پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر اسلام آباد کا رُخ کر رہی ہے۔ جنابِ عمران خان اور ان کے متعلقین کہہ رہے ہیں کہ دس لاکھ افراد مُلک بھر سے اکٹھے ہوں گے، اور کاروبارِ حکومت بند کر دیں گے۔ اب یا کبھی نہیں۔ یہ آخری احتجاج ہو گا، یعنی اس کے بعد وہ باقی نہ رہیں گے جن کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے، نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری... تاریخ سازی کے لیے 2 نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یہ سارا ہنگامہ پاناما کے نام پر اُٹھایا جا رہا ہے۔ عمران خان صاحب کا اولین موقف یہ تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں، جب (خان کی) درخواست سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے منظور کرکے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کر دی (اور اب پانچ رکنی لارجر بنچ بھی مقرر کر دیا ہے) تو پھر خیال یہ تھا کہ خان صاحب اپنے مداحوں اور کارکنوں کو تکلیف نہیں دیں گے، سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ وزیر اعظم نے بھی سپریم کورٹ کے اقدام پر اطمینان کا اظہار کرکے یہ تک کہہ دیا تھا کہ اِس حوالے سے حق سماعت کا اعتراض نہیں اُٹھایا جائے گا۔ سپریم کورٹ میں جب بھی کوئی معاملہ براہِ راست زیر سماعت آتا ہے، تو یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اپیل کی آخری عدالت کو ابتدائی عدالت کا کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ سپریم کورٹ کا براہِ راست سماعت کا اختیار بنیادی حقوق کے حوالے سے مشروط ہے۔ صرف وہی امور یہاں اُٹھائے جا سکتے ہیں جن سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہوں۔ اِس بارے میں سپریم کورٹ کو سووموٹو، یعنی از خود نوٹس لینے کا اختیار بھی حاصل ہے‘ یعنی کسی درخواست گزار یا وکیل کے بغیر بھی عصائے انصاف حرکت میں آ سکتا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری نے اِس حوالے سے اپنا اختیار اتنا بڑھایا تھا کہ بہت سے لوگوں نے بہت سے لوگوں کی بجائے اپنے اپنے کان پکڑ لیے تھے۔ ہر تنازع، قضیے یا شکایت کا تعلق کسی نہ کسی انسان سے ہوتا ہے، اور ہر انسان کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں، اس لیے ہر معاملے میں سے بنیادی حقوق نکال کر اُسے براہِ راست اپنی زد میں لیا جا سکتا ہے۔ بگلا سفید ہوتا ہے، دودھ بھی سفید ہوتا ہے، اور دودھ کی کھیر بھی سفید ہوتی ہے، اس لیے بگلے کو دودھ اور دودھ کو کھیر کہا جا سکتا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری نے اپنے انداز و اطوار سے فرسٹریشن کے مارے عوام کو بڑی آسودگی دی، اور وہ ان کے گن گانے لگے۔ انہیں عوامی چیف جسٹس قرار دیا جاتا تھا، اور جس طرح اُنہیں بحال کرایا گیا، اُس کی مثال تو تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ان کے اقدامات تادیر زیر بحث رہیں گے، اور انہیں یکسر مسترد کرنا یا یکسر قبول کرنا مشکل بنا رہے گا۔ اب وہ ایک سیاسی جماعت ایجاد کرنے کے باوجود بھولی بسری کہانی بن چکے ہیں۔ اُن پر جان چھڑکنے والے بہت سے اُن سے جان چھڑاتے پھرتے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی ان کی قائم کردہ (ساری) روایات کی حفاظت نہیں کر پا رہی۔ اگرچہ غرض مند یہی غرض رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ خود انکوائری کورٹ بن جائے،... اور کسی نہ کسی طور وزیر اعظم نواز شریف کا یوسف رضا گیلانی بنا دے۔
یہ امید اب دم توڑ رہی ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ سے پاناما لیکس کے ملزموں کی تلاشی لینے کی توقع کو کسی کنارے لگنے دیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے البتہ اپنے ایک ابتدائی حکم میں واضح کر دیا ہے کہ خان صاحب کو اسلام آباد بند کرنے کی اجازت ہو گی‘ نہ حکومت کو۔ وہ ایک مخصوص جگہ پر اجتماع کر سکیں گے۔ احتجاج کے آئینی حق پر اصرار کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عام شہریوں کے آئینی حقوق سلب کر لیے جائیں۔ اس حکم پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن حکومت کا ارادہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اس نے اسلام آباد میں دفعہ 144 لگا کر تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن کے انعقاد پر پابندی لگائی، جب شرکا نے اس پر احتجاج کیا تو ان میں سے کئی کو گرفتار کرکے، کئی کو ''لاٹھی چارج‘‘ کے سپرد کر دیا۔ ظاہر ہے اس کارروائی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پولیس کو سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو تلخیاںبڑھیں گی۔ انتقام اور اشتعال کی آگ بھڑکے گی، جو ناخوشگوار واقعات کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک طرف یہ معاملات ہیں، تو دوسری طرف ''ڈان لیکس‘‘ کا معاملہ سمٹ نہیں رہا۔ بدھ کی شام وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے آرمی چیف کے دفتر جا کر ان سے طویل ملاقات کی۔ رات گئے آئی ایس پی آر نے بتایا کہ صرف ''پلانٹڈ سٹوری‘‘ پر بات ہوئی ہے، گویا فوجی حکام بضد ہیں کہ اس خبر کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی کے ہمراہ میڈیا پرسنز سے ملاقات کے دوران تصدیق کی کہ ملاقات کا موضوع یہی تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں اور اِس حوالے سے سیاسی قیادت اور فوجی حکام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اس سے قطع نظر کہ معاملہ کس طرح آگے بڑھتا ہے متعلقہ اخبار اور اخبار نویس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ آنے والے دِنوں میں کیا چُھپا ہوا ہے یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے، لیکن ایک بات واضح رہنی چاہئے کہ پاکستان کی سلامتی اور ترقی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دستوری نظم میں خلل نہ پڑے۔ مختلف نعروں اور حربوں سے مختلف اوقات میں ہماری دستوری زندگی اغوا ہوتی رہی ہے، اور اس کے منفی اثرات بہت دیرپا ثابت ہوئے ہیں۔ اقتدار کی تبدیلی بہرحال دستوری طریقے سے ہونی چاہئے۔ نہ کسی کو دھکے یا ہلّے سے تخت پر بٹھایا جائے نہ اتارا جائے۔ یہ بات (کسی) حکومت کے حق میں یا اس کی محبت میں مبتلا ہو کر نہیں کہی جاتی، بلکہ مُلک اور قوم کی محبت میں کہی جاتی ہے اور سب سے بڑا قومی مفاد یہی ہے۔ ہر دوسرا مفاد اس کے تابع ہے یہاں تک کہ قومی سلامتی بھی اس سے جڑی ہوئی ہے۔ دونوں کو الگ الگ کرنا گوشت کو ناخن سے جدا کرنا ہے، اِس لئے ہوش کے ناخن لینا ضروری ہیں۔ ہم سب کے لیے ضروری!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)