پاناما کا ہنگامہ اگرچہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے؛ تاہم میڈیا کا بازار بدستور گرم ہے۔ فریقین زور شور سے اپنا موقف بیان کر رہے اور ایک دوسرے کے لتّے لے رہے ہیں۔ ممتاز قانون دان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ ان میں سے کئی اس قطعیت کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے ہیں، جیسے ان کو منصف کی کرسی نصیب ہو گئی ہو۔ اخبارات میں بھی تحقیق و تفتیش کا عمل جاری ہے اور اس حوالے سے اپنی دھاک بٹھانے والے دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ عدالت میں جب کوئی دستاویز پیش ہوتی ہے تو اس کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں۔ ایک ایک سوال کے کئی کئی جواب اور ہر جواب سے کئی کئی سوال برآمد کرنے کی مشق جاری ہے۔ کہیں وزیر اعظم نواز شریف کو قانونی طور پر بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے‘ تو کہیں ان کو سیاست کے اکھاڑے میں رگیدا جا رہا ہے۔ کہیں عمران خان اور شیخ رشید کی ہوائیاں اڑتی دکھائی جا رہی ہیں‘ تو کہیں ان کو اعتماد کی دولت سے مالامال گردانا جا رہا ہے۔ ہر دو حضرات (اپنے بقول) نجی مصروفیات کی وجہ سے برطانیہ روانہ ہوئے ہیں‘ تو کہا جانے لگا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف (تازہ) ثبوت فراہم کرنے کے لئے وہاں گئے ہیں۔ وکلائے کرام بھی ایک دوسرے کی زد میں ہیں‘ اور بعض کو میڈیا نے سان پر رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا اپنی جگہ آپے سے باہر ہے۔ سپریم کورٹ کے بارے میں آداب بھی نظر انداز کئے جا رہے ہیں‘ اور مقدمے کی کارروائی کے متعلق بھی بے سروپا تبصرے زوروں پر ہیں۔ سپریم کورٹ نے سماعت کو نومبر کی آخری تاریخ تک ملتوی کیا تو عمران خان کے (باوقار اور باکردار) وکیل حامد خان پر چڑھائی کر دی گئی۔ تحریکِ انصاف کے جیالے سوشل میڈیا میں ان پر چڑھ دوڑے۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی ان کے دلائل پر بے اطمینانی کا اظہار شروع ہو گیا۔ یہ طوفان بدتمیزی دیکھ کر حامد خان نے مقدمے سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عدالت میں تو مقدمہ لڑ سکتے ہیں، لیکن میڈیا کی یلغار کا سامنا کرنے کا یارا نہیں رکھتے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے ساتھ جو کچھ کرنے کا خواب دیکھا اور دکھایا جا رہا تھا‘ اس کو تو رکھیے ایک طرف، اس مقدمے کی پہلی ''شہادت‘‘ حامد خان نے دے ڈالی ہے‘ یا ان سے لے لی گئی ہے۔ سنا ہے کہ اعتزاز احسن نئے وکیل مقرر کیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ بابر اعوان صاحب یہ ذمہ داری نبھائیں گے۔ بوجھ جو بھی اٹھائے، تحریکِ انصاف حامد خان جیسے سنجیدہ وکیل سے محروم ہو گئی ہے‘ اور یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
جب عشروں پہلے کوچہء صحافت میں قدم رکھا تھا‘ تو اس وقت عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت شروع ہوتے ہی اس پر خیال آرائی ختم ہو جاتی تھی۔ نہ کوئی تجزیہ کیا جا سکتا تھا، نہ قیاس آرائی ہو سکتی تھی۔ نہ کسی قانون دان کو یہ جرات ہوتی تھی کہ وہ عدالت کی کارروائی پر تبصرہ کرے، یا مخالف وکیل کو آڑے یا سیدھے ہاتھوں لے۔ کوئی سیاستدان بھی زبان نہیں کھول سکتا تھا، بلکہ یوں کہیے کہ نہیں کھولتا تھا۔ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا تھا یہ ''سب جوڈائس‘‘ (Sub-Judice) ہے یعنی معاملہ عدالت میں ہے، اس لئے اس پر کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ لیکن اب میڈیا ہی نہیں سیاست اور قانون بھی آزاد ہو چکے ہیں، اسے مادر پدر آزادی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اب تو سپریم کورٹ کے احاطے ہی میں سٹیج سجی ہوئی ہے۔ فریقین کمرہ عدالت سے نکلتے ہیں تو یہاں دھاڑتے پائے جاتے ہیں۔ کیمروں کی چکاچوند ان کو ہلا شیری دیتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے، پہلے تقریر کرنے کی آرزو میں مرے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کی اپنے اپنے رنگ میں تشریح ہوتی ہے اور مخالفوں کو للکارا جاتا ہے کہ وہ بچ کر نہیں جانے والے۔ عدالت ان کا کباڑا کرکے رہے گی۔ جو کسر یہاں رہ جاتی ہے، وہ ٹاک شوز میں پوری کر لی جاتی ہے۔ ایک ایک لفظ کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور عدالت پر اپنے اپنے رنگ میں اثر انداز ہونے کی کوشش زوروں پر نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت سے باہر عدالتیں لگا کر بیٹھنا ہے تو پھر معاملہ عدالت میں کیوں لے جایا جائے؟ کیا یہ عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی دانستہ کوشش نہیں ہے؟ کیا اسے توہین عدالت قرار نہیں دیا جانا چاہیے؟
سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان جو ریمارکس دیتے یا کسی نکتے کی تشریح کے لئے جو سوال کرتے ہیں انہیں فیصلہ بنا کر یا سمجھ کر ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ایک ایک لفظ سے اپنی اپنی مرضی کے معانی تلاش کئے جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر فاضل جج کے ہر ریمارک پر سر نہیں دھنا جا سکتا، لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک فاضل جج نے جب اخباری تراشوں کو حقارت سے یہ کہہ کر رد کیا کہ اخبارات میں تو اگلے دن پکوڑے فروخت ہوتے ہیں‘ تو ایک اخبار نویس کے طور پر دل خون ہوا۔ یقینا اخبارات میں چھپنے والے ہر لفظ کو الہام کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ ان میں بیانات بھی چھپتے ہیں، الزامات بھی۔ اخبار میں شائع ہونے والی کسی خبر کو صرف اس لئے سچ نہیں مانا جا سکتا کہ اسے چھاپ ڈالا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اخبارات کے صفحات میں کئی معرکے کی تحقیقی رپورٹیں چھپتی ہیں۔ واٹر گیٹ سکینڈل‘ جو امریکہ جیسی سپر پاور کے طاقتور صدر رچرڈ نکسن کے زوال کا باعث بنا‘ اخباری رپورٹ ہی کے ذریعے منظر عام پر آیا تھا۔ پاکستان میں بھی کئی اخباری رپورٹوں پر سپریم کورٹ نے سوئوموٹو نوٹس لئے ہیں۔ ان کی بنیاد پر احکامات جاری کئے گئے۔ فیصلے صادر ہوئے ہیں۔ گرفتاریاں ہوئی ہیں اور وصولیاں کی گئی ہیں۔کسی بات کو جہاں صرف اس لئے سچ تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ اخبارات میں شائع ہوئی ہے، وہاں صرف اس لئے غلط بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اخبار میں جگہ پا لی ہے۔ دنیا بھر میں عدالتوں کے فیصلے بھی رد کئے گئے ہیں، خود پاکستان ہی میں دیکھیے، جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کو جواز عطا کرنے کا فیصلہ خود سپریم کورٹ ہی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ بھی اسی ٹوکری کی زینت بنا ہوا ہے۔ ان فیصلوں میں تو پکوڑے بھی فروخت نہیں ہو پاتے۔ صداقت کو شہادت کی ضرورت ہوتی ہے اور شہادت کے بغیر کوئی لفظ جہاں بھی ہو، اس پر تین حرف بھیج دینے چاہئیں۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]