمال کی اس سے پہلے کسی پاکستانی سیاستدان کو جرات نہیں ہو سکی تھی۔ انہوں نے ''پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور لگوائے (یہ اور بات کہ ان کے سامعین کی بھاری اکثریت نے اس حوالے سے کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا)۔ الطاف حسین الیکٹرانک میڈیا پر بھی برسے اور کئی میڈیا ہائوسز کا نام لے کر لوگوں کو ان پر حملہ آور ہونے کی شہ دی۔ ان کی تقریر کے بعد کئی مشتعل کارکن اے آر وائی نیوز اور بعض دوسرے چینلز کے دفاتر پر چڑھ دوڑے، بعض خواتین کارکنوں نے تو اس چابکدستی سے کام کیا کہ دیکھنے والوں کو گمان گزرا کہ شاید انہیں تخریب کاری اور توڑ پھوڑ کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ایم کیو ایم کے وارداتیوں نے خواتین کے خصوصی دستے اس کام کے لئے منظم کر رکھے ہوں۔
الطاف حسین کی یہ تقریر پاکستان کی تاریخ کا ایک نرالا وقوعہ تھا۔ اس سے نہ صرف پاکستان بھر میں کھلبلی مچی، بلکہ ایم کیو ایم کی اپنی صفوں میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حامیوں کے لئے یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا گیا تھا۔ ان کی صفوں سے ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہونے لگے اور پاکستان بھی طورخم سے گوادر تک متحد ہو گیا۔ الطاف حسین کے خلاف شدید کارروائی کے مطالبے نے آسمان سر پر اٹھا لیا، اور دور و نزدیک یہ تاثر عام ہو گیا کہ ایم کیو ایم کے بانی رہنما نے خودکش حملہ کر دیا ہے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والوں کا نقصان تو کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن حملہ آور سو فیصد ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ سو، الطاف حسین پر بھی یہی گزری۔ برسوں کی ریاضت سے انہوں نے جو کچھ بنایا تھا، وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
الطاف حسین کی خرابیء صحت کو اس کا سبب بتایا جائے یا کثرتِ مے نوشی میں اس کی وجہ ڈھونڈی جائے، یہ کہنے والے کم نہیں تھے کہ مودی کی ''جارحانہ پالیسی‘‘ بھی اس میں کہیں نہ کہیں بول رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد غم و غصے کی شدید لہر اٹھی ہوئی ہے، اس میں متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور چھرے دار بندوقوں کے ذریعے درجنوں کیا سینکڑوں افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر تُھوتُھو کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی سخت دبائو میں ہیں اور اپنے ہم وطن اہل سیاست کے ساتھ مل کر کوئی ''پائیدار حل‘‘ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسا حل جس میں کشمیر یوں کے حق خودارادیت کی نفی کرتے ہوئے ان کے سینوں میں لگی آگ سرد کی جا سکے۔
ہندوستان میں یہ بات کھلم کھلا زیر بحث ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بلوچستان کا مسئلہ اٹھا کر ''جارحانہ دفاع‘‘ کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ انہیں اس پر داد دینے والے بھی موجود ہیں، لیکن تشویش کا اظہار کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا مصدقہ اور مسلمہ حصہ ہے، اسے متنازعہ بنانے کا شوق جہاں ہندوستان کا چہرا گدلا کر سکتا ہے، وہاں خطے کے تمام ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی بجا سکتا ہے۔ ایران اور افغانستان (اپنی وقتی جذباتیت سے قطع نظر) اپنی بلوچ آبادی کے حوالے سے پریشان ہو سکتے ہیں اور سی پیک اور گوادر کی وجہ سے چین کے ساتھ ہندوستانی تعلقات میں دراڑ گہری ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس سے قطع نظر کہ مودی صاحب کے ہاتھ کچھ آتا ہے یا نہیں، الطاف حسین کے دلوں کو چھیدنے والے الفاظ نے بھارتی ہاتھ کی کارستانیوں کو نمایاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ ممکن ہے کہ بیمار اور افسردہ الطاف حسین کے گرد جو افراد جمع ہیں، وقت اور موقع کا انتخاب انہوں نے کیا ہو اور اپنے ''قائد‘‘ کو ورغلا گزرے ہوں۔
پاکستان میں اٹھنے والے شدید ردعمل نے ایم کیو ایم کے مقامی رہنمائوں کو مجبور کیا کہ وہ فاروق ستار کی قیادت میں کھڑے ہو کر لندن سیکرٹریٹ سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔ انہوں نے الطاف حسین کی (زیر بحث) تقریر سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر اپنی سیاست اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس کا خیر مقدم کرنے والے کم نہیں ہیں، لیکن اسے حیلہ جوئی قرار دینے والے بھی موجود ہیں۔ بہت سے حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے اور اس کے سیاسی عناصر نئے نام سے سیاست کریں، پرانے نام اور کام کو دفن کر دیں۔
پابندی لگا کر کسی نئی جماعت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے یا کسی موجودہ جماعت کو آگے بڑھنے کا موقع دیا 
جائے یا فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنے والے سیاسی کارکنوں کی بات سنی جائے، ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم کے عسکریوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر پر معذرت کا اظہار کر دیا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اعلانات کی بھی توثیق کر دی ہے۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کی طرف توجہ دینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے اور یوں پاکستانی سیاست اور ریاست کی توانائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگست کے مہینے میں آزادی کی حفاظت کرنے کا جذبہ فزوں تر ہوا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جارحانہ حکمت عملی صدمے سے دوچار ہے۔ ''انڈیا ٹوڈے‘‘ نے اپنے تازہ شمارے میں جنرل راحیل شریف کے چہرے پر تھپڑ کا نشان لگا کر سرورق چھاپا ہے، پاکستانی سیاست کا معروضی جائزہ لینے والے مبصرین کہہ سکتے ہیں کہ یہ تھپڑ (فی الحال) مودی صاحب کے اپنے چہرے پر رسید کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ اور کراچی کے واقعات نے اہلِ پاکستان کے حوصلے توڑے نہیں، انہیں مزید بلند کر دیا ہے:
تُندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
میاں محمد علی مرحوم 
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سابق رکن، اور سندھ میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھنے والوں میں نمایاں، میاں محمد علی 92 سال کی عمر میں چند روز پہلے انتقال کر گئے۔ سندھ میں جب لسائی سیاست عروج پر تھی تو انہوں نے اسلام آباد کو اپنا مسکن بنا لیا تھا‘ وہیں آخری سانس لئے۔ ان کے بڑے بیٹے ظفر اقبال آئی بی میں جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے اور اپنی ذہانت اور دیانت کا سکہ جمایا۔ دوسرے چار صاحبزادے تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مرحوم میری اہلیہ کے چچا اور میاں محمد شوکت مرحوم کے چھوٹے بھائی تھے۔ انتہائی زیرک اور معاملہ فہم، جماعت اسلامی کے اولین کارکنوں میں سے تھے۔ جماعت کی بنیاد میں ایسی پختہ اینٹیں لگی ہوئی ہیں کہ اس کی عمارت کو جھکنے نہیں دیتیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں