"MSC" (space) message & send to 7575

ملاقات

نام ابوالاعلیٰ، بندہء باری تعالیٰ... دارا و سکندر سے یہ مردِ فقیر اعلیٰ ... لطافتوں کا پیرایہ، شفقتوں کا کنایہ، مسکراہٹوں کا سایہ، خواجہ مودود چشتی کا سرمایہ، پاکیزگی کا جایا، بندہء خاکی، مگر جبریل ؑ کا ہمسایہ...
رنگ گورا شفق بکھیرتا ہوا، پیشانی کشادہ و بلند گویا عالی دماغ کا احاطہ کئے ہوئے ایک استخوانی بند، بحرِ مواج کے تلاطم جس میں نظر بند...
آنکھیں بڑی بڑی، اشیا کی حقیقتوں کو دیکھتی ہوئیں، دیکھنے سے زیادہ بولتی ہوئیں، بولنے سے زیادہ سوچتی ہوئیں، سوچنے سے زیادہ روشنی بکھیرتی، رہگذر کو منور کرتی ہوئیں... ملت کے کاروانِ گم گشتہ کے لئے روشن مینار، تاریخ کے نشیب و فراز کی رازدار، واقفِ رموز و اسرار، مستقبل ان پر آشکار، مئے توحید سے سرشار، دو گوہرِ آبدار... ان پر آویزاں چشمہء زرنگار... جیسے خوبصورت فریم میں مصور کا شاہکار...
عزائم بلند، استقامت کا کوہِ الوند، فلسفے، تحقیق اور تاریخ کے سیاروں پر فکرِِ رسا کی کمند، گفتگو شکرقند، اللہ کی سوگند، گھر جس کا نہ دِلی نہ صفاہاں نہ سمرقند...
میٹھے بول بولنے والے پتلے لب، جانِ ادب... نہ مبالغے سے شناسا، نہ جھوٹ سے آشنا، سرچشمہء صدق و صفا خاموش ہوں تو رفتارِ زمانہ گوش بر آواز... کھلیں تو خود سخن کو وجہ افتخار و ناز...
شیریں دہن، چمکتے دانتوں سے مزین... پانوں کی مسلسل رفاقت جن کے حسن کو کبھی متاثر نہ کر سکی کہ انہیں جس شخص سے نسبت تھی وہ نہ رنگ بدلنے سے آگاہ تھا، نہ کسی کا رنگ قبول کرنا اُس کی سرشت میں تھا، نہ اللہ کے رنگ کے سوا کسی رنگ میں اسے رنگنا ممکن تھا۔
ہونٹوں کو پیش بیں آنکھوں سے ملاتی متوازن ناک، ذاتیات سے پاک... کوئی شخصی یا ذاتی معاملہ اس ناک کا مسئلہ نہ بنا، نہ اُصول کے سوال پر یہ ناک کبھی نیچی ہو سکی...
چہرے کے شگفتہ تاثر کی حفاظت کرتی ہوئی سفید براق ڈاڑھی... نہ طویل نہ قلیل...
سر کے بال پٹے دار جیسے نقرئی تار... ڈاڑھی کے ساتھ مل کر چاند کے گرد ہالہ بناتے، جلال و جمال کو دوبالا کرتے اور اُجالا پھیلاتے۔
صاحبِ تفہیم القرآن، بولیں تو معافی کا اک جہان، اٹھیں تو اک طوفان، چلیں تو صورتِ ''عبدرحمان‘‘، لکھیں تو ''ترجمان القرآن‘‘... کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان، شکوہء اقبال کے قبول کا فرمان، ''حاضر و موجود سے بیزاری‘‘ کا اعلان، اس صدی کا انسان... زندگی اک عرصہء امتحان... موت، حیاتِ جاوداں... ؎
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں